ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آسرے توڑتے ہیں ، کتنے بھرم توڑتے ہیں
حادثے دل پہ مرے دُہرا ستم توڑتے ہیں

آ ستینوں میں خداوند چھپا کر اتنے
لوگ کن ہاتھوں سے پتھر کے صنم توڑتے ہیں

اُٹھ گئی رسمِ صدا شہر ِ طلب سے کب کی
اب تو کشکولِ ہوس بابِ کرم توڑتے ہیں

جھوٹی تعبیر کے آرام کدے سے تو نکل
خواب کتنے تری دہلیز پہ دم توڑتے ہیں

ہم نے اُس شہر میں بھی پاسِ وفا رکھا ہے
قیس و فرہاد جہاں روز قسم توڑتے ہیں

پڑھنے والے پڑھا کرتے ہیں ترے چہرے کو
لکھنے والے ترے قدموں میں قلم توڑتے ہیں

تیرا اعجاز کہ ہم تیری اسیری کے لئے
دامِ صد حلقہء دینار و درم توڑتے ہیں

۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۴ ۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واقعی لاجواب۔ ظہیر بھائی آپ چھا گئے ہیں۔
ارے اسد بھائی ، یہ کس قسم کی غیر شاعرانہ داد دی آپ نے ۔ :):):) واہ واہ کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اب ایسی باتیں نہ کیجئے ۔
آپ کو غزل پسند آئی ۔ محبت ہے آپ کی ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ ذوق سلامت رہے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حضرت آپ کی غزل پڑھ کر بے ساختہ لکھ دیا۔۔ برا مت مانیے گا۔ خوش رہیے۔
ارے اسد بھائی اس میں برا ماننا کیسا ۔ میں نے جملے کے آخر میں تین گول گپّے لگائے تو تھے ۔آپ کی داد تو اچھی لگی ۔ بس میری انکساری آپکی شاعرانہ پسلی میں ٹہوکا دے رہی تھی اور بس۔
:):):)
ویسےآپس کی بات یہ ہے کہ براماننے کے تمام ذاتی حقوق شادی کے فورا بعد ہم نے اپنے سسرال والوں کو برآمد کردئیے تھے ۔
 
Top