فرحان محمد خان
محفلین
غزل
کبھی ہم بھی کسی کی بزم سے بسمل نکلتے تھے
سراپا چشم جاتے تھے سراپا دل نکلتے تھے
مثالِ چاہِ نخشب تھی کبھی سینے کی گہرائی
کہ ہر ہر بات پر لب سے مہِ کامل نکلتے تھے
ہزاروں لغزشوں پر بھی نہ تھا گُم گشتگی کا ڈر
سبھی رستے بسوئے کوچۂ قاتل نکلتے تھے
کہاں کا بادباں ، پتوار کیسے ، ناخدا کس کا
کہ ہر سیلاب سے ، گرداب سے ساحل نکلتے تھے
یہ ذوقِ بے دلی تو اب ملا ہے ورنہ جب دیکھو
درِ دل پر تمناؤں کے سو سائل نکلتے تھے
زباں تو اب کٹی ہے ورنہ یہ عالم سخن کا تھا
کہ ہم ہر زخم کے اظہار پر مائل نکلتے تھے
بجائے حسن اب تو محملوں میں گرد ہوتی ہے
زمانے وہ گئے جب گرد سے محمل نکلتے تھے
کبھی ہم بھی کسی کی بزم سے بسمل نکلتے تھے
سراپا چشم جاتے تھے سراپا دل نکلتے تھے
مثالِ چاہِ نخشب تھی کبھی سینے کی گہرائی
کہ ہر ہر بات پر لب سے مہِ کامل نکلتے تھے
ہزاروں لغزشوں پر بھی نہ تھا گُم گشتگی کا ڈر
سبھی رستے بسوئے کوچۂ قاتل نکلتے تھے
کہاں کا بادباں ، پتوار کیسے ، ناخدا کس کا
کہ ہر سیلاب سے ، گرداب سے ساحل نکلتے تھے
یہ ذوقِ بے دلی تو اب ملا ہے ورنہ جب دیکھو
درِ دل پر تمناؤں کے سو سائل نکلتے تھے
زباں تو اب کٹی ہے ورنہ یہ عالم سخن کا تھا
کہ ہم ہر زخم کے اظہار پر مائل نکلتے تھے
بجائے حسن اب تو محملوں میں گرد ہوتی ہے
زمانے وہ گئے جب گرد سے محمل نکلتے تھے
خورشید رضوی