١٤ اگست یوم آزادی کے حوالے سے

ثناءاللہ

محفلین
ابن انشاء سے معذرت کے ساتھ
اردو کی آخری کتاب سے اقتباس چند تبدیلیوں کے ساتھ

“ایران میں کون رہتا ہے؟ اور کون سی زبان بولی جاتی ہے؟“
“ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے اور فارسی بولی جاتی ہے۔“
“انگلستان میں کون رہتا ہے؟اور کون سی زبان بولی جاتی ہے؟“
“انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے اور انگریزی بولی جاتی ہے“
“فرانس میں کون رہتا ہے؟اور کون سی زبان بولی جاتی ہے؟“
“فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہےاور فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے؟“

“یہ کون سا ملک ہے؟“
“یہ پاکستان ہے“
“اس میں پاکستانی قوم رہتی ہو گی؟ اور اور یہاں کون سی زبان بولی جاتی ہے؟“

“نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی اور یہاں اردو بھی نہیں بولی جاتی“

“اس میں سندھی قوم رہتی ہے“
“اس میں پنجابی قوم رہتی ہے“
“اس میں بلوچی قوم رہتی ہے“
“اس میں بنگالی قوم رہتی ہے“
“اس میں پٹھان قوم رہتی ہے“
“اس میں یہ قوم رہتی ہے“
“اس میں وہ قوم رہتی ہے“
“اس میں پنجابی زبان بولی جاتی ہے۔اس میں انگریزی زبان بولی جاتی ہے۔اس میں سندھی زبان بولی جاتی ہے اس میں فلاں فلاں زبانیں بولی جاتیں ہیں“
“لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“
“سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“
“بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“
“بلوچی تو ایران میں بھی رہتے ہیں“

“پھر یہ الگ ملک کیوں بنایا“

“غلطی ہوئی۔ معاف کر دیجئے۔ آئندہ نہیں بنائیں گے“
 

منہاجین

محفلین
آئندہ ایسی غلطی مت کرنا

آئندہ ایسی غلطی مت کرنا، پہلے ہی بہت جوتے کھا چکے ہو۔

ویسے اگر غور کیا جائے تو علامہ اِقبالؒ نے تو پاکستان کو اِسلام کا قلعہ بنانے کے لئے ایک تجربہ گاہ کے طور پر تجویز کیا تھا، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں یہاں پر اُسے دیکھ کر تو علامہ کی روح بھی تڑپتی ہو گی۔
 

ثناءاللہ

محفلین
آئندہ ایسی غلطی مت کرنا

منہاجین نے کہا:
آئندہ ایسی غلطی مت کرنا، پہلے ہی بہت جوتے کھا چکے ہو۔

جناب جوتے تو ہم ٥٨ سال سے کھا رہے ہیں لیکن سمجھ ابھی تک نہیں آئی اس پر مجھے ایک دیہاتی کا قصہ یاد آ رہا ہے۔
ایک دیہاتی نے آڑھتی کے پیسے چرا لئے آڑھتی نے روپوٹ درج کروائی پولیس دیہاتی کو تھانے لے گئی اور اس کی سزا مقرر کی کہ یا تو سو جوتے کھاؤ یا ایک سو پیاز کھاؤ دیہاتی نے جوتے مشکل سزا سمجھ کے سو پیاز کھانے کا فیصلہ کیا جب ٧٠ ٧٥ پیاز کھا چکا تو باقی پیاز کھانا مشکل نظر آیا تو دوبارہ جوتے کھانے کا فیصلہ کیا جب ٩٩ جوتے کھا چکا تو دیہاتی کی پگڑی سے وہ پیسے بھی نیچے گر گئے جس کی خاطر اُس نے اتنی سزا جیھلنے کا فیصلہ کیا تھا
کچھ اسی طرح کی پوزیشن ہماری ہے۔ کہ ٥٨ سال سے نا اہل حکمرانوں اور لیڈروں کے جوتے کھا رہے ہیں اور جس کی خاطر جوتے کھا رہے ہیں اس کا ملنے کا دور دور تک نام و نشان نہیں اور بلکل یہی حالت علمی سطح پر بھی جوں کی توں ہے۔
 
Top