ماہا عطا
محفلین
ٹک ٹک ٹک ٹک۔۔۔۔۔دیر شب ٹک ٹک کرتی گھڑی کی ہولناکی میرے پورے وجود کو جیسے جھنجھوڑ رہی تھی،جیسے کوئی منادی صدا لگا رہا ہو کہ وقت اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔جلدی جلدی اپنی حیات کا توشہ سمیٹو اور نئے سفر کی تیاری کرو۔۔۔وقت کے اس بِگُل کی آواز سے تمام لوگوں میں جیسے بجلی سی کوند گئی ہو۔سب نے اپنی اپنی زیست کی ضروریات کے مطابقت سے زادِ سفر باندھنا شروع کیا۔مگر چونکہ وقت اپنی رفتار کی شدت پر تھا اور مہلت بس اتنی سی تھی کہ اپنی ذات کی ترجیہات کے تعلق سے اہم اور قیمتی اثاثے ہی سمیٹے جا سکتے تھے لہٰذا کسی نے دولت سمیٹی،،کسی نے شہرت سمیٹی،،کسی نے رتبہ سمبھالا،،تو کوئی ترقی اور علوم کی پوٹلی سینے سے لگائے نکل پرا۔اور کوئی طاقت کے نشے میں لڑکھڑاتا ہوا سیاست اور اقتدار کا جام لیے وقت کے اختتام کی سرحد پر موجود تھا۔غرض کہ سب نے ہی اپنی اپنی ترجیہات کے مطابق جسم و ذہن کی آسودگی کے لیے زادِ سفر ساتھ لیا اور نئے تابناک سفر کی جانب نکل پرے۔۔۔۔۔مگر میں !!! میں نہ جانے کس سونچ کے حصار میں تھی۔میرے ذہن میں خیالوں کا تلاطم ہچکولے لے رہا تھا۔ اگرچہ میرا وجود ساکت تھا مگر کہیں اندر ہی اندر سناٹوں کا شور برپا تھا۔ اور اس شور میں وقت کے منادی کی کوئی صدا میری سماعت کو مانوس نہ کر سکی۔اور وقت اپنے قافلے کے ہمراہ کوچ کر گیا۔۔۔۔
اپنی فہم و فراست کی بساط پر میرے ذہن نے ادراک کیا کہ وقت کے مثل انسان کی فطرت میں بھی ٹھہراؤ نہیں۔ اپنی
تخلیق سے لے کر اجل تک انسان نے وقت کی بدلتی رفتار کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر لیا اور ہمیشہ خوب سے خوب تر پانے کی مسلسل کاوشوں میں الجھا رہا ہے۔ اور بیشک اللہ نے انسان کی کاوشوں اور خواہشوں کا بدلہ بھی بیش سے بیشتر دیا ہے۔اللہ کا فرمان ہے کہ انسان کو وہی عطا کیا جاتا ہے جسکے لیے وہ جسم و جان سے مسلسل جدوجہد کرتا ہے۔یعنی جس چیز کی بھی وہ رغبت و تڑپ رکھتا ہے اسے وہی چیزبلا آخر نواز دی جاتی ہے۔اب یہ انسان کی کاوشوں اور تڑپ کی شدت پر منحصر ہے کہ وہ کس شئے کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔۔۔دولت، شہرت،علوم،اقتدار،طاقت۔۔۔ی ہ تمام اشیاء انسان کی چاہتوں کے اولین اہداف میں شمار ہوتی رہی ہیں۔اور انسان نے اپنی ذہانت اور مسلسل جدوجہد کے بعد ان سارے اہداف کوبلاشبہ پا بھی لیا ہے ۔ مگر!!!! سب پانے کے دوران انسان نے ایک چیز کھو دی ''سکون'' وہ قیمت جو انسان کو اپنے اولین اہداف کے حصول کے عوض چکانی پری ہے۔
فی الواقع انسان اب تک سکون کی اصل اصطلاح سے ناآشنا ہے۔اسنے اپنے نفس کی تشنگی کو ہی سکون کا ماخذ سمجھا۔حتٰی کہ اسکے خواب بھی مادیت کی سرپرستی میں پلتے رہے ہیں۔انسان آج یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حصولِ تعبیرِ خواب اورمطلوبہ تشنگی کی تکمیل کے باوجود بھی وہ کیا خلاء ہے جو اسے مسلسل اضطراب میں مبتلا کیے ہوئے ہے؟۔وہ کون سی شئے ہے جو اسے مکمل نہیں ہونے دیتی؟۔کیوں وہ بے کلی کا اسیر ہے؟ کیوں اب بھی کوئی خلش کا نشتر اسکی روح پر ضرب لگاتا ہے؟ کیوں تنہایوں میں آنکھیں لہولہان ہوجاتی ہیں؟
ان سوالوں کے جوابات کی تلاش نے مجھے اس تلخ حقیقت تک سے شناسا کیا کہ ہم نے مادیت کی خاطر روہانیت کو نظراندازکر دیا۔جسم و نفس کی تمام خواہشات کی تکمیل کی۔۔۔اچھا لباس زیب تن کرنے کی خواہش،،اچھا دکھنے کی چاہ،،اچھا کھانے کا شوق،،اچھے اور بلند مقام پر فائز ہونے کی تمنا وغیرہ۔مگر روح کی چاہتوں کو کچلتے رہے۔روح کی چاہت "سکون" اور سکون کا ذریعہ "محبت" اور محبت کا جائے مقام ''ہمارا رب'' اور وہ ''رشتے'' جو ہمارے رب نے ہمیں نوازیں ہیں۔مگر آج انسان کا وجود فقدانِ محبت سے دوچار ہے۔زبان تو اپنے ربِ حقیقی سے عشق کے دعوے کرتی ہے مگر نفس مادیت پرستی میں مشغول ہے۔رشتوں سے تغافل کا چلن عام ہے۔کہنے کو رشتوں کی بھیڑ ہے مگر رشتوں ک نام پرانسان کے پاس فقط شکوے،الزام،نفرت،دغا اور درد جیسے الفاظ کے ذخیرے رہ گئے ہیں۔
فی الاصل ہر انسان اپنی اپنی تشنگی مٹانے کی غرض سے وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر مدتوں مسافتیں طئے کرتا ہے مگر جب ان طویل مسافتوں کی تکان وجود کو بکھیرنے لگتی ہے تب وہ سکون نام کی شئے کی طلب کر بیٹھتا ہے مگر وہ سکون جو وہ زادِ سفر میں ساتھ لانا ہی بھول گیا تھا۔پھر عالمِ اضطراب میں وہ الزام تراشی پر اتر آتا ہے۔کبھی قسمت کو الزام دیتا ہے،کبھی رشتوں کا رونا روتا ہے،حتٰی کہ کبھی اپنے رب کے حضور بھی ناانصافی کا شکوہ کر بیٹھتا ہے۔گویا کہ سکون وہ شئے ہے جسکا فقدان انسان کو اضطراب وانتشار کے ساتھ شازونادر گناہ میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔
مگر انسان تو وہی مخلوق ہے نہ جسکا رجحان ہمیشہ ہی ممنوع اور تباہ کن عنصر کی جانب رہا ہے۔وہ بارہاں اپنی ایک ہی روش کو دہراتا رہا ہے۔وقت کا منادی اب بھی صدا لگاتا ہے کہ اپنی اپنی حیات کا قیمتی اثاثہ سمیٹ لو اور نئے سفر کی تیاری کرو مگر انسان آج بھی اضطرابِ زیست لیے سکونِ حقیقی سے نا آشنا وقت کے ساحل پر کھڑا ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی
خواہشوں کے سراب میں بھٹک رہا ہے اور پُر امید آنکھوں سے افق کی جانب دیدہ زن ہے۔۔۔۔۔۔۔