گل بانو
محفلین
آج سے تقریباً سو(۱۰۰ ) سال قبل نیو یار ک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اُجرت میں اضافے کے کے لئے آواز اٹھائی تو ان پر پولس نے نہ صرف لاٹھی چارج اور وحشیانہ تششد کیا بلکہ ان کو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا اس ریاستی جبر و تشدد کے خلاف خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں انیس سو دس (۱۹۱۰ ) میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کافرنس ہوئی جس میں سترہ (۱۷) سے زائد ممالک کی سو (۱۰۰) کے قریب خواتین نے شرکت کی جس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔
پہلی عالمی جنگ میں بیس (۲۰) لاکھ روسی فوجیوں کی ہلاکت پر خواتین نے ہڑتال کی تب سے یہ دن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں عالمی حیثیت اختیار کر گیا لیکن ۱۹۵۶ میں سیاہ فام مزدوروں پر پابندی کے خلاف نیویارک میں ۲۰ ہزار سے زائد خواتین نے بڑے پیمانے پر مظاہرہ کیا ۔میکسیکو میں ۱۹۷۵ میں بہت بڑے پیمانے پر ایک کانفرنس ہوئی جس میں ۴۰۰۰ خواتین نے حصہ لیا اور آنے والے دس سالوں میں خواتین سے ہونے والے تمام اقسام کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا لائحہ عمل تیار کیا گیا اور آٹھ (۸) مارچ کو اقوام متحدہ نے خواتین کا عالمی دن مقرر کر دیا ۔ اس سب کے باوجود بھی خواتین کے ظلم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
جبکہ مسلم دنیا میں خواتین پر ریاستی تشدد کی اتنی بدترین مثال آج تک نہیں پائی گئی کہ خواتین نے اس کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر آواز اٹھائی ہو یا ہڑتال کی ہو ۔
امریکہ اور یورپ میں عورت کے حق میں جتنے نعرے لگائے جاتے ہیں ہوتا اس کے برعکس ہی ہے اس کی ایک حالیہ مثال ارفع کریم کا بل گیٹس سے مکالمہ ہے دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر ، فخر پاکستان ارفع کریم رندھاوا نے جو سوال مائیکرو سوفٹ کے چیئر مین بل گیٹس سے کیا وہ بہت غور طلب ہے ارفع نے کہا مجھے آپ کے حساس ترین شعبے میں جانے اعزاز ملا مجھے وہاں جو بات سب سے عجیب لگی وہ اس شعبے میں خواتین کی غیر موجودگی تھی اس پر انھوں نے جواب دیا خواتین کو ایسی جگہوں پر رکھنا ہماری پالیسی نہیں !!!
امریکہ اور اور باقی ترقی یافتہ ممالک میں خواتین نے اپنی آزاد انسانی حیثیت کے لیے جدو جہد کی قابل تحسین تاریخ رقم کی ہے ایک طویل لڑائی کے بعد ہی وہاں خواتین ثقافتی ، سماجی اور سیاسی اہمیت ا ور بہتر درجہ حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہیں لیکن اب بھی وہاں بڑے پیمانے پر جنسی بنیادوں پر تفریق موجود ہے جس کی بڑی مثال جنسی بنیادوں پر اُجرتوں کے فرق کا ہونا ہے اگر وہاں خواتین گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہوکر معاشرے میں کام کر رہی ہیں تو وہاں معاشی ترقی اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری کی خواہش کو ان تمام گھریلو مشترکہ سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کر دیا ہے ، تعلیم ، صحت ،بچوں کی نگہداشت کے لئے ڈے کئیر سینٹر ، اجتماعی لانڈریاں وغیرہ کا وجود در آیا ان کے بغیر یہ آزادی ممکن نہ تھی ۔حالانکہ عورت بحیثیتِ مجموعی انسانیت کا نصف اور معاشرے کا وہ ناگزیر عنصر ہے جس کی گود قوموں کی پرورش کرتی ہے ۔
اسلامی معاشرے میں بچوں کو ابتداء ہی سے انسانی حقوق اور ہر رشتے کا احترام باالتزام کروایا جاتا ہے ۔ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کے سائے تلے پرورش پاکر اُسے کسی قسم کا فادر ڈے ، مدر ڈے نہیں منانا پڑتا اور رشتے اُسے محبت اور تحفظ اور مضبوطی دیتے ہیں اور یہی تحفظ وہ بڑے ہوکر اپنے معاشرے کی خواتین کو لوٹاتا ہے ہر رشتے کے حق کو بہتر طور پر ادا کرتا ہے ۔
اسلام میں جتنا حق خواتین کو دیا گیا اُس کا تصور بھی کسی معاشرے میں نہیں ۔ وراثت میں کئی طرفہ حقوق اُسے مالی طور پر مضبوط بناتے ہیں ۔ مالی مضبوطی طاقت و سر خوشی ہے دنیا میں سب سے زیادہ امیر خواتین کا تناسب سعودی عرب میں پایا جاتا ہے جہاں مکمل اسلامی قانون ہے ۔ اگر بات تشدد کی جاتی ہے تو وہ ہر جگہ یکساں موجود ہے امریکہ میں ہر ۶ منٹ کے بعد ایک عورت ذیادتی کا نشانہ بنتی ہے ۔آج تیسری دنیا کوتعلیم اور شعور کی کمی کی بنا پر جن مسائل کا سامنا ہے ترقی یافتہ ممالک بھی انہی مسائل سے دو چار ہیں ۔
مسلم ممالک میں حقوقِ نسواں کا نعرہ لگانے والی وہ تنظیمیں ہیں جو اغیار کے دیئے ہوئے ایندھن سے چل رہی ہیں اور اُن کے دئیے ہوئے نعرے بلند کر رہی ہیں اور مسلم دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہیں ۔ نام نہاد ترقی کے نام پر خواتین کو گھروں سے باہر نکالا جا رہا ہے عورت کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اس کا گھر ہوتی ہے اور ہم اپنے آپ کو گھروں سے باہر لا کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں ؟؟؟ ایمانداری سے اپنے آپ سے سوال کیجئے کیا ہمیں گھر بیٹھے وہ سب کچھ نہیں مل رہا جو خوشحال اور پُر سکون زندگی کے لئے ضروری ہے ؟ اگر نہیں مل رہا تو کیا ہم اس کو اپنے گھر میں رہتے ہوئے سلجھا نہیں سکتیں ؟ اسلام نے ہمیں جو قناعت اور دوسروں کی مدد کاسبق دیا کیا ہم اسے بھلا دیں ؟ صرف اپنی بے جا خواہشات کی غلامی کی خاطر !!! ہرگز نہیں اپنے ہر ہر عمل سے ثابت کیجئے کہ ہم باوقار مسلم خواتین ہیں اپنی اسلامی تربیت کے باعث اپنے حقوق کا ادراک رکھتی ہیں کسی میدان عمل میں بھی پیچھے نہیں رہتیں عقل و شعور میں بھی کسی سے کم نہیں تو پھر !!!!!!!
کیوں اغیار کے ہاتھوں میں ہے ڈور ہماری ؟؟؟؟
پہلی عالمی جنگ میں بیس (۲۰) لاکھ روسی فوجیوں کی ہلاکت پر خواتین نے ہڑتال کی تب سے یہ دن ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں عالمی حیثیت اختیار کر گیا لیکن ۱۹۵۶ میں سیاہ فام مزدوروں پر پابندی کے خلاف نیویارک میں ۲۰ ہزار سے زائد خواتین نے بڑے پیمانے پر مظاہرہ کیا ۔میکسیکو میں ۱۹۷۵ میں بہت بڑے پیمانے پر ایک کانفرنس ہوئی جس میں ۴۰۰۰ خواتین نے حصہ لیا اور آنے والے دس سالوں میں خواتین سے ہونے والے تمام اقسام کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا لائحہ عمل تیار کیا گیا اور آٹھ (۸) مارچ کو اقوام متحدہ نے خواتین کا عالمی دن مقرر کر دیا ۔ اس سب کے باوجود بھی خواتین کے ظلم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔
جبکہ مسلم دنیا میں خواتین پر ریاستی تشدد کی اتنی بدترین مثال آج تک نہیں پائی گئی کہ خواتین نے اس کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر آواز اٹھائی ہو یا ہڑتال کی ہو ۔
امریکہ اور یورپ میں عورت کے حق میں جتنے نعرے لگائے جاتے ہیں ہوتا اس کے برعکس ہی ہے اس کی ایک حالیہ مثال ارفع کریم کا بل گیٹس سے مکالمہ ہے دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی ماہر ، فخر پاکستان ارفع کریم رندھاوا نے جو سوال مائیکرو سوفٹ کے چیئر مین بل گیٹس سے کیا وہ بہت غور طلب ہے ارفع نے کہا مجھے آپ کے حساس ترین شعبے میں جانے اعزاز ملا مجھے وہاں جو بات سب سے عجیب لگی وہ اس شعبے میں خواتین کی غیر موجودگی تھی اس پر انھوں نے جواب دیا خواتین کو ایسی جگہوں پر رکھنا ہماری پالیسی نہیں !!!
امریکہ اور اور باقی ترقی یافتہ ممالک میں خواتین نے اپنی آزاد انسانی حیثیت کے لیے جدو جہد کی قابل تحسین تاریخ رقم کی ہے ایک طویل لڑائی کے بعد ہی وہاں خواتین ثقافتی ، سماجی اور سیاسی اہمیت ا ور بہتر درجہ حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی ہیں لیکن اب بھی وہاں بڑے پیمانے پر جنسی بنیادوں پر تفریق موجود ہے جس کی بڑی مثال جنسی بنیادوں پر اُجرتوں کے فرق کا ہونا ہے اگر وہاں خواتین گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہوکر معاشرے میں کام کر رہی ہیں تو وہاں معاشی ترقی اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری کی خواہش کو ان تمام گھریلو مشترکہ سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کر دیا ہے ، تعلیم ، صحت ،بچوں کی نگہداشت کے لئے ڈے کئیر سینٹر ، اجتماعی لانڈریاں وغیرہ کا وجود در آیا ان کے بغیر یہ آزادی ممکن نہ تھی ۔حالانکہ عورت بحیثیتِ مجموعی انسانیت کا نصف اور معاشرے کا وہ ناگزیر عنصر ہے جس کی گود قوموں کی پرورش کرتی ہے ۔
اسلامی معاشرے میں بچوں کو ابتداء ہی سے انسانی حقوق اور ہر رشتے کا احترام باالتزام کروایا جاتا ہے ۔ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کے سائے تلے پرورش پاکر اُسے کسی قسم کا فادر ڈے ، مدر ڈے نہیں منانا پڑتا اور رشتے اُسے محبت اور تحفظ اور مضبوطی دیتے ہیں اور یہی تحفظ وہ بڑے ہوکر اپنے معاشرے کی خواتین کو لوٹاتا ہے ہر رشتے کے حق کو بہتر طور پر ادا کرتا ہے ۔
اسلام میں جتنا حق خواتین کو دیا گیا اُس کا تصور بھی کسی معاشرے میں نہیں ۔ وراثت میں کئی طرفہ حقوق اُسے مالی طور پر مضبوط بناتے ہیں ۔ مالی مضبوطی طاقت و سر خوشی ہے دنیا میں سب سے زیادہ امیر خواتین کا تناسب سعودی عرب میں پایا جاتا ہے جہاں مکمل اسلامی قانون ہے ۔ اگر بات تشدد کی جاتی ہے تو وہ ہر جگہ یکساں موجود ہے امریکہ میں ہر ۶ منٹ کے بعد ایک عورت ذیادتی کا نشانہ بنتی ہے ۔آج تیسری دنیا کوتعلیم اور شعور کی کمی کی بنا پر جن مسائل کا سامنا ہے ترقی یافتہ ممالک بھی انہی مسائل سے دو چار ہیں ۔
مسلم ممالک میں حقوقِ نسواں کا نعرہ لگانے والی وہ تنظیمیں ہیں جو اغیار کے دیئے ہوئے ایندھن سے چل رہی ہیں اور اُن کے دئیے ہوئے نعرے بلند کر رہی ہیں اور مسلم دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہیں ۔ نام نہاد ترقی کے نام پر خواتین کو گھروں سے باہر نکالا جا رہا ہے عورت کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اس کا گھر ہوتی ہے اور ہم اپنے آپ کو گھروں سے باہر لا کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں ؟؟؟ ایمانداری سے اپنے آپ سے سوال کیجئے کیا ہمیں گھر بیٹھے وہ سب کچھ نہیں مل رہا جو خوشحال اور پُر سکون زندگی کے لئے ضروری ہے ؟ اگر نہیں مل رہا تو کیا ہم اس کو اپنے گھر میں رہتے ہوئے سلجھا نہیں سکتیں ؟ اسلام نے ہمیں جو قناعت اور دوسروں کی مدد کاسبق دیا کیا ہم اسے بھلا دیں ؟ صرف اپنی بے جا خواہشات کی غلامی کی خاطر !!! ہرگز نہیں اپنے ہر ہر عمل سے ثابت کیجئے کہ ہم باوقار مسلم خواتین ہیں اپنی اسلامی تربیت کے باعث اپنے حقوق کا ادراک رکھتی ہیں کسی میدان عمل میں بھی پیچھے نہیں رہتیں عقل و شعور میں بھی کسی سے کم نہیں تو پھر !!!!!!!
کیوں اغیار کے ہاتھوں میں ہے ڈور ہماری ؟؟؟؟