گل بانو
محفلین
کچھ لوگ زندگی کو اس ڈھنگ سے جیتے ہیں کہ آپ پر ان کا ایک لطیف سا تاثر ثبت ہو جاتا ہے جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا کچھ روز ہوئے ہماری ملاقات ایک ایسے ہی عجیب و غریب شخص سے ہوئی ۔ ان کے شائستہ اطوار اور انکساری نے ہمارا دل موہ لیا تھا۔چائے کا دور شروع ہوا ادھر اُدھر کی باتوں کے ساتھ زندگی کی بے ثباتی پر بات چل نکلی ان کا یہ کہنا تھا کہ ہم اس زندگی میں فٹ نہیں ہیں یاور اس زندگی کو اسکے صحیح حق کے مطابق نبھا نہیں پا رہے جیسا کہ ہونا چاہئے ۔ اسی اثناء میں انھوں نے ایک دو روپے کا نیا چمکدار سکہ نکالا اور اپنے انگوٹھے اور انگلی کے درمیان کھڑا کر کے اس کا ایک رُخ ہماری طرف کیا اور پوچھا ! یہ کتنے کا سکہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ہم نے دیکھتے ہی جواب دیا ۲ روپے کا ۔۔۔۔۔!!!
کہنے لگے اگر میں اس سکے سے ایک روپے کی چیز لینے جاؤں تو دکاندار مجھے نہیں دے گا ۔۔۔! کیوں ؟
کچھ دیر سوچنے کے بعدہم نے الٹا ان سے سوال کر ڈالا کہیں یہ سکہ کھوٹا تو نہیں ۔۔۔؟ انھوں نے ہمیں دیکھا اور مُسکراتے ہوئے سکّے کا دوسرارُخ ہماری جانب کر دیا وہ سکہ دوسری جانب سے کھوٹا تھا یعنی مکمل طور پر گھسا ہواتھا اور اس پر کچھ نشان باقی نہ تھا ۔پھر پوچھا اب بتائیں کیا کوئی دکاندار مجھے اس سکے کے عوض کوئی شئے دے سکتا ہے ۔۔۔۔ ؟؟؟
ہم نے جواب دیا ۔۔۔نہیں !!!کہنے لگے بس ہمارے اندر یہی خرابی ہے ایک طرف سے ایسے چمکدار او ر دوسری طرف سے بے کار ۔۔۔۔ پھراوپر کو انگلی اٹھائی اور کہا تو کیا ہم وہاں چل پائیں گے ؟ ہم گومگو کی سی حالت میں صرف سر ہلا کر رہ گئے ۔ وہ کہنے لگے میں یہ سکہ اپنے آپ کو روز دکھاتا ہوں کہ ہر پل یاد دلاتا رہے کہ مجھے وہاں جانا ہے ۔
کیا ہم اور آ پ سوچ کی اس بلندی تک جانے کی تگ ودو کرتے ہیں کیا اپنے آپ کو اس میزان پر پورا اتارنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں کسی پُل صراط کا خوف نہ ہو کسی آگ کا ڈر نہ ہو !!! نہیں ۔۔۔۔!!! ہم یہاں کے ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر اُس آگ کا تصور بھی کیسے کر سکتے ہیں جو منٹوں میں جھلسا کر رکھ دے گی اور بار بار جھلسائے گی ۔ہم اپنا ایک رُخ اُس سکے کی طرح بہت چمکدار رکھتے ہیں اور دوسرے رخ سے کسی کو کیا اور کیسے ٹھیس پہنچ رہی ہے اس کی بالکل پرواہ نہیں کرتے اور بس اپنے چمکتے ہوئے حصے کی نمائش کئے جاتے ہیں ۔
کہ جس طرح ایک خشک میوہ جات بیچنے والا ایک خالی کھوکے پر کم میوے کو اس خوبصورتی سے سجاتا ہے کہ ٹھیلا یا ٹھیا اوپر تک بھرا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی خوشنمائی دل کھینچ لیتی ہے ۔اور ہم بے اختیار اس کے طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ہمارا حال بھی اس سے کچھ کم نہیں اندر سے خالی اور اوپر سے دکھاوے کو بہت کچھ جس سے ہم بڑے بڑوں کو مرعوب کرتے ہیں ۔اور یہ سب وقتی طور پر ہی سہی انسان کو سکون اور طمانیت دیتا ہے اور اسکی گردن فخر سے اکڑ جاتی ہے لیکن یہ سکون بس وقتی ہی ہوتا ہے ہر بار وہ اس کھوکھلے ڈبے کا سہارا لیتا ہے اور لیتا چلا جاتا ہے ۔اس کا سبب وہ معاشی اور اخلاقی نا ہمواری ہے جس کا آئے روز اسے سامنا ہے وہ بچپن سے اس ناہمواری کی سلیب تلے دبا ہوا چیختا چلاتا سر پٹکتا رہتا ہے اور اس سے نبٹنے کا یہی بہترین حل پاتاہے کہ اپنے اندر کے کھوکھلے پن کو اوپر سے رنگین میوہ جات سے بھر کر خوشنما بنا لیاجائے وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس ہنر میں مشاق ہو جاتا ہے ۔اور تشنہ کامی کی بڑھوتری کو چھپانے کا ہنر سیکھ جاتا ہے ۔اس کو وہ اپنی کامیابی سمجھ کر گھمنڈ میں جیتا ہے یہ ظاہری چمک سب کی آنکھوں کو خیرہ کئے رکھتی ہے اور کھوکھلے انسانوں کی پرورش کئے جاتی ہے ہم میں سے کتنے ہیں جن کے پاس یہ کھوٹا سکہ ہے !!! کیا آپ وہ کھوٹا سکہ اپنے پاس رکھنا چاہیں گے ۔۔۔۔ ؟؟؟
اگر آپ کے اندر سے جواب آئے ہاں تو سمجھ لیجئے گا کہ آپ ہر طرف سے چمکدار ہیں ۔
ہم نے دیکھتے ہی جواب دیا ۲ روپے کا ۔۔۔۔۔!!!
کہنے لگے اگر میں اس سکے سے ایک روپے کی چیز لینے جاؤں تو دکاندار مجھے نہیں دے گا ۔۔۔! کیوں ؟
کچھ دیر سوچنے کے بعدہم نے الٹا ان سے سوال کر ڈالا کہیں یہ سکہ کھوٹا تو نہیں ۔۔۔؟ انھوں نے ہمیں دیکھا اور مُسکراتے ہوئے سکّے کا دوسرارُخ ہماری جانب کر دیا وہ سکہ دوسری جانب سے کھوٹا تھا یعنی مکمل طور پر گھسا ہواتھا اور اس پر کچھ نشان باقی نہ تھا ۔پھر پوچھا اب بتائیں کیا کوئی دکاندار مجھے اس سکے کے عوض کوئی شئے دے سکتا ہے ۔۔۔۔ ؟؟؟
ہم نے جواب دیا ۔۔۔نہیں !!!کہنے لگے بس ہمارے اندر یہی خرابی ہے ایک طرف سے ایسے چمکدار او ر دوسری طرف سے بے کار ۔۔۔۔ پھراوپر کو انگلی اٹھائی اور کہا تو کیا ہم وہاں چل پائیں گے ؟ ہم گومگو کی سی حالت میں صرف سر ہلا کر رہ گئے ۔ وہ کہنے لگے میں یہ سکہ اپنے آپ کو روز دکھاتا ہوں کہ ہر پل یاد دلاتا رہے کہ مجھے وہاں جانا ہے ۔
کیا ہم اور آ پ سوچ کی اس بلندی تک جانے کی تگ ودو کرتے ہیں کیا اپنے آپ کو اس میزان پر پورا اتارنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں کسی پُل صراط کا خوف نہ ہو کسی آگ کا ڈر نہ ہو !!! نہیں ۔۔۔۔!!! ہم یہاں کے ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر اُس آگ کا تصور بھی کیسے کر سکتے ہیں جو منٹوں میں جھلسا کر رکھ دے گی اور بار بار جھلسائے گی ۔ہم اپنا ایک رُخ اُس سکے کی طرح بہت چمکدار رکھتے ہیں اور دوسرے رخ سے کسی کو کیا اور کیسے ٹھیس پہنچ رہی ہے اس کی بالکل پرواہ نہیں کرتے اور بس اپنے چمکتے ہوئے حصے کی نمائش کئے جاتے ہیں ۔
کہ جس طرح ایک خشک میوہ جات بیچنے والا ایک خالی کھوکے پر کم میوے کو اس خوبصورتی سے سجاتا ہے کہ ٹھیلا یا ٹھیا اوپر تک بھرا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی خوشنمائی دل کھینچ لیتی ہے ۔اور ہم بے اختیار اس کے طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ۔ہمارا حال بھی اس سے کچھ کم نہیں اندر سے خالی اور اوپر سے دکھاوے کو بہت کچھ جس سے ہم بڑے بڑوں کو مرعوب کرتے ہیں ۔اور یہ سب وقتی طور پر ہی سہی انسان کو سکون اور طمانیت دیتا ہے اور اسکی گردن فخر سے اکڑ جاتی ہے لیکن یہ سکون بس وقتی ہی ہوتا ہے ہر بار وہ اس کھوکھلے ڈبے کا سہارا لیتا ہے اور لیتا چلا جاتا ہے ۔اس کا سبب وہ معاشی اور اخلاقی نا ہمواری ہے جس کا آئے روز اسے سامنا ہے وہ بچپن سے اس ناہمواری کی سلیب تلے دبا ہوا چیختا چلاتا سر پٹکتا رہتا ہے اور اس سے نبٹنے کا یہی بہترین حل پاتاہے کہ اپنے اندر کے کھوکھلے پن کو اوپر سے رنگین میوہ جات سے بھر کر خوشنما بنا لیاجائے وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس ہنر میں مشاق ہو جاتا ہے ۔اور تشنہ کامی کی بڑھوتری کو چھپانے کا ہنر سیکھ جاتا ہے ۔اس کو وہ اپنی کامیابی سمجھ کر گھمنڈ میں جیتا ہے یہ ظاہری چمک سب کی آنکھوں کو خیرہ کئے رکھتی ہے اور کھوکھلے انسانوں کی پرورش کئے جاتی ہے ہم میں سے کتنے ہیں جن کے پاس یہ کھوٹا سکہ ہے !!! کیا آپ وہ کھوٹا سکہ اپنے پاس رکھنا چاہیں گے ۔۔۔۔ ؟؟؟
اگر آپ کے اندر سے جواب آئے ہاں تو سمجھ لیجئے گا کہ آپ ہر طرف سے چمکدار ہیں ۔