گل بانو
محفلین
''ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا "
تو دوستو ! ہم پچھلے کچھ دنوں سے فیس بک سے غیر حاضر تھے۔ آج آپ سب سے شئیر کر رہے ہیں
گردشِ وقت نے ہمیں ہسپتال ( طبی مرکز)پہنچا دیا ۔ہسپتال یا طبی مراکزہماری زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہیں لازم کے ساتھ ملزوم لکھنا، ہماری بھی مجبوری ہے باوجود اس کہ ’’و ‘‘ اضافی معلوم ہوتا ہے ۔ تو جناب حالات کی گردش نے ہمیں ہسپتال کی لابی میں وہ وہ چکر دئیے کہ ہم چکرا کر رہ گئے ۔لابی کسی جگہ کی بھی ہو اپنا اثرتوبہرحال رکھتی ہی ہے ۔مریض ہونا اتنا نقصان دہ شاید نہ ہوتا جتنا تیماردار(اٹینڈنٹ )کے طور پر ہوا ۔ کسی بھی حادثے کی صورت اگر آپ کسی ایسے طبی مرکز پر پہنچ گئے جوحکومت کے زیرِ سایہ ہوا تو سمجھ لیں کہ زندگی بچانے کے آدھے چانسزتو آپ نے پہلے ہی انھیں تھما دئیے ۔بقیہ آدھی امید اوپر ہاتھ اٹھا کراللہ سے دعا کرتے اورکوریڈورمیں ڈاکٹر کوڈھونڈتے اور منت کرتے گزرتی ہے ۔حکومت بے چاری بھی کیا کیا کرے زر کثیر خرچ کر کے بڑے بڑے ہسپتال بنا دئیے کیا یہ کافی نہیں ۔۔۔۔ ؟کہ عوام اب علاج بھی مانگنے لگیں ڈاکٹر اور دوائیں بھی مانگیں۔ مانگنے میں ویسے بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔۔۔ عوام تو چلو ٹھہرے سدا کے ننگے بھوکے اور بیمار۔۔۔۔ حکومتی سطح پر مانگنا بھی ہم اپنا حق سمجھتے ہیں اور ہر اس ملک کو جسے ہم سُپر پاور مان لیں اس سے مانگنا ہم اپنا فرض عین، غین، فے، قاف سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔ خیر تو جناب بات ہو رہی تھی ہسپتال کی ۔۔۔۔۔اناج کی خود کفالت سے جہاں آبادی میں بے دریغ اضافہ ہو رہا ہے وہیں ہسپتال اسے کم کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ہر ہر شعبہ زندگی میں اگر ہم اسی طرح مثبت سوچ رکھیں تو مزید ترقی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں ۔
ویسے جتنی ترقی ہم اب تک کر چکے بہت ہے ۔کسی سپر پاور سے مقابلے پر کیوں اتریں ، جب ان کی ’’ اُترن‘‘ سے کام چل جاتا ہے تو ۔
خیر تو جناب ہم نے سوچا حکومتی ادارے کو بھگت لیا اب اپنے پیارے کی جان بھی تو بچانی ہے نا سو وہاں سے بھاگم بھاگ ایک نجی طبی مرکز( پرائیویٹ ہسپتال ) پہنچے ۔اور اپنے پیارے کو ان کے حوالے کر کے اطمینان سے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ انھوں نے ریس شروع کرا دی ۔ہمیں تو ریس ہی لگی ۔ایک ہم ہی نہیں ہسپتال میں ہمارے ساتھ ساتھ کئی لوگ اس ریس میں شامل تھے عمر و صنف کی تمیز کے بغیر ۔۔۔۔۔۔ اب یہ دوائیں لائیں اب یہ ٹیسٹ کرائیں، وہ ٹیسٹ کروائیں کچھ ٹیسٹ عجیب و غریب نوعیت کے تھے ۔۔۔’’ نہ جائے ماندن ، نہ پائے رفتن‘‘ والا معاملہ تھا ۔جسم میں سے جس چیز کا بھی ٹیسٹ ہو سکتا تھا سب کروایا گیا ۔۔۔ سلام ہے ان پیتھالوجسٹ پر جو خون کے علاوہ بھی ایسی ایسی چیزیں ٹیسٹ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو بندہ خود بھی ایک لمحے سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ اپنا کیا کرایا کون پسندکرتا ہے سب پر پانی پھیر کر قصہ تمام کر دیتا ہے۔۔۔ بات پانی تک پہنچ گئی جب کہ پانی سے ہمارا دُور کا رشتہ ہے کبھی کبھار ہی ملنے آتا ہے اور بہت خوشیاں لاتا ہے ۔ نا ، نا اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں اچھا ہی ہے نا جتنا پانی ہوگا اتنا خرچاہوگا پانی کی موٹر چلے گی تو بجلی بھی اضافی خرچ ہوگی کپڑے دھلیں گے تو واشنگ پاوٗڈر اور نہانے سے صابن اور شیمپو کا خرچ الگ بڑھے گا ۔تو پانی کا نہ ہونا بھی ایک نعمت ہے ۔ لو جی ہم بھی موقع بہ موقع دل کے پھپولے لے کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ پھوڑنے کو (سر سمیت ) اور بہت کچھ ہے ۔۔۔۔
تو جناب مریض کے ساتھ رہتے رہتے ہم خود مریض ہو گئے مریضِ دل کی طرح ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ تو جناب سب سے پہلے ہمیں دل کے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جیسے ہی اس نے آلہ(اسٹیتھسکوپ) اپنی دانست میں قلب کی جگہ رکھاتو اس کی چیخ نکل گئی ہمرا ہ آئے ساتھی سے کہا لو بھئی ان کا تو دل ہی غائب ہے ۔ ہم کیا بتاتے کہ وہ تو کب کا کسی کو دے دیا۔۔۔ بس شرما کر رہ گئے اتنے میں ڈاکٹر کو کچھ احساس ہو اور اس نے آلہ اب درست سمت یعنی دل کی جگہ رکھااور اطمینان کی سانس لی ۔ اس کے بعد کچھ خون کے ٹیسٹ لکھ ڈالے ۔رپورٹس موصول ہوئیں تو ایک رپورٹ سے پتا چلا کہ ریڈ سیل کم ہیں اور ہمارا خون سفید ہو چکا ہے ۔جو بات ہم سارے زمانے سے چھپاتے رہے ایک رپورٹ نے عیاں کر دی ۔۔۔۔ خیرجناب یہاں سے نمٹے تو ہمیں پہنچا دیا گیاماہرِ امراضِ معدہ و جگر انھوں نے بھی کئی ایک ٹیسٹ لکھ ڈالے جبکہ ہم نے ان سے کہا بھی کہ بھئی ہمارا معدہ بہت مضبوط ہے لکڑپتھر سب ہضم ۔۔۔یہاں تک کہ کئیوں کی دولت ہضم کر چکا ہے حکومتی خزانہ ہاتھ نہیں لگا ورنہ وہ بھی باآسانی ۔۔۔۔۔۔ تو خیر ان کو شاید یقین نہ آیا انھوں نے بھی ٹیسٹ لکھ ڈالے ۔احتیاطی تدبیر کے طور پر ماہرِ امراضِ گردہ کو بھی دکھایا گیا ۔۔۔۔ اس نے الگ ٹیسٹس کی لائن لگا دی اب تک اتنا خون نکالا جا چکا تھا کہ اگر کسی مریض کو دے دیتے تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی جبکہ ہماری جا رہی تھی ہم نے اس نوجوان سے جو یہ سرنج بھر بھر کرخون نکال رہا تھا پوچھا بھائی یہ تو بتاوٗ تم لوگ اتنے خون کا کرتے کیا ؟ہو ایک ذرا سی سلائڈ پر ٹپکانا ہی تو ہوتا ہے کیا خون آشام درندے پال رکھے ہیں ؟ ہم تو بھر پائے ان موئے ٹیسٹوں سے ۔۔۔اب تو مارے کمزوری کے چلا بھی نہیں جا رہا وہ ہنسنے لگا اور ہم رونی صورت بنائے وہاں سے چل دئے ۔لو بتاوٗ ہنستا ہے ۔ایک تو سوئی گاڑ گاڑ کے اتنے سارے پنکچر کر دئے ہاں نئی تو ۔۔۔۔ آخر کار ڈاکٹروں نے ہمارے اندر کسی خرابی کا سراغ لگا ہی ڈالا ۔ ہم نے لاکھ سر پٹکا کہ بھئی خرابیءِ بسیار کو سنجیدہ نہ لیں لیکن نہ بھئی ان کے ہاتھ ایک ٹیسٹ ٹوائے لگا تھا ایسے کیسے جانے دیتے آخر کار سپر ڈالتے ہی بنی ۔اپنے آپ کو ان کے حوالے کیا اوربے ہوشی سے پہلے التجا کی کہ ہماری ساری چیزیں اپنی جگہ قائم ہونی چاہییں کسی قسم کا ردو بدل ہمیں منظور نہ ہوگا ۔ اور اس طرح ہم ڈاکٹرز کی ’’ چیرادستیوں ‘‘ ( اسے چیرہ دستی نہ سمجھا جائے ) کے باوجود محفوظ و مامون لوٹ آئے ۔اللہ تیرا شکر
گل بانو
تو دوستو ! ہم پچھلے کچھ دنوں سے فیس بک سے غیر حاضر تھے۔ آج آپ سب سے شئیر کر رہے ہیں
گردشِ وقت نے ہمیں ہسپتال ( طبی مرکز)پہنچا دیا ۔ہسپتال یا طبی مراکزہماری زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہیں لازم کے ساتھ ملزوم لکھنا، ہماری بھی مجبوری ہے باوجود اس کہ ’’و ‘‘ اضافی معلوم ہوتا ہے ۔ تو جناب حالات کی گردش نے ہمیں ہسپتال کی لابی میں وہ وہ چکر دئیے کہ ہم چکرا کر رہ گئے ۔لابی کسی جگہ کی بھی ہو اپنا اثرتوبہرحال رکھتی ہی ہے ۔مریض ہونا اتنا نقصان دہ شاید نہ ہوتا جتنا تیماردار(اٹینڈنٹ )کے طور پر ہوا ۔ کسی بھی حادثے کی صورت اگر آپ کسی ایسے طبی مرکز پر پہنچ گئے جوحکومت کے زیرِ سایہ ہوا تو سمجھ لیں کہ زندگی بچانے کے آدھے چانسزتو آپ نے پہلے ہی انھیں تھما دئیے ۔بقیہ آدھی امید اوپر ہاتھ اٹھا کراللہ سے دعا کرتے اورکوریڈورمیں ڈاکٹر کوڈھونڈتے اور منت کرتے گزرتی ہے ۔حکومت بے چاری بھی کیا کیا کرے زر کثیر خرچ کر کے بڑے بڑے ہسپتال بنا دئیے کیا یہ کافی نہیں ۔۔۔۔ ؟کہ عوام اب علاج بھی مانگنے لگیں ڈاکٹر اور دوائیں بھی مانگیں۔ مانگنے میں ویسے بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں۔۔۔ عوام تو چلو ٹھہرے سدا کے ننگے بھوکے اور بیمار۔۔۔۔ حکومتی سطح پر مانگنا بھی ہم اپنا حق سمجھتے ہیں اور ہر اس ملک کو جسے ہم سُپر پاور مان لیں اس سے مانگنا ہم اپنا فرض عین، غین، فے، قاف سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔ خیر تو جناب بات ہو رہی تھی ہسپتال کی ۔۔۔۔۔اناج کی خود کفالت سے جہاں آبادی میں بے دریغ اضافہ ہو رہا ہے وہیں ہسپتال اسے کم کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ہر ہر شعبہ زندگی میں اگر ہم اسی طرح مثبت سوچ رکھیں تو مزید ترقی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں ۔
ویسے جتنی ترقی ہم اب تک کر چکے بہت ہے ۔کسی سپر پاور سے مقابلے پر کیوں اتریں ، جب ان کی ’’ اُترن‘‘ سے کام چل جاتا ہے تو ۔
خیر تو جناب ہم نے سوچا حکومتی ادارے کو بھگت لیا اب اپنے پیارے کی جان بھی تو بچانی ہے نا سو وہاں سے بھاگم بھاگ ایک نجی طبی مرکز( پرائیویٹ ہسپتال ) پہنچے ۔اور اپنے پیارے کو ان کے حوالے کر کے اطمینان سے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ انھوں نے ریس شروع کرا دی ۔ہمیں تو ریس ہی لگی ۔ایک ہم ہی نہیں ہسپتال میں ہمارے ساتھ ساتھ کئی لوگ اس ریس میں شامل تھے عمر و صنف کی تمیز کے بغیر ۔۔۔۔۔۔ اب یہ دوائیں لائیں اب یہ ٹیسٹ کرائیں، وہ ٹیسٹ کروائیں کچھ ٹیسٹ عجیب و غریب نوعیت کے تھے ۔۔۔’’ نہ جائے ماندن ، نہ پائے رفتن‘‘ والا معاملہ تھا ۔جسم میں سے جس چیز کا بھی ٹیسٹ ہو سکتا تھا سب کروایا گیا ۔۔۔ سلام ہے ان پیتھالوجسٹ پر جو خون کے علاوہ بھی ایسی ایسی چیزیں ٹیسٹ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو بندہ خود بھی ایک لمحے سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ اپنا کیا کرایا کون پسندکرتا ہے سب پر پانی پھیر کر قصہ تمام کر دیتا ہے۔۔۔ بات پانی تک پہنچ گئی جب کہ پانی سے ہمارا دُور کا رشتہ ہے کبھی کبھار ہی ملنے آتا ہے اور بہت خوشیاں لاتا ہے ۔ نا ، نا اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں اچھا ہی ہے نا جتنا پانی ہوگا اتنا خرچاہوگا پانی کی موٹر چلے گی تو بجلی بھی اضافی خرچ ہوگی کپڑے دھلیں گے تو واشنگ پاوٗڈر اور نہانے سے صابن اور شیمپو کا خرچ الگ بڑھے گا ۔تو پانی کا نہ ہونا بھی ایک نعمت ہے ۔ لو جی ہم بھی موقع بہ موقع دل کے پھپولے لے کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ پھوڑنے کو (سر سمیت ) اور بہت کچھ ہے ۔۔۔۔
تو جناب مریض کے ساتھ رہتے رہتے ہم خود مریض ہو گئے مریضِ دل کی طرح ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘ تو جناب سب سے پہلے ہمیں دل کے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جیسے ہی اس نے آلہ(اسٹیتھسکوپ) اپنی دانست میں قلب کی جگہ رکھاتو اس کی چیخ نکل گئی ہمرا ہ آئے ساتھی سے کہا لو بھئی ان کا تو دل ہی غائب ہے ۔ ہم کیا بتاتے کہ وہ تو کب کا کسی کو دے دیا۔۔۔ بس شرما کر رہ گئے اتنے میں ڈاکٹر کو کچھ احساس ہو اور اس نے آلہ اب درست سمت یعنی دل کی جگہ رکھااور اطمینان کی سانس لی ۔ اس کے بعد کچھ خون کے ٹیسٹ لکھ ڈالے ۔رپورٹس موصول ہوئیں تو ایک رپورٹ سے پتا چلا کہ ریڈ سیل کم ہیں اور ہمارا خون سفید ہو چکا ہے ۔جو بات ہم سارے زمانے سے چھپاتے رہے ایک رپورٹ نے عیاں کر دی ۔۔۔۔ خیرجناب یہاں سے نمٹے تو ہمیں پہنچا دیا گیاماہرِ امراضِ معدہ و جگر انھوں نے بھی کئی ایک ٹیسٹ لکھ ڈالے جبکہ ہم نے ان سے کہا بھی کہ بھئی ہمارا معدہ بہت مضبوط ہے لکڑپتھر سب ہضم ۔۔۔یہاں تک کہ کئیوں کی دولت ہضم کر چکا ہے حکومتی خزانہ ہاتھ نہیں لگا ورنہ وہ بھی باآسانی ۔۔۔۔۔۔ تو خیر ان کو شاید یقین نہ آیا انھوں نے بھی ٹیسٹ لکھ ڈالے ۔احتیاطی تدبیر کے طور پر ماہرِ امراضِ گردہ کو بھی دکھایا گیا ۔۔۔۔ اس نے الگ ٹیسٹس کی لائن لگا دی اب تک اتنا خون نکالا جا چکا تھا کہ اگر کسی مریض کو دے دیتے تو اس کی جان بچائی جا سکتی تھی جبکہ ہماری جا رہی تھی ہم نے اس نوجوان سے جو یہ سرنج بھر بھر کرخون نکال رہا تھا پوچھا بھائی یہ تو بتاوٗ تم لوگ اتنے خون کا کرتے کیا ؟ہو ایک ذرا سی سلائڈ پر ٹپکانا ہی تو ہوتا ہے کیا خون آشام درندے پال رکھے ہیں ؟ ہم تو بھر پائے ان موئے ٹیسٹوں سے ۔۔۔اب تو مارے کمزوری کے چلا بھی نہیں جا رہا وہ ہنسنے لگا اور ہم رونی صورت بنائے وہاں سے چل دئے ۔لو بتاوٗ ہنستا ہے ۔ایک تو سوئی گاڑ گاڑ کے اتنے سارے پنکچر کر دئے ہاں نئی تو ۔۔۔۔ آخر کار ڈاکٹروں نے ہمارے اندر کسی خرابی کا سراغ لگا ہی ڈالا ۔ ہم نے لاکھ سر پٹکا کہ بھئی خرابیءِ بسیار کو سنجیدہ نہ لیں لیکن نہ بھئی ان کے ہاتھ ایک ٹیسٹ ٹوائے لگا تھا ایسے کیسے جانے دیتے آخر کار سپر ڈالتے ہی بنی ۔اپنے آپ کو ان کے حوالے کیا اوربے ہوشی سے پہلے التجا کی کہ ہماری ساری چیزیں اپنی جگہ قائم ہونی چاہییں کسی قسم کا ردو بدل ہمیں منظور نہ ہوگا ۔ اور اس طرح ہم ڈاکٹرز کی ’’ چیرادستیوں ‘‘ ( اسے چیرہ دستی نہ سمجھا جائے ) کے باوجود محفوظ و مامون لوٹ آئے ۔اللہ تیرا شکر
گل بانو