اظفر
محفلین
ٹارزن سے القاعدہ تک .....قصہ مختصر…عظیم سرور
امریکہ کے تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقات سے پوری دنیا کو متاثرکیا ہے۔ ان کے ذہن نے ”کچھ نہیں“ کو بہت کچھ بناکر اس انداز سے پیش کیا کہ ساری دنیا حیران رہ گئی۔ عقل اس طرح دنگ ہوئی کہ نہیں کو ہاں سمجھ لیا گیا۔ خیال حقیقت کا روپ دھارگیا اور حقیقت اس کی یہ تھی کہ یہ فقط خیال تھا۔ پوچھا ”آپ کیا کرتے ہو؟“ کیا ”ہم جھوٹ بیچتے ہیں۔!“
امریکہ میں 20 ویں صدی میں کئی کردار تخلیق ہوئے۔ یہ کردار خیال تھے لیکن ان کو حقیقت کی طرح لیا گیا، سراہا گیا اور حقیقت ہی سمجھا گیا۔ 1914ء میں ایک کردار ”ٹارزن“ تخلیق ہوا جس نے بہت جلد ایک شخصیت کا روپ دھار لیا اس کردار کا خالق ایڈگر رائس برو تھا جس نے بتایا کہ ایک انگریز لارڈ اور اس کی بیوی کو افریقہ کے مغربی ساحل پر باغیوں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ ٹارزن ایک سال کا تھا تو اس کی ماں مرگئی اور پھر اس کے باپ کو افریقی قبائلیوں نے مار دیا۔ اس کے بعد جنگل میں ایک سال کے بچے کو بن مانس گوریلے اٹھاکر لے گئے اور اس کی پرورش اپنے انداز سے کی چنانچہ ٹارزن کو ان دیوہیکل بن مانسوں جیسی ساری صلاحیتیں حاصل ہوگئیں۔ وہ درختوں کی شاخیں پکڑ کر جھولتا اور لہراتا ہوا پورے جنگل میں گھومتا رہتا تھا۔ جنگل کے پھل اس کی غذا تھی اور وہ بن مانسوں کے انداز ہی سے بولتا تھا جب ٹارزن کی بن مانس ماں مرگئی تو اسے بہت دکھ ہوا۔ پھر اس جنگل میں ایک امریکی لڑکی جین رپورٹر کا گزر ہوا اور اس نے ٹارزن کو انسانوں کی زبان سکھائی۔ ٹارزن گورا تھا۔ اس کی بہادری اورخوبصورتی میں گوری تہذیب کی برتری اور قوت کو دکھایا گیا وہ دراز قد، نیلی آنکھوں اور کالے بالوں والا کڑیل جوان تھا۔ وہ اتنا ذہین تھا کہ اس نے نئی زبان فوری سیکھ لی۔ وہ اتنا وفادار تھا کہ بن مانس ماں کو اکثر یاد کرکے آہیں بھرتا۔ وہ وفا اور اخلاقیات کا پیکر تھا۔
ٹارزن ایک مقبول کردار بن گیا، اس کی تصویری کہانیاں پوری دنیا کے اخباروں میں شائع ہوئیں۔ اس کے کارناموں پر ہالی وڈ نے فلمیں بنائیں۔ ٹیلی وژن آیا تو اس کے کارنامے گھر گھر دیکھے جانے لگے۔ ٹارزن ایک ایسا نام تھا جس سے دنیا کا ہر شخص واقف تھا اور بہادری کے کارناموں کے لئے ٹارزن کا نام ضرب المثل بن گیا تھا۔ کوئی اپنی بہادری کا قصہ سناتا تو لوگ اس کو کہتے۔ بڑے ٹارزن بنے پھرتے ہو، ذرا یہ کام تو کر دکھاؤ۔
ٹارزن کا وجود کہیں نہیں تھا لیکن اس کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ گورے آدمی کی برتری کو بھی ذہنوں میں بٹھادیا گیا۔
ٹارزن کے بعد امریکہ میں ایک دوسرا کردار تخلیق ہوا۔ یہ بھی ایک ہیرو کا کردار تھا اس کا نام تھا ”سپر مین“۔ اس کردار کو جیری سیگل اور جوشسئر نے تخلیق کیا۔ سپرمین کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ایک سیارے کرائپٹن میں پیدا ہوا اور جب یہ سیارہ تباہ ہورہا تھا تو اس کے سائنسدان باپ نے اسے ایک راکٹ کے ذریعے زمین پر پھینک دیا۔ وہ راکٹ کنساس کے ایک کسان کے کھیت میں گرا جس نے اس بچے کی پرورش کی اور اس کا نام کلارک کینٹ رکھا۔ بچپن ہی سے کلارک میں ماروائی شخصیات والی قوتیں پیدا ہوگئی تھیں اور بڑے ہوتے ہوتے یہ قوتیں ایسی ہوگئیں کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔ وہ انتہائی طاقتور تھا، اس میں بلاکی قوت برداشت اور تیزی تھی انتہائی ذہین۔ اس کی سانس میں تیز ہواؤں کی طاقت تھی۔ وہ اڑسکتا تھا۔ اس کی نظر ایکسرے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ ایک نگاہ سے چیزوں کو جلاسکتا تھا۔ یہ کردار 1938ء میں تخلیق ہوا تھا۔ تصویری کہانیوں کی صورت میں یہ اخباروں کی زینت بنا۔ اس کے کارنامے پھر فلموں میں دکھائے جانے لگے۔ سپرمین کا وجود خیالی تھا لیکن لوگ اس کو حقیقت سمجھتے تھے یہ عجیب بات ہے کہ ٹارزن کا کردار پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر اور سپرمین کا کردار دوسری جنگ عظیم سے پہلے تخلیق ہوا۔
امریکہ میں تیسرا کردار جو تخلیق ہوا وہ ”اسپائیڈرمین“ کا کردار تھا۔ یہ کردار اسٹین لی اور اسٹو ڈٹکو نے تخلیق کیا۔ 1962ء میں جب اس سپر ہیرو کو روشناس کرایا گیا تو پورے امریکہ میں اس کی دھوم مچ گئی۔ اسپائیڈر مین ایک یتیم بچہ تھا جس کی پرورش آنٹی مے اور انکل بین نے کی۔ اس بچے میں عجیب و غریب صفات تھیں۔ وہ سیدھی دیواروں پر چپک جاتا۔ خطروں کی بو کو فوری سونگھ لیتا۔ انتہائی چاق و چوبند، انتہائی طاقتور، جینئس والی خوبیاں۔ شخصیت میں ٹھہراؤ، ناممکن کو ممکن کر دکھانے والی صلاحیتوں کا حامل، اسپائیڈر مین کہانیوں، فلموں اور ٹیلی ویژن سیریل کے ذریعے مقبول ہوکر سارے ریکارڈ توڑ گیا اور سب سے مقبول ہوگیا۔
ٹارزن، سپرمین اور اسپائیڈرمین یہ سارے سفید فام ہیرو تھے۔ اب سفید فام ہیروئن کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ 1978ء میں ”بایونک وومین“ کا کردار تخلیق ہوا۔ ایک ٹینس اسٹار فضا سے چھتری کے ذریعے اترتے ہوئے حادثے کا شکار ہوکر قریب المرگ ہوگئی اس کاآپریشن ہوا اس کی سماعت ختم ہوگئی تھی لیکن اس کے کان میں سماعت کا ایسا آلہ لگایا گیا جس کے ذریعے وہ دور دور کی آوازیں سن سکتی تھی اس کے دائیں بازو میں غیر معمولی طاقت آگئی۔ اس کی مصنوعی ٹانگوں میں ایسی طاقت تھی کہ وہ ریس والی کاروں سے زیادہ تیز دوڑنے لگی۔ بایونک وومین کا کردار ایک باقاعدہ شخصیت کے طور پر امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مشہور ہوگیا۔
21 ویں صدی شروع ہوئی تو امریکہ کے تخلیق کاروں کو سفید فام ہیروز اور ہیروئن کے ساتھ ایک ولن کی ضرورت بھی محسوس ہوئی پہلے 4 کرداروں کے ذریعے خوب رقم کمائی گئی تھی۔ وہ امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے ذہنوں کو مسخر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ 21 ویں صدی میں اسلامی دنیا کے وسائل پر قبضہ کرکے دولت سمیٹنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس کے لئے ایک ولن کا کردار تخلیق کیا گیا جس کا نام ”القاعدہ“ رکھا گیا۔ اس کردار کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ مسلم دنیا میں پیدا ہوا۔ نفرت، انتقام، جنون کی صلاحیتوں کے ساتھ جوان ہوا۔ القاعدہ بھی باقی کرداروں کی طرح تخلیقی یعنی فرضی کردار تھا لیکن اس کو بھی حقیقت سمجھا گیا۔ مرزا غالب نے اس کے بارے میں کہا تھا ”ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے ۔، القاعدہ کو تباہی کا انتہائی طاقتور کردار بتایا گیا کہ وہ امریکی جہازوں کو اغوا کرکے سب سے اونچی عمارتوں سے ٹکرا دیتا ہے اور یہ عمارتیں بتاشے کی طرح بیٹھ جاتی ہیں بلکہ قریب کی ایک اورعمارت WTCT تو ان عمارتوں کو گرتے دیکھ کر خوف سے ہی بیٹھ جاتی ہے۔ القاعدہ کردار کے خالق کا نام ابھی تک کسی کتاب میں نہیں آیا لیکن امریکہ میں 30 سال کے بعد راز فاش ہوجاتے ہیں۔ 30 سال بعد اس کے خالق کا پتہ چل جائے گا۔
اب امریکہ اور اس خطے کے وائسرائے رچرڈ ہالبروک پاکستان سے کہتے ہیں کہ وہ القاعدہ کو شکست دینے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ کوئی ہے جو ہالبروک سے کہے کہ پاکستان سے بات کرنے میں آپ بھی تو سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم ہواؤں کے پیچھے بھاگتے پھریں۔ کوئی ہے جو رچرڈ ہالبروک سے نہایت سنجیدگی سے کہے کہ جناب کیا آپ ہماری ملاقات ٹارزن، سپرمین، اسپائیڈر مین اور بایونک وومین سے کرادیں گے کہ ہم ان سے کچھ Tips حاصل کریں۔ رہی ان لوگوں کی بات جو لوگ القاعدہ کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں وہ ان بچوں کی مانند ہیں جو واقعی سمجھتے ہیں کہ اسپائیڈر مین امریکہ میں رہتا ہے اور سپر ہیرو ہے۔
سورس : جنگ نیوز
امریکہ کے تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقات سے پوری دنیا کو متاثرکیا ہے۔ ان کے ذہن نے ”کچھ نہیں“ کو بہت کچھ بناکر اس انداز سے پیش کیا کہ ساری دنیا حیران رہ گئی۔ عقل اس طرح دنگ ہوئی کہ نہیں کو ہاں سمجھ لیا گیا۔ خیال حقیقت کا روپ دھارگیا اور حقیقت اس کی یہ تھی کہ یہ فقط خیال تھا۔ پوچھا ”آپ کیا کرتے ہو؟“ کیا ”ہم جھوٹ بیچتے ہیں۔!“
امریکہ میں 20 ویں صدی میں کئی کردار تخلیق ہوئے۔ یہ کردار خیال تھے لیکن ان کو حقیقت کی طرح لیا گیا، سراہا گیا اور حقیقت ہی سمجھا گیا۔ 1914ء میں ایک کردار ”ٹارزن“ تخلیق ہوا جس نے بہت جلد ایک شخصیت کا روپ دھار لیا اس کردار کا خالق ایڈگر رائس برو تھا جس نے بتایا کہ ایک انگریز لارڈ اور اس کی بیوی کو افریقہ کے مغربی ساحل پر باغیوں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ ٹارزن ایک سال کا تھا تو اس کی ماں مرگئی اور پھر اس کے باپ کو افریقی قبائلیوں نے مار دیا۔ اس کے بعد جنگل میں ایک سال کے بچے کو بن مانس گوریلے اٹھاکر لے گئے اور اس کی پرورش اپنے انداز سے کی چنانچہ ٹارزن کو ان دیوہیکل بن مانسوں جیسی ساری صلاحیتیں حاصل ہوگئیں۔ وہ درختوں کی شاخیں پکڑ کر جھولتا اور لہراتا ہوا پورے جنگل میں گھومتا رہتا تھا۔ جنگل کے پھل اس کی غذا تھی اور وہ بن مانسوں کے انداز ہی سے بولتا تھا جب ٹارزن کی بن مانس ماں مرگئی تو اسے بہت دکھ ہوا۔ پھر اس جنگل میں ایک امریکی لڑکی جین رپورٹر کا گزر ہوا اور اس نے ٹارزن کو انسانوں کی زبان سکھائی۔ ٹارزن گورا تھا۔ اس کی بہادری اورخوبصورتی میں گوری تہذیب کی برتری اور قوت کو دکھایا گیا وہ دراز قد، نیلی آنکھوں اور کالے بالوں والا کڑیل جوان تھا۔ وہ اتنا ذہین تھا کہ اس نے نئی زبان فوری سیکھ لی۔ وہ اتنا وفادار تھا کہ بن مانس ماں کو اکثر یاد کرکے آہیں بھرتا۔ وہ وفا اور اخلاقیات کا پیکر تھا۔
ٹارزن ایک مقبول کردار بن گیا، اس کی تصویری کہانیاں پوری دنیا کے اخباروں میں شائع ہوئیں۔ اس کے کارناموں پر ہالی وڈ نے فلمیں بنائیں۔ ٹیلی وژن آیا تو اس کے کارنامے گھر گھر دیکھے جانے لگے۔ ٹارزن ایک ایسا نام تھا جس سے دنیا کا ہر شخص واقف تھا اور بہادری کے کارناموں کے لئے ٹارزن کا نام ضرب المثل بن گیا تھا۔ کوئی اپنی بہادری کا قصہ سناتا تو لوگ اس کو کہتے۔ بڑے ٹارزن بنے پھرتے ہو، ذرا یہ کام تو کر دکھاؤ۔
ٹارزن کا وجود کہیں نہیں تھا لیکن اس کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ گورے آدمی کی برتری کو بھی ذہنوں میں بٹھادیا گیا۔
ٹارزن کے بعد امریکہ میں ایک دوسرا کردار تخلیق ہوا۔ یہ بھی ایک ہیرو کا کردار تھا اس کا نام تھا ”سپر مین“۔ اس کردار کو جیری سیگل اور جوشسئر نے تخلیق کیا۔ سپرمین کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ایک سیارے کرائپٹن میں پیدا ہوا اور جب یہ سیارہ تباہ ہورہا تھا تو اس کے سائنسدان باپ نے اسے ایک راکٹ کے ذریعے زمین پر پھینک دیا۔ وہ راکٹ کنساس کے ایک کسان کے کھیت میں گرا جس نے اس بچے کی پرورش کی اور اس کا نام کلارک کینٹ رکھا۔ بچپن ہی سے کلارک میں ماروائی شخصیات والی قوتیں پیدا ہوگئی تھیں اور بڑے ہوتے ہوتے یہ قوتیں ایسی ہوگئیں کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا۔ وہ انتہائی طاقتور تھا، اس میں بلاکی قوت برداشت اور تیزی تھی انتہائی ذہین۔ اس کی سانس میں تیز ہواؤں کی طاقت تھی۔ وہ اڑسکتا تھا۔ اس کی نظر ایکسرے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ ایک نگاہ سے چیزوں کو جلاسکتا تھا۔ یہ کردار 1938ء میں تخلیق ہوا تھا۔ تصویری کہانیوں کی صورت میں یہ اخباروں کی زینت بنا۔ اس کے کارنامے پھر فلموں میں دکھائے جانے لگے۔ سپرمین کا وجود خیالی تھا لیکن لوگ اس کو حقیقت سمجھتے تھے یہ عجیب بات ہے کہ ٹارزن کا کردار پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر اور سپرمین کا کردار دوسری جنگ عظیم سے پہلے تخلیق ہوا۔
امریکہ میں تیسرا کردار جو تخلیق ہوا وہ ”اسپائیڈرمین“ کا کردار تھا۔ یہ کردار اسٹین لی اور اسٹو ڈٹکو نے تخلیق کیا۔ 1962ء میں جب اس سپر ہیرو کو روشناس کرایا گیا تو پورے امریکہ میں اس کی دھوم مچ گئی۔ اسپائیڈر مین ایک یتیم بچہ تھا جس کی پرورش آنٹی مے اور انکل بین نے کی۔ اس بچے میں عجیب و غریب صفات تھیں۔ وہ سیدھی دیواروں پر چپک جاتا۔ خطروں کی بو کو فوری سونگھ لیتا۔ انتہائی چاق و چوبند، انتہائی طاقتور، جینئس والی خوبیاں۔ شخصیت میں ٹھہراؤ، ناممکن کو ممکن کر دکھانے والی صلاحیتوں کا حامل، اسپائیڈر مین کہانیوں، فلموں اور ٹیلی ویژن سیریل کے ذریعے مقبول ہوکر سارے ریکارڈ توڑ گیا اور سب سے مقبول ہوگیا۔
ٹارزن، سپرمین اور اسپائیڈرمین یہ سارے سفید فام ہیرو تھے۔ اب سفید فام ہیروئن کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ 1978ء میں ”بایونک وومین“ کا کردار تخلیق ہوا۔ ایک ٹینس اسٹار فضا سے چھتری کے ذریعے اترتے ہوئے حادثے کا شکار ہوکر قریب المرگ ہوگئی اس کاآپریشن ہوا اس کی سماعت ختم ہوگئی تھی لیکن اس کے کان میں سماعت کا ایسا آلہ لگایا گیا جس کے ذریعے وہ دور دور کی آوازیں سن سکتی تھی اس کے دائیں بازو میں غیر معمولی طاقت آگئی۔ اس کی مصنوعی ٹانگوں میں ایسی طاقت تھی کہ وہ ریس والی کاروں سے زیادہ تیز دوڑنے لگی۔ بایونک وومین کا کردار ایک باقاعدہ شخصیت کے طور پر امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مشہور ہوگیا۔
21 ویں صدی شروع ہوئی تو امریکہ کے تخلیق کاروں کو سفید فام ہیروز اور ہیروئن کے ساتھ ایک ولن کی ضرورت بھی محسوس ہوئی پہلے 4 کرداروں کے ذریعے خوب رقم کمائی گئی تھی۔ وہ امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے ذہنوں کو مسخر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ 21 ویں صدی میں اسلامی دنیا کے وسائل پر قبضہ کرکے دولت سمیٹنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس کے لئے ایک ولن کا کردار تخلیق کیا گیا جس کا نام ”القاعدہ“ رکھا گیا۔ اس کردار کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ مسلم دنیا میں پیدا ہوا۔ نفرت، انتقام، جنون کی صلاحیتوں کے ساتھ جوان ہوا۔ القاعدہ بھی باقی کرداروں کی طرح تخلیقی یعنی فرضی کردار تھا لیکن اس کو بھی حقیقت سمجھا گیا۔ مرزا غالب نے اس کے بارے میں کہا تھا ”ہرچند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے ۔، القاعدہ کو تباہی کا انتہائی طاقتور کردار بتایا گیا کہ وہ امریکی جہازوں کو اغوا کرکے سب سے اونچی عمارتوں سے ٹکرا دیتا ہے اور یہ عمارتیں بتاشے کی طرح بیٹھ جاتی ہیں بلکہ قریب کی ایک اورعمارت WTCT تو ان عمارتوں کو گرتے دیکھ کر خوف سے ہی بیٹھ جاتی ہے۔ القاعدہ کردار کے خالق کا نام ابھی تک کسی کتاب میں نہیں آیا لیکن امریکہ میں 30 سال کے بعد راز فاش ہوجاتے ہیں۔ 30 سال بعد اس کے خالق کا پتہ چل جائے گا۔
اب امریکہ اور اس خطے کے وائسرائے رچرڈ ہالبروک پاکستان سے کہتے ہیں کہ وہ القاعدہ کو شکست دینے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ کوئی ہے جو ہالبروک سے کہے کہ پاکستان سے بات کرنے میں آپ بھی تو سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم ہواؤں کے پیچھے بھاگتے پھریں۔ کوئی ہے جو رچرڈ ہالبروک سے نہایت سنجیدگی سے کہے کہ جناب کیا آپ ہماری ملاقات ٹارزن، سپرمین، اسپائیڈر مین اور بایونک وومین سے کرادیں گے کہ ہم ان سے کچھ Tips حاصل کریں۔ رہی ان لوگوں کی بات جو لوگ القاعدہ کو ایک حقیقت سمجھتے ہیں وہ ان بچوں کی مانند ہیں جو واقعی سمجھتے ہیں کہ اسپائیڈر مین امریکہ میں رہتا ہے اور سپر ہیرو ہے۔
سورس : جنگ نیوز