ٹانگ کی بوٹی

ٹانگ کی بوٹی
"یہ مرغی صبح تک بچنے والی نہیں، مولوی صاحب سے چھری پھروا لو"
پڑوس والے قاضی صاحب نے بیمار مرغی کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تو کُکو کو بیک وقت مرغی کی ممکنہ فوتگی پر افسوس اور گھر میں مرغی کا سالن پکنے کی امید پر ایک گونہ خوشی بھی محسوس ہوئی۔
لاہور کے مضافاتی علاقے میں رہن سہن شہری اور دیہاتی طرزِ معاشرت کا گنگا جمنی مزاج رکھتا تھا۔ لوئر مڈل کلاس کے گھر میں مرغی کا سالن پکنے کی تین ہی صورتیں ہوا کرتی تھیں۔ مہمان کی مہمانداری کے لئے ، بیمار کی تیمارداری کے لئے یا پھر مرغی کی بیماری کے سبب۔ کُکو بارہ افراد کے کنبے میں سب سے چھوٹا تھا۔ ابا ،امی ، دوبھائی، چار بہنیں، ایک دادی، ایک چچا اورایک ماموں۔ ایک مرغی کا سالن تقسیم کے کس کلئیے کے تحت بارہ پلیٹوں میں پورا پڑتا تھا، اس کا جواب اس کی تیسری جماعت کی ریاضی کی کتاب میں نہیں لکھا تھا۔ البتہ ریاضی کے اس لاینحل سوال سے مدنیت کا ایک اصول ضرور اخذ ہوتا تھا، وہ یہ کہ مرغی کے سالن کی عوام میں ٹانگ کی بوٹی ایک اشرافیہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اپنی ہڈی کی ساخت کی بدولت یہ بوٹی مرغی کے دوسرے حصوں کی طرح بغدےکے پے درپے واروں سے قدرے محفوظ رہتی اور نتیجۃ باقی بوٹیوں کے مقابلے میں نسبتا زیادہ گوشت کی حامل ہوتی۔ اپنی اسی فربہی کی بدولت ٹانگ کی بوٹی مرغی کے سالن میں اشرافیہ کا درجہ پاتی تھی۔
طبقاتی تمدن کے حساب سے سالن کی یہ اشرافیہ کھانے کے حقدار بھی اشرافیہ ہی ٹھہرتے تھے ۔کھانے کی تقسیم کار ماں کے نزدیک درجہ بدرجہ یہ اشرافیہ مہمان، بیمار، گھر کے بزرگ اور لاڈلے بچے قرار پاتے تھے۔ ماں کے لئے تو سارے بچے ایک سمان لاڈلے ہوتے ہوں گے لیکن جب معاملہ سات بچوں اور دو ٹانگوں کی تقسیم کا ہو تو آخری استحقاق اکثر حصہ بقدر جثہ ہی ٹھہرتا تھا۔

****​

مہمانوں کے آگے سالن کا ڈونگا پڑا تھا، اور کُکو کی نظریں اس میں تیرتی سالن کی اشرافیہ پر جمی تھیں۔ مہمان خاتون نے بچہ سمجھ کر ڈونگا اس کے آگے کردیا۔
"پہلے آپ ڈال لو بیٹا" کُکو نے بے یقینی کے عالم میں ماں کی طرف دیکھا ۔ نظروں ہی نظروں میں تنبیہ نما پیغام رسانی ہوئی اور کُکو نے خاموشی سے شوربے اور ایک چھوٹی بوٹی پر قناعت کرلی۔
"بیٹا ٹانگ کی بوٹی لے لو ناں"
" نہیں اسے پسند نہیں، آپ لیجیئے ناں" کُکو سے پہلے اس کی ماں بول پڑیں۔

****​

کُکو کو یاد نہیں تھا اس دن ذبح ہونے والی قریب المرگ مرغی کی ٹانگ کس لاڈلے کے حصے میں آئی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے کبھی ٹانگ کی بوٹی نہ ملی ہو، البتہ اس کے شعور، لا شعور یا تحت الشعور میں کہیں نہ کہیں مرغی کی ٹانگ کی تمنا رکھنا جیسے ایک لالچ، طمع، حرص یا ندیدے پن کا مظہر بن چکا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ گھر کے حالات بدلنے لگے تھے۔ کُکو بڑا ہوکر اچھی تعلیم مکمل کرکے آفیسر گریڈ کی ملازمت کرنے لگا تھا۔ گھر کے طور طریقے بدلے تھے، لیکن کفایت شعاری اب بھی لازمی تھی۔ البتہ اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اس کے بچوں میں کوئی احساسِ محرومی نہ رہے۔
" ماما، ٹانگ کی بوٹی!!!!" فراز نے ضد کی، بیوی کچھ بولنے لگی تو کُکو نے ٹوکا، دے دو بھئی ، دو ہی تو بچے ہیں ہمارے، جھگڑا کس بات کا، ایک ایک دونوں کو دے دو۔
" اور آپ؟"
"میں کیا ساری عمر ٹانگ کی بوٹی کھاتا آیا ہوں جو مجھے عادت ہوگی"

****​

بچے بڑے ہو رہے تھے اور ساتھ ساتھ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل بھی ہورہی تھی۔ لوئر مڈل کلاس کے کنبے سے نکلا ہوا کُکو اب اپر مڈل کلاس سے نکل کر ایک خوشحال طبقے میں داخل ہونے کو پر تول رہا تھا۔
مال سے ماہانہ گروسری کرتے ہوئے چکن شاپ سے چکن آرڈر کیا تو کاؤنٹر والے نے پوچھا
" سر آٹھ پیس کر یا بارہ؟"
پہلی دفعہ اس غیر متوقع سوال پر گڑبڑاتے ہوئے اس نے کہا
" پتہ نہیں، بھئی جتنے لوگ عموماَ کرواتے ہیں اتنے ہی کردو"
" سر آٹھ ٹھیک رہتے ہیں، بارہ میں تو کچھ بھی نہیں بچتا"
کُکو کے ذہن میں بچپن کا منظر ابھر آیا، ایک مرغی کا سالن اور بارہ افراد کی تقسیم۔ لیکن اب گھر میں مرغی کا سالن نہیں پکتا تھا۔ چکن قورمہ بنتا تھا۔ بلکہ اکثر بچے بروسٹ آرڈر کر لیتے تھے۔ بچوں کے نزدیک لیگ پیس یا بریسٹ پیس میں چوائس کا تعلق ٹیسٹ سے تھا سٹیٹس سے نہیں۔
" پاپا!، بروسٹ منگوا رہے ہیں، کون سا پیس لیں گے ؟" منصور نے پوچھا
" کچھ بھی کرلو"
بل کُکو نے ہی دینا تھا، اور اب اس کے لئے یہ بل کوئی معنی نہیں رکھتا تھا لیکن اب بھی اپنے لئے لیگ پیس کی فرمائش کرتے ہوئے جھجکتا تھا۔ جیسے یہ کوئی ندیدہ پن ہو۔

****​

کُکو کو احساس نہیں ہوا کہ کب اس نے بولنا چھوڑ دیا تھا
ریٹائرمنٹ ہوئی تو بولنے کی ضرورت کم ہوگئی۔ شریکِ زندگی رخصت ہوئی تو بولنے کی خواہش بھی کم ہوگئی۔ بچے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوئے تو بولنے کے مواقع بھی محدود ہوگئے۔ اپنی گفتگو میں ربط کی کمی محسوس ہوئی تو اس نے چپ کا روزہ رکھنے میں عافیت جانی۔ یہ اختیاری خاموشی کب خاموشی کے جبر میں بدل گئی، اس کا احساس کُکو کو بڑی دیر سے ہوا۔
آج گھر میں سب اکٹھے ہورہے تھے۔ فراز کئی سال بعد بیوی بچوں سمیت قطر سے پاکستان آیا تھا۔ منصور بھی اپنی پاکستان نژاد جرمن بیوی کو پاکستان دکھانے لایا ہوا تھا۔ کھانے کی میز پر آج بھی بارہ افراد جمع تھے کُکو، دو بیٹے دو بہوئیں، چار پوتے دو پوتیاں اور کُکو کا کیئر ٹیکر۔ میز پر چار پانچ قسم کی ڈشز سجی تھیں۔ کُکو کی نظریں روسٹ چکن کے ٹانگ کے بڑے بڑے پیسز پر جمی تھیں۔
فراز نے اپنی بیگم سے کہا" پاپا کو پلیٹ میں کھانا نکال دو"
ضعف تھا یا بیزاری، اب زبان سے بڑھ کر کُکو کے ہاتھوں تک بھی آ چکی تھی۔
" دیکھنا لیگ پیس مت ڈالنا، پاپا کو پسند نہیں، میں نے انہیں کبھی کھاتے نہیں دیکھا"۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
افسانے میں دو باتیں غلط لکھی ہیں:
اول ، لاہور میں مولوی کا پیشہ مرغی ذبح کرنا نہیں ہے یہ قصاب کا کام ہے۔
دوم ، لاہور میں معاشرت کا گنگا جمنی مزاج کہاں سے آگیا؟
ایہ لاہور اے تے ایتھے پنجاب دی رہتل اے۔
 
آخری تدوین:
افسانے میں دو باتیں غلط لکھی ہیں:
اول ، لاہور میں مولوی کا پیشہ مرغی ذبح کرنا نہیں ہے یہ قصاب کا کام ہے۔
دوم ، لاہور میں معاشرت کا گنگا جمنی مزاج کہاں سے آگیا؟
وضاحت
دیہاتی اور مضافاتی ماحول میں باقاعدہ قصاب کی جگہ کوئی بھی انفرادی طور پر مرغی (بلکہ بکری، بکرا وغیرہ بھی) ذبح کرلیا کرتا تھا، اور جو لوگ یہ مہارت خود نہ رکھتے ہوں وہ یہ کام کولوی صاحب سے کروا لیا کرتے تھے، چھوٹے علاقوں میں قصاب کی نسبت مولوی صاحب باآسانی دستیاب ہوتے تھے۔
گنگا جمنی مزاج کی اصطلاح کسی بھی دو تہذیبوں کے اختلاط کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ اصطلاح صرف گنگا جمنا ہی سے مخصوص نہیں۔ اساتذہ رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس اصطلاح کا استعمال محض علاقائی تخصیص تک ہی محدود ہے؟
محترم الف عین
سے رہنمائی کی درخواست ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
گنگا جمنی مزاج کی اصطلاح کسی بھی دو تہذیبوں کے اختلاط کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔
غلط استعمال ، لاہور کو گنگا جمنی مزاج کا حامل کہنے کی خواہش ان غاصب لوگوں کی ہے جنہوں نے پنجاب سے پنجابی چھین کر اردو مسلط کی اور اب یہاں گنگا جمنی تہذیب رائج کرنا چاہتے ہیں۔
 
ایہ لاہور اے تے ایتھے پنجاب دی رہتل اے۔ گنگا جمنی لکھ کے تُسی کھچ ماری اے۔

ممکن ہے آپ درست فرما رہے ہوں۔
مجھے اپنی اردو زبان کی کم علمی کا مکمل ادراک ہے۔ اسی لئے میں نے اساتذہ سے رہنمائی کی درخواست کی ہے۔
البتہ میری کسی کم علمی کو بددیانتی پر مہمول کرنا ذیادتی ہے۔ میں خود پنجابی ہوں ، لیکن ایک علمی گفتگو میں یہ ایک غیر متعلق بات ہے۔
جزاک اللہ خیر
 

الف نظامی

لائبریرین
اچھا ایک اصطلاح گنگا جمنی معاشرت کو آپ جنرلائز کر کے کسی بھی دو تہذیبوں کے اختلاط پر لاگو کر رہے ہیں۔
تو آپ کو جنرلائزیشن کو پڑھنا پڑے گا یعنی سپیسیفک اور جنرل میں فرق یا خصوص اور عموم میں فرق۔
جنرلائزڈ سٹیٹمنٹ ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
افسانے میں دو باتیں غلط لکھی ہیں:
اول ، لاہور میں مولوی کا پیشہ مرغی ذبح کرنا نہیں ہے یہ قصاب کا کام ہے۔
دوم ، لاہور میں معاشرت کا گنگا جمنی مزاج کہاں سے آگیا؟
ایہ لاہور اے تے ایتھے پنجاب دی رہتل اے۔ گنگا جمنی لکھ کے تُسی کھچ ماری اے۔
لاہور اور پنجابی کے معاملے میں "نو کمپرومائز" :ROFLMAO:
 

محمداحمد

لائبریرین
غلط استعمال ، لاہور کو گنگا جمنی مزاج کا حامل کہنے کی خواہش ان غاصب لوگوں کی ہے جنہوں نے پنجاب سے پنجابی چھین کر اردو مسلط کی اور اب یہاں گنگا جمنی تہذیب رائج کرنا چاہتے ہیں۔

کافی "اوور سینسٹِو" ہوتے جا رہے ہیں آپ پنجابی کے معاملے میں۔

اس کی کوئی خاص وجہ؟

اردو تو خود بے چاری ہر طرف سے تعصب کا شکار ہے، اس سے تعارض سمجھ نہیں آتا۔ سندھ والے چاہتے ہیں کہ سندھ میں سندھی چلے۔ قومی زبان اردو ہے اور دفتروں میں سندھی لکھی جاتی ہے۔ اُدھر ہندوستان میں بھی اردو کو اسی تعصب اور مذہبی تعصب کی بنا پر وہ مقام نہیں ملا جو اس کا حق تھا۔ حالانکہ ہندوستان تو اردو کی جنم بھومی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جیسے آپ کراچی اور اردو کے معاملے میں کمپرومائز نہ کرنے کے عادی ہیں۔

رہا اردو کے معاملے میں کمپرومائز تو اردو تو ابھی کمپرومائز ہی کر رہی ہے۔ اوپر سندھ میں دفتری زبان کی مثال دے چکا ہوں۔

اور یہ کہ اردو کے سگے تو اردو بولنے والے خود بھی نہیں ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کافی "اوور سینسٹِو" ہوتے جا رہے ہیں آپ پنجابی کے معاملے میں۔

اس کی کوئی خاص وجہ؟

اردو تو خود بے چاری ہر طرف سے تعصب کا شکار ہے، اس سے تعارض سمجھ نہیں آتا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجاب والوں نے اردو کی محبت میں اردو اردو کر دی اور اپنی زبان بھول گئے ، آج پنجاب کا بچہ بچہ اردو انگریزی تو جانتا ہے پنجابی بھول چکا ہے۔ سندھی ، بلوچ ، اور پختون عقل مند تھے اپنی زبان اور تہذیب کی حفاظت کرتے رہے۔ پنجاب نے اردو اپنائی ، اپنی زبان اور تہذیب کو قتل کیا۔ اس کے باوجود اردو بولنے والوں خصوصا الطاف حسین کی نفرت سمیٹی۔ اور پڑھے لکھے اردو دان طبقے سے لب و لہجے کا طعنہ سنا۔
سندھ والے چاہتے ہیں کہ سندھ میں سندھی چلے۔ قومی زبان اردو ہے اور دفتروں میں سندھی لکھی جاتی ہے۔
اور سندھ میں سندھی کیوں نہ چلے ، بھئی سندھ والے اپنی زبان کیوں چھوڑیں؟ پہلے آپ نے بنگال میں یہی تماشہ لگا کر ملک دو لخت کروانے میں کردار ادا کیا ، پھر پنجاب پر لسانی قبضہ کیا ، اب سندھ کی سندھی سے آپ کو تکلیف ہے۔ آپ اتنے انوکھے لاڈلے کیوں ہیں؟
 
آخری تدوین:
غلط استعمال ، لاہور کو گنگا جمنی مزاج کا حامل کہنے کی خواہش ان غاصب لوگوں کی ہے جنہوں نے پنجاب سے پنجابی چھین کر اردو مسلط کی اور اب یہاں گنگا جمنی تہذیب رائج کرنا چاہتے ہیں۔
میں ایسی کسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا، میں پنجابی ہوں اور اس کے ثبوت میں غلط اردو بولنا ضروری نہیں سمجھتا۔
شکریہ
 

محمداحمد

لائبریرین
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجاب والوں نے اردو کی محبت میں اردو اردو کر دی اور اپنی زبان بھول گئے ،
بہت غلط کیا۔ اپنی زبان کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پنجابی اور اردو سے بہ یک وقت محبت رکھی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کی مادری زبان پنجابی ہے تو پہلا حق اُس کا ہے اور بعد میں کسی اور زبان کا۔
آج پنجاب کا بچہ بچہ اردو انگریزی تو جانتا ہے پنجابی بھول چکا ہے۔
یہی حال اردو والوں نے انگریزی کو فوقیت دے کر اردو کے ساتھ کیا۔ یہ سب گلوبلائزیشن اور غلامی کے کرشمے ہیں۔
سندھی ، بلوچ ، اور پختون عقل مند تھے اپنی زبان اور تہذیب کی حفاظت کرتے رہے۔
قصداً نہیں کیا۔ جن کا ایکسپوژر دوسری زبانوں سے کم رہا۔ اُن کی زبانیں نسبتاً محفوظ رہیں۔

ورنہ سندھی ٹی وی چینلز پر ذرا سندھی سنیے۔ انگریزی اردو سب مکس کرکے زبان کا ستیاناس کر دیا گیا ہے۔
پنجاب نے اردو اپنائی ، اپنی زبان اور تہذیب کو قتل کیا۔
بہت غلط کیا۔ اردو یہ نہیں کہتی کہ پنجابی کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ اُن کا اپنا کیا دھرا ہے ۔ جو بلا شبہ غلط ہے۔

اس کے باوجود اردو بولنے والوں خصوصا الطاف حسین کی نفرت سمیٹی۔
لسانی اعتبار سے عوام میں نفرتیں سیاست دان پھیلاتے ہیں یا وہ جو سیاست دانوں کو لے کر آتے ہیں۔ الطاف حسین اب ماضی کا قصہ ہیں۔ اُنہیں اب کون پوچھتا ہے۔
یوں بھی الطاف حسین کو پنجابی زبان سے کوئی شکایت نہیں ہے، بلکہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے شکایت ہے۔ یہ دونوں بالکل ہی مختلف باتیں ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یوں بھی الطاف حسین کو پنجابی زبان سے کوئی شکایت نہیں ہے، بلکہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے شکایت ہے۔ یہ دونوں بالکل ہی مختلف باتیں ہیں۔
اسٹیبلمشنٹ کبھی پنجابی نہیں رہی ، جناح ، لیاقت علی خان ، ایوب خان ، یحیی خان ، ضیا ، اسلم بیگ ، مشرف یہ سب غیر پنجابی ہیں۔
الطاف حسین کی وجہ سے آج پنجابی مزدور بلوچستان میں قتل ہو رہے ہیں۔ اردو والوں نے پروپگنڈا کر کے پنجاب کے خلاف نفرت پیدا کی جب کہ اردو کا کون سا شعبہ ایسا نہیں جہاں پنجاب والوں نے اردو کی خدمت نہ کی ہو پھر بھی پنجاب اور پنجابی طعنہ و تشنیع کا شکار ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسٹیبلمشنٹ کبھی پنجابی نہیں رہی ، جناح ، لیاقت علی خان ، ایوب خان ، یحیی خان ، ضیا ، اسلم بیگ ، مشرف یہ سب غیر پنجابی ہیں۔
الطاف حسین کی وجہ سے آج پنجابی مزدور بلوچستان میں قتل ہو رہے ہیں۔ اردو والوں نے پروپگنڈا کر کے پنجاب کے خلاف نفرت پیدا کی جب کہ اردو کا کون سا شعبہ ایسا نہیں جہاں پنجاب والوں نے اردو کی خدمت نہ کی ہو پھر بھی پنجاب اور پنجابی طعنہ و تشنیع کا شکار ہیں۔

یہ میرا نہیں الطاف حسین اور اُن کے حامیوں کا کہنا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ اس بات کو یہیں روک دیجے۔ یہ لڑی آپ کے ان سب باتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر واقعی ڈسکشن کرنا چاہیں تو سیاست کے زمرے میں ایک اور لڑی کھول لیجے۔ لیکن میں ان سب مباحث سے بیزار ہوں۔ میری طرف سے سلام قبول فرمائیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ میرا نہیں الطاف حسین اور اُن کے حامیوں کا کہنا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ اس بات کو یہیں روک دیجے۔ یہ لڑی آپ کے ان سب باتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر واقعی ڈسکشن کرنا چاہیں تو سیاست کے زمرے میں ایک اور لڑی کھول لیجے۔ لیکن میں ان سب مباحث سے بیزار ہوں۔ میری طرف سے سلام قبول فرمائیے۔
پہلے خود وجہ پوحھی اور اب بیزار ہو رہے ہیں۔ مجھے تفصیل بیان کرنے کا شوق نہیں تھا۔ آپ کے اصرار پر درج کیا۔ امید ہے اب افاقہ ہوگا۔
 
Top