حسان خان
لائبریرین
اسلام آباد – پاکستان اور افغانستان ہمیشہ ہی ذرائع ابلاغ میں ایک دوسرے کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے ہیں مگر شاذ ہی ایک دوسرے سے روبرو بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن اب ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو اس رجحان کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان "سرحد کے اس پار" نامی پہلا مشترکہ پروگرام 17 مارچ کو پہلی بار نشر ہوا۔ پروگرام کے منتظمین، شرکاء اور مبصرین نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ یہ پروگرام سیاست دانوں، سیکورٹی حکام اور شہری معاشرے کے اراکین کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان براہ راست رابطہ فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اہم مسائل پر تبادلہ خیالات کر سکتے ہیں تا کہ مفاہمت، تعاون اور دیرپا امن کو فروغ دیا جا سکے۔
ناظرین کی آراء کو شامل کرنے والا یہ ٹاک شو پاکستان کے ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز اور افغان چینل طلوع ٹی وی کے اشتراک سے چلایا جا رہا ہے۔ ان چینلوں نے اس ہفتہ وار پروگرام کی پہلی چار اقساط نشر کرنے اور پھر صورت حال کا جائزہ لینے پر اتفاق کیا تھا۔
طلوع ٹی وی میں شعبہ ء حالات حاضرہ کے سربراہ لطف اللہ نجفی زادہ نے پروگرام شروع ہونے کے بعد کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی حوصلہ افزائی کا ایک قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو اس بات کا مزید انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک انہیں ایک دوسرے کے قریب لائیں گے۔ اب وہ اس کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔
نجف زادہ نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ چند ماہ قبل جب میں ایکسپریس نیوز کے دوستوں سے مذاکرات کی غرض سے اسلام آباد آیا تھا تو میں نے محسوس کیا تھا کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ بظاہر ذرائع ابلاغ اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں کیونکہ حکومت سے حکومت کی کوششوں کے سودمند نتائج نہیں نکل رہے۔
ایکسپریس نیوز میں ان کے ہم منصب مظہر عباس نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایک اچھی تجویز سامنے آئی تھی۔ اور بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں افغانستان کی اہمیت اور 2014 پر نظر رکھتے ہوئے ہم نے اسے موقع دینے کا فیصلہ کیا۔
آزمائشی قسط میں پاکستانی پینل کے اراکین عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل، سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور انٹر سروسز انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے سابق افغان وزیر داخلہ حنیف اتمر اور افغان قومی نظامت برائے سلامتی کے سابق سربراہ امر اللہ صالح سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
نجف زادہ نے کہا کہ ہم نے جان بوجھ کر ایک سخت موضوع سے آغاز کیا۔ مجھے علم تھا کہ پہلے شو میں دونوں پینلوں کے اراکین کے درمیان قدر مشترک تلاش کرنا ایک دشوار کام ہو گا۔
مگر آخر میں اس آزمائشی پروگرام کو کامیاب تصور کیا گیا کیونکہ دونوں فریقوں نے آگے بڑھنے پر اتفاق کر لیا تھا۔
خوش آئند ردعمل
مبصرین شو کے اثر و رسوخ کے اچھے امکانات دیکھ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم پاک انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن نامی فکر گاہ کے سربراہ محمد عامر رانا نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے منصوبے اعتماد سازی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور وہ رائے عامہ کے رہنماؤں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ادھر پروگرام کی میزبان منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ اس بحث سے پاکستان اور افغانستان کو غالباً ان اہم ترین مسائل کو حل کرنے کا موقع ملے گا جو آج خطے کو درپیش ہیں۔
دہشت گردی جیسے مشترکہ مسائل کے بارے میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور افغانستان اس بات کو محسوس کریں گے کہ اس میں کتنے زیادہ خطرات پنہاں ہیں۔ وہ ہماری دونوں اقوام کے تحفظات دور کرنے کے لیے صاف گوئی پر مبنی اور معنی خیز بحث کریں گے۔
فری لانس افغان صحافی سمیع یوسف زئی نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اچھا آغاز ہے اور میرے خیال میں افغان اور پاکستانی عوام کے درمیان زیادہ سیاسی، ثقافتی اور عوامی بحث کی ضرورت ہے۔
پینل کے شرکاء نے اس بات سے اتفاق کیا کہ آزمائشی قسط اچھی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کے فورم میں ایک دوسرے کے قریب آنے کو ستائش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
شو کی جڑیں
سرحد کے اس پار کی پہلی قسط نشر ہونے سے چند ہفتے قبل ہی ایک تحقیقی رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے ادارے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگیوں کو ہوا دے رہے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم ذرائع ابلاغ کی ترقی کی تنظیم انٹر میڈیا کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا کہ 83 فی صد پاکستانی صحافی اور 86 فی صد افغان صحافی احاطہ کی جانے والی خبروں کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ایک آن لائن سروے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بیشتر صحافیوں کا یہ خیال ہے کہ دونوں ملکوں کی ایک دوسرے کے بارے میں 70 فی صد تک خبریں منفی ہوتی ہیں۔
تاہم اس طرح کی کوششوں سے ان تاثرات میں بہتری آ سکتی ہے۔ ناظرین کو ایک مختلف نقطہ نظر پیش کیا جا سکتا ہے اور دونوں ملکوں کو آگے بڑھنے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکتا ہے۔
طلوع ٹی وی تاحال افغان ناظرین کے ردعمل کا منتظر ہے جبکہ ایکسپریس نیوز کے ناظرین اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں اور اس پر نکتہ چینی بھی۔ مظہر عباس نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ چونکہ درجہ بندیاں پروگرام کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں لہٰذا اسٹیشنوں کو ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں غیر ملکی چینلوں کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہے اور اگر ہم اوسط درجہ بھی حاصل کر لیں تو میں ذاتی طور پر اس سے مطمئن ہوں۔
ربط
پاکستان اور افغانستان کے درمیان "سرحد کے اس پار" نامی پہلا مشترکہ پروگرام 17 مارچ کو پہلی بار نشر ہوا۔ پروگرام کے منتظمین، شرکاء اور مبصرین نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ یہ پروگرام سیاست دانوں، سیکورٹی حکام اور شہری معاشرے کے اراکین کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان براہ راست رابطہ فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اہم مسائل پر تبادلہ خیالات کر سکتے ہیں تا کہ مفاہمت، تعاون اور دیرپا امن کو فروغ دیا جا سکے۔
ناظرین کی آراء کو شامل کرنے والا یہ ٹاک شو پاکستان کے ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز اور افغان چینل طلوع ٹی وی کے اشتراک سے چلایا جا رہا ہے۔ ان چینلوں نے اس ہفتہ وار پروگرام کی پہلی چار اقساط نشر کرنے اور پھر صورت حال کا جائزہ لینے پر اتفاق کیا تھا۔
طلوع ٹی وی میں شعبہ ء حالات حاضرہ کے سربراہ لطف اللہ نجفی زادہ نے پروگرام شروع ہونے کے بعد کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی حوصلہ افزائی کا ایک قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو اس بات کا مزید انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ دیگر ممالک انہیں ایک دوسرے کے قریب لائیں گے۔ اب وہ اس کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔
نجف زادہ نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ چند ماہ قبل جب میں ایکسپریس نیوز کے دوستوں سے مذاکرات کی غرض سے اسلام آباد آیا تھا تو میں نے محسوس کیا تھا کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ بظاہر ذرائع ابلاغ اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں کیونکہ حکومت سے حکومت کی کوششوں کے سودمند نتائج نہیں نکل رہے۔
ایکسپریس نیوز میں ان کے ہم منصب مظہر عباس نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایک اچھی تجویز سامنے آئی تھی۔ اور بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں افغانستان کی اہمیت اور 2014 پر نظر رکھتے ہوئے ہم نے اسے موقع دینے کا فیصلہ کیا۔
آزمائشی قسط میں پاکستانی پینل کے اراکین عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل، سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور انٹر سروسز انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے سابق افغان وزیر داخلہ حنیف اتمر اور افغان قومی نظامت برائے سلامتی کے سابق سربراہ امر اللہ صالح سے مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
نجف زادہ نے کہا کہ ہم نے جان بوجھ کر ایک سخت موضوع سے آغاز کیا۔ مجھے علم تھا کہ پہلے شو میں دونوں پینلوں کے اراکین کے درمیان قدر مشترک تلاش کرنا ایک دشوار کام ہو گا۔
مگر آخر میں اس آزمائشی پروگرام کو کامیاب تصور کیا گیا کیونکہ دونوں فریقوں نے آگے بڑھنے پر اتفاق کر لیا تھا۔
خوش آئند ردعمل
مبصرین شو کے اثر و رسوخ کے اچھے امکانات دیکھ رہے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم پاک انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن نامی فکر گاہ کے سربراہ محمد عامر رانا نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے منصوبے اعتماد سازی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور وہ رائے عامہ کے رہنماؤں کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ادھر پروگرام کی میزبان منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ اس بحث سے پاکستان اور افغانستان کو غالباً ان اہم ترین مسائل کو حل کرنے کا موقع ملے گا جو آج خطے کو درپیش ہیں۔
دہشت گردی جیسے مشترکہ مسائل کے بارے میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور افغانستان اس بات کو محسوس کریں گے کہ اس میں کتنے زیادہ خطرات پنہاں ہیں۔ وہ ہماری دونوں اقوام کے تحفظات دور کرنے کے لیے صاف گوئی پر مبنی اور معنی خیز بحث کریں گے۔
فری لانس افغان صحافی سمیع یوسف زئی نے سینٹرل ایشیا آن لائن سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اچھا آغاز ہے اور میرے خیال میں افغان اور پاکستانی عوام کے درمیان زیادہ سیاسی، ثقافتی اور عوامی بحث کی ضرورت ہے۔
پینل کے شرکاء نے اس بات سے اتفاق کیا کہ آزمائشی قسط اچھی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کے فورم میں ایک دوسرے کے قریب آنے کو ستائش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
شو کی جڑیں
سرحد کے اس پار کی پہلی قسط نشر ہونے سے چند ہفتے قبل ہی ایک تحقیقی رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے ادارے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگیوں کو ہوا دے رہے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم ذرائع ابلاغ کی ترقی کی تنظیم انٹر میڈیا کی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا کہ 83 فی صد پاکستانی صحافی اور 86 فی صد افغان صحافی احاطہ کی جانے والی خبروں کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ایک آن لائن سروے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بیشتر صحافیوں کا یہ خیال ہے کہ دونوں ملکوں کی ایک دوسرے کے بارے میں 70 فی صد تک خبریں منفی ہوتی ہیں۔
تاہم اس طرح کی کوششوں سے ان تاثرات میں بہتری آ سکتی ہے۔ ناظرین کو ایک مختلف نقطہ نظر پیش کیا جا سکتا ہے اور دونوں ملکوں کو آگے بڑھنے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکتا ہے۔
طلوع ٹی وی تاحال افغان ناظرین کے ردعمل کا منتظر ہے جبکہ ایکسپریس نیوز کے ناظرین اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں اور اس پر نکتہ چینی بھی۔ مظہر عباس نے سینٹرل ایشیا آن لائن کو بتایا کہ چونکہ درجہ بندیاں پروگرام کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں لہٰذا اسٹیشنوں کو ناظرین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی ضرورت پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں غیر ملکی چینلوں کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہے اور اگر ہم اوسط درجہ بھی حاصل کر لیں تو میں ذاتی طور پر اس سے مطمئن ہوں۔
ربط