ٹرافی ہنٹنگ: غیر ملکی شکاریوں کی منتظر

090907083641_ibex_1.jpg
ہمالیائی آئبیکس کی قیمت اڑھائی ہزار ڈالر یا دو لاکھ پانچ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے

پاکستان میں گزشتہ برس سکیورٹی کی خراب صورتحال کا منفی اثر شمالی علاقہ جات میں ٹرافی ہنٹنگ پر بھی پڑا۔ جنگلی حیات کے محکمے کے حکام کا کہنا ہے کہ مارخور، آئبیکس اور نیلی بکری کے شکار کے لیے غیرملکیوں کو جاری چالیس فیصد پرمٹ منسوخ کرنے پڑے۔
البتہ رواں سال حکومت نے اس سکیم کے تحت باسٹھ پرمٹ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گلگت میں محکمہ جنگلی حیات کے افسر غلام محمد نے گزشتہ برس کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ بیالیس پرمٹ جاری کیے گئے تھے تاہم محض انتیس غیرملکی شکاری ٹرافی ہنٹنگ کے لیے آئے۔
’ملکی حالات ایسے تھے کہ ان غیرملکیوں نے نہ آنے میں ہی بہتری جانی۔ تاہم اس سال ہم کافی پرامید ہیں کہ غیرملکی شکاری ضرور آئیں گے۔ ہم پچہتر فیصد تک شکاریوں کے آنے کی امید کر رہے ہیں۔‘
حکومت پاکستان نے قومی اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے گلگت، سکردو، غزر، گھانچے اور استور کے اضلاع میں اس برس باسٹھ جانوروں کے شکار کے پرمٹ جاری کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ان میں سے چار استور ماخور کے لیے، ہمالیہ آئیبکس کے لیے پچاس اور نیلی بکری کے لیے آٹھ پرمٹ جاری کیے جائیں گے۔
ان میں سے سب سے مہنگا شکار استور مارخور کا ہے جس کے ایک شکار کی قیمت حکومت نے چالیس ہزار امریکی ڈالر یا تقریباً تینتیس لاکھ روپے مقرر کی ہے۔ دوسرے نمبر پر نیلی بکری کی قیمت چھ ہزار دو سو پچاس ڈالر یا پانچ لاکھ بارہ ہزار روپے جبکہ ہمالیائی آئیبکس کی قیمت اڑھائی ہزار ڈالر یا دو لاکھ پانچ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
ان نایاب جانوروں کے شکار کے لیے دنیا بھر سے خصوصاً امریکہ، سوئیڈن ، جرمنی، روس اور ترکی جیسے ممالک کے لوگ بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ اس سال شکار کا سیزن یکم اکتوبر سے آئندہ برس اپریل تک مقرر کیا گیا ہے۔
انیس سو ترانوے سے اس طرز کے شکار کے آغاز سے اس سے ملنے والی آمدن میں سے حکومت اسّی فیصد اس علاقے کی مقامی آبادی کوادا کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مقامی آبادی نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی اور ان کی کوششوں اور حفاظت سے ان جانوروں کی تعداد بڑھی ہے۔ غلام محمد کا کہنا ہے کہ لوگ خود کھڑے ہوگئے۔ ’ان کی دلچسپی کی وجہ سے اب ان جانوروں کو باآسانی سڑک کنارے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔‘
اس برس محکمہ جنگلی حیات نے پہلی مرتبہ دیامیر میں مارخور کے شکار کا بندوبست کیا ہے تاکہ یہاں کی آبادی کو اس کے فوائد سے آگہی مل سکے۔
معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں کے تحفظ کے عالمی معاہدے سائٹس کے مطابق پاکستان میں فی الحال محض مارخور، آئیبکس اور بلو گوٹ کے شکار کی محدود پیمانے پر اجازت ہے۔ تاہم حکومت نے اوریال کے لیے بھی اجازت حاصل کرنے کی غرض سے تجاویز تیار کی ہیں۔’انشا اللہ ہمیں امید ہے کہ آئندہ ہمیں اس کا پرمٹ بھی مل جائے گا۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
 
Top