ٹرمپ کو بندروں سے بچانے کے لیے بھارتی پولیس کو غلیلیں دیدی گئیں

عرفان سعید

محفلین
ٹرمپ کو بندروں سے بچانے کے لیے بھارتی پولیس کو غلیلیں دیدی گئیں

1996693-indiacatapults-1582296894-981-640x480.jpg

امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ آگرہ کے موقع پر انہیں بندروں کے کسی ممکنہ حملے سے بچانے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کئے گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

آگرہ: بھارتی پولیس نے صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت پر انہیں آوارہ بندروں سے بچانے کے لیےاپنی غلیلیں تیار کرلی ہیں۔ پولیس کا خاص دستہ تاج محل پر موقع پر ان کی حفاظت کرے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 24 فروری کو بھارت آرہے ہیں جہاں وہ آگرہ جاکر تاج محل دیکھیں گے۔ تاج محل کی اطراف میں انتہائی متحرک مکاک بندروں کے غول موجود ہیں۔ بندروں کی تعداد 500 سے 700 بتائی جاتی ہے اور وہ یہاں آنے والے سیاحوں سے اشیائے خوردونوش چھین کربھی لے جاتے ہیں۔

اس دوران ٹرمپ کئی شہروں کا دورہ بھی کریں گے اور تاج محل کے لیے آگرہ بھی جائیں گے۔ دوسری جانب آگرہ کے رہائشی ان بندروں سے پریشان ہیں جبکہ بچوں پر بندروں کی جانب سے حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

آگرہ کی رہائشی ایک خاتون نے بتایا کہ ہم بندروں سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ بچے اور خواتین گھروں کی چھت پر جاتے ہوئے ڈرتے ہیں جہاں ان بندروں کا راج ہے۔ اگر یہ بندر صدر ٹرمپ پر حملہ کردیتے ہیں تو یہ بہت برا ہوگا۔ اس ضمن نے آگرہ کی حکومت نے ہرممکن قدم پر زور دیا ہے۔

catapults-1582296965.jpg


ٹرمپ کے دورہ تاج محل کے موقع پر ایک جانب تو پولیس کے دستے کو غلیلیں دی گئی ہیں تو دوسری جانب خفیہ اہلکار بھی صدر ٹرمپ کو بھرپور تحفظ فراہم کریں گے۔ دوسری جانب تاج محل میں سیکیورٹی کے سربراہ برج بھوشن نے کہا کہ بندر غلیلوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں اور اگر صرف غلیل ان پر تان دی جائے تب بھی وہ فرار ہوجاتے ہیں۔

تاج محل میں بھی سیاحوں پر بندروں کے ہولناک حملے ریکارڈ ہوئے ہیں۔ 2018 میں دو فرانسیسی سیاحوں پر بندروں نے اس وقت دھاوا بول دیا تھا جب وہ سیلفی لے رہے تھے۔ اس سے قبل ایک خاتون کی گود سے بندر نومولود بچہ چھین کر لے گئے تھے اور اسے زمین پر پٹخ کر دے مارا تھا۔

دوسری جانب بھارت میں صدر ٹرمپ کے دورے پر صفائی کی مہم جاری ہے۔ دریائے جمنا میں گندے پانی کی بو ختم کرنے لیے تازہ پانی چھوڑا جارہا ہے۔ احمدآباد میں ایئرپورٹ کی ایک جانب واقع کچی آبادی کو 400 میٹر لمبی اور آٹھ فٹ بلند دیوار سے چھپایا گیا ہے تو کئی مقامات پر ناپسندیدہ مناظر کو چھپانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
 
Top