عثمان غازی
محفلین
وہ مرمریں بت۔۔وہ مہ جبیں
حسن کاکوہ ِطور۔۔وہ دل نشیں
اس کالہجہ شرمگیں شرمگیں
ایک لکھاری کو دل دے بیٹھی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس کی دنیااس کی چاردیواری
فضاؤں میں اڑنے لگی
جس کو وہ جانتی تک نہ تھی
اس کو اپناسب کچھ ماننے لگی
لفظ معتبر۔۔کلام بے مثال
بس یہی خوبی اس کو لے ڈوبی
اورلکھاری جانتاتک نہ تھا
یہ دل لگی تھی کہ دل کی لگی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے شہرکابس نام سناتھا
وہ گاؤں کی الہڑمٹیارن
وہ ندی کی دوست ۔۔وہ بنجارن
اس کاعشق ۔۔اس کااعتبار
اس کی وفا۔۔اس کاپیار
سب محترم ۔ ۔
مگرلکھاری عشق کہاں سے لائے
ٹوبہ کاپھول
کراچی میں کیسے لگائے
عشق کوئی کھیل نہیں
عشق فون کامیل نہیں
یہ ملاپ ہے روحوں کا
کِھل نہیں سکتا
سنگ مرمرکی زمیں پر
پھول وہ جنگلی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بتایااس نے
اس کا دامن کسی اجنبی نے نہیں دیکھا
ہاں بتایااس نے
وہ اپنے گھرکے صحن میں بڑی ہوئی ہے
گھرسے کالج کے سفرمیں
بازارسے خالہ تک کے گھرمیں
وہ حصارمیں بڑی ہوئی ہے
باپ کی نگاہیں، ماں کی نگاہیں، بھائی کی نگاہیں
وہ نگاہوں ہی نگاہوں میں بڑی ہوئی ہے
ہاں بتایااس نے
اس کی روایات ۔ ۔ اس کاسرمایہ ہیں
وہ مرتوسکتی ہے
حدودکو پارکرنہیں سکتی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھاری کا بھی عجیب مسئلہ ہے
لکھاری کواحساس ہے جذبوں کا
مگر وہ درد کہاں سے لائے
جو روح کو بھی چیردیتاہے
لکھاری عشق کرنہیں سکتا
اس کاعشق تواس کے لفظ ہیں
لکھاری تولفظوں کاپجاری ہے
لفظ اصل، لفظ دھرم
لفظ خدا، لفظ کرم
یہ لفظوں کی بساط ہی تو ہے
لپٹ گئی توکیابچے گا
چلومان لیا! عشق نہیں تورواج ہی سہی
لفظوں کی بساط پر
ایک حسن کی بازی کھیل لیتے ہیں
کیاجاتاہے ۔ ۔ روایت تو نبھانی ہے
عشق نہ سہی
عشق سے شین ادھارلے کر
ایک شادی کا بندھن ہی باندھ لیتے ہیں
مگر کہاں ٹوبےکی وہ گلیاں
جس کو خود اس پری نے نہیں دیکھا
لکھاری کیاکرے گا
کوئی شہنشاہ تو ہے نہیں کہ
لکھاری لشکر کشی کرے گا
حسن کاکوہ ِطور۔۔وہ دل نشیں
اس کالہجہ شرمگیں شرمگیں
ایک لکھاری کو دل دے بیٹھی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس کی دنیااس کی چاردیواری
فضاؤں میں اڑنے لگی
جس کو وہ جانتی تک نہ تھی
اس کو اپناسب کچھ ماننے لگی
لفظ معتبر۔۔کلام بے مثال
بس یہی خوبی اس کو لے ڈوبی
اورلکھاری جانتاتک نہ تھا
یہ دل لگی تھی کہ دل کی لگی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے شہرکابس نام سناتھا
وہ گاؤں کی الہڑمٹیارن
وہ ندی کی دوست ۔۔وہ بنجارن
اس کاعشق ۔۔اس کااعتبار
اس کی وفا۔۔اس کاپیار
سب محترم ۔ ۔
مگرلکھاری عشق کہاں سے لائے
ٹوبہ کاپھول
کراچی میں کیسے لگائے
عشق کوئی کھیل نہیں
عشق فون کامیل نہیں
یہ ملاپ ہے روحوں کا
کِھل نہیں سکتا
سنگ مرمرکی زمیں پر
پھول وہ جنگلی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بتایااس نے
اس کا دامن کسی اجنبی نے نہیں دیکھا
ہاں بتایااس نے
وہ اپنے گھرکے صحن میں بڑی ہوئی ہے
گھرسے کالج کے سفرمیں
بازارسے خالہ تک کے گھرمیں
وہ حصارمیں بڑی ہوئی ہے
باپ کی نگاہیں، ماں کی نگاہیں، بھائی کی نگاہیں
وہ نگاہوں ہی نگاہوں میں بڑی ہوئی ہے
ہاں بتایااس نے
اس کی روایات ۔ ۔ اس کاسرمایہ ہیں
وہ مرتوسکتی ہے
حدودکو پارکرنہیں سکتی
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی وہ دیہاتی لڑکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھاری کا بھی عجیب مسئلہ ہے
لکھاری کواحساس ہے جذبوں کا
مگر وہ درد کہاں سے لائے
جو روح کو بھی چیردیتاہے
لکھاری عشق کرنہیں سکتا
اس کاعشق تواس کے لفظ ہیں
لکھاری تولفظوں کاپجاری ہے
لفظ اصل، لفظ دھرم
لفظ خدا، لفظ کرم
یہ لفظوں کی بساط ہی تو ہے
لپٹ گئی توکیابچے گا
چلومان لیا! عشق نہیں تورواج ہی سہی
لفظوں کی بساط پر
ایک حسن کی بازی کھیل لیتے ہیں
کیاجاتاہے ۔ ۔ روایت تو نبھانی ہے
عشق نہ سہی
عشق سے شین ادھارلے کر
ایک شادی کا بندھن ہی باندھ لیتے ہیں
مگر کہاں ٹوبےکی وہ گلیاں
جس کو خود اس پری نے نہیں دیکھا
لکھاری کیاکرے گا
کوئی شہنشاہ تو ہے نہیں کہ
لکھاری لشکر کشی کرے گا