خرم! انتہائی معذرت۔ مجھے سمجھ نہیں آئی۔
ویسے تو شاعر سے شاعری کی تشریح کرانا یا مفہوم سمجھانے کے لیے کہنا خلافِ شعر و ادب لگتا ہے لیکن کیا کریں کہ سلطنت ادراک و حکمت کو دور سے بھی نہیں دیکھا۔
اپنی نظم کی توضیح تو واقعتاً اسے خراب کردینے کے مترادف ہے؛ میں کچھ کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
ہم لوگوں سے اور لوگ ہم سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔جن لوگوں سے ہم متاثر ہوتے ہیں، بعض انھیں مائل کرنے اور منانے کےلیے بابا بلھے شاہ کی طرح سر پر چپلیں رکھ کر رقص تک کرتے ہیں اور اگر یہ ساری تپسیا بارآور ہو تو کچھ یوں ہوتا ہے:
تجھے کس بات کا غم ہے وہ اتنا پوچھ لیں مجھ سے
وہ اتنا پوچھ لیں مجھ سے تو پھر کس بات کا غم ہے
جو ایسے سمے میں وارفتگی و شوق کی انتہا پر صحرا کی جانب دوڑ لگانا، عین ممکن ہوتا ہے۔
یہ نظم کا ایک پہلو ہے۔ایک اور پہلو آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے سنیے
اس نظم میں شاعر اپنے اندر کی بے چینی اور اداسی کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ بتا رہا ہے کہ جب وہ علم کی سلطنت میں پہنچا تو اسے وہاں ایک اجنبی نظر آیا۔ اجنبی نے اسے دیکھ کر بڑے اشتیاق سے تاکا۔ یہ دیکھ کر شاعر کے دل میں فکر اور کرب پیدا ہو گیا۔ فکر نے چائے کی کیتلی میں جا کر چھپ لی اور کرب نے پیالی میں اُنڈل گیا۔ پیالی میں سے کرب نے دل کی جانب سفر کیا اور ہر انگ میں انگارے بھر دیے۔
ایک شام اجنبی اپنی پیالی لیے شاعر کی پیالی کے قریب آ بیٹھا اور پوچھا کہ "اداس کیوں ہو؟ غم کس بات کا ہے؟"۔ شاعر نے جواب دیا کہ "میں اپنے اندر کی بے چینی اور اداسی کی وجہ سے اداس ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا کروں۔"
شاعر اس نظم میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی انسان اندر سے بے چین اور اداس رہ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا دل ایک وسیع سمندر ہے جسے علم اور حکمت سے نہیں بھرا جا سکتا۔ انسان کو اپنے دل کی بے چینی کو دور کرنے کے لیے کسی اور چیز کی تلاش کرنی چاہیے، جیسے کہ عشق، محبت، یا روحانیت۔
اس نظم میں شاعر نے صحرا کی طرف دوڑنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ صحرا ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان اپنی بے چینی کو دور کر سکتا ہے۔ صحرا میں انسان تنہائی میں اپنے آپ کو تلاش کر سکتا ہے۔
اس نظم کو کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک طرح سے اسے ایک تصوف والی نظم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے اندر کی بے چینی کو ایک ایسی کیفیت کے طور پر بیان کرتا ہے جو اسے علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کی روحانی تشنگی کو نہیں ختم کر پا رہا ہے۔
ایک اور طرح سے اس نظم کو ایک سماجی نظم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے دور کی بے چینی اور اداسی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی لوگ اندر سے بے چین اور اداس رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد کو نہیں پا سک رہے ہیں۔