ٹوٹتی کشتیاں !

ٹوٹتی کشتیاں !

فیلِ علم پہ سوار جوں ہی میں سلطنت ادراک و حکمت پہنچا
آخری صفوں میں کھڑا ک اجنبی
کاندھوں سے مجھے بڑے اشتیاق سے تاکتا
دل میں آن بیٹھا
فکر ۔۔۔چائے کی کیتلی میں جا چھپی
اور کرب ۔۔۔پیالی میں اُنڈل گیا
جہاں سے اس نے دل کی جانب سفر کیا اور ہر انگ میں انگارے بھر دیے
جس شام ۔۔۔اجنبی اپنی پیالی لیے ،
میری پیالی کے قریب آ بیٹھا
اور استفسار کیا ”اداس کیوں ہو ؟غم کس بات کا ہے ؟“
میں نے سر سے چپلیں اتار یں،پہنیں اور
صحرا کی جانب دوڑ لگا دی !


محمد خرم یاسین
 

جاسمن

لائبریرین
خرم! انتہائی معذرت۔ مجھے سمجھ نہیں آئی۔
ویسے تو شاعر سے شاعری کی تشریح کرانا یا مفہوم سمجھانے کے لیے کہنا خلافِ شعر و ادب لگتا ہے لیکن کیا کریں کہ سلطنت ادراک و حکمت کو دور سے بھی نہیں دیکھا۔ :)
 
خرم! انتہائی معذرت۔ مجھے سمجھ نہیں آئی۔
ویسے تو شاعر سے شاعری کی تشریح کرانا یا مفہوم سمجھانے کے لیے کہنا خلافِ شعر و ادب لگتا ہے لیکن کیا کریں کہ سلطنت ادراک و حکمت کو دور سے بھی نہیں دیکھا۔ :)
اپنی نظم کی توضیح تو واقعتاً اسے خراب کردینے کے مترادف ہے؛ میں کچھ کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
ہم لوگوں سے اور لوگ ہم سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔جن لوگوں سے ہم متاثر ہوتے ہیں، بعض انھیں مائل کرنے اور منانے کےلیے بابا بلھے شاہ کی طرح سر پر چپلیں رکھ کر رقص تک کرتے ہیں اور اگر یہ ساری تپسیا بارآور ہو تو کچھ یوں ہوتا ہے:
تجھے کس بات کا غم ہے وہ اتنا پوچھ لیں مجھ سے
وہ اتنا پوچھ لیں مجھ سے تو پھر کس بات کا غم ہے
جو ایسے سمے میں وارفتگی و شوق کی انتہا پر صحرا کی جانب دوڑ لگانا، عین ممکن ہوتا ہے۔
یہ نظم کا ایک پہلو ہے۔ایک اور پہلو آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے سنیے:)
اس نظم میں شاعر اپنے اندر کی بے چینی اور اداسی کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ بتا رہا ہے کہ جب وہ علم کی سلطنت میں پہنچا تو اسے وہاں ایک اجنبی نظر آیا۔ اجنبی نے اسے دیکھ کر بڑے اشتیاق سے تاکا۔ یہ دیکھ کر شاعر کے دل میں فکر اور کرب پیدا ہو گیا۔ فکر نے چائے کی کیتلی میں جا کر چھپ لی اور کرب نے پیالی میں اُنڈل گیا۔ پیالی میں سے کرب نے دل کی جانب سفر کیا اور ہر انگ میں انگارے بھر دیے۔

ایک شام اجنبی اپنی پیالی لیے شاعر کی پیالی کے قریب آ بیٹھا اور پوچھا کہ "اداس کیوں ہو؟ غم کس بات کا ہے؟"۔ شاعر نے جواب دیا کہ "میں اپنے اندر کی بے چینی اور اداسی کی وجہ سے اداس ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا کروں۔"


شاعر اس نظم میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی انسان اندر سے بے چین اور اداس رہ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا دل ایک وسیع سمندر ہے جسے علم اور حکمت سے نہیں بھرا جا سکتا۔ انسان کو اپنے دل کی بے چینی کو دور کرنے کے لیے کسی اور چیز کی تلاش کرنی چاہیے، جیسے کہ عشق، محبت، یا روحانیت۔

اس نظم میں شاعر نے صحرا کی طرف دوڑنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ صحرا ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان اپنی بے چینی کو دور کر سکتا ہے۔ صحرا میں انسان تنہائی میں اپنے آپ کو تلاش کر سکتا ہے۔

اس نظم کو کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک طرح سے اسے ایک تصوف والی نظم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے اندر کی بے چینی کو ایک ایسی کیفیت کے طور پر بیان کرتا ہے جو اسے علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کی روحانی تشنگی کو نہیں ختم کر پا رہا ہے۔

ایک اور طرح سے اس نظم کو ایک سماجی نظم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے دور کی بے چینی اور اداسی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی لوگ اندر سے بے چین اور اداس رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد کو نہیں پا سک رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
مجھے تو مجموعی خیال پسند آیا مگر ذیل کی لائن کی تفہیم نہ ہو پائی۔ شاید یہ میری کوتاہ فہمی ہو گی۔

کاندھوں سے مجھے بڑے اشتیاق سے تاکتا
 
مجھے تو مجموعی خیال پسند آیا مگر ذیل کی لائن کی تفہیم نہ ہو پائی۔ شاید یہ میری کوتاہ فہمی ہو گی۔

کاندھوں سے مجھے بڑے اشتیاق سے تاکتا
آپ ایک ہال میں لیکچر دے رہے ہیں ، جہاں آپ کی شہرت آپ سے پہلے موجود ہے اور سننے والوں کا جمِ غفیر! ایسے میں کوئی اجنبی ، پنجوں کے بل کھڑے ہوکر آپ کو دیکھنے اور سننے کی کوشش کرتا ہے اور وہ، اس کا سوال ، انداز سب کچھ آپ کو شدید متاثر کرتا ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
عمدہ نظم ہے۔
علم و حکمت کی سلطنت سے صحرا تک کا سفر ۔۔۔ یعنی خرد کی معراج آخرِ کار جنوں ہی ٹھہری۔
نظم کے نفسِ مضمون کے لحاظ سے عنوان اجنبی لگا۔
 
Top