جیہ
لائبریرین
تفسیر صاحب نے لکھا
جب میں نے حقیقت پر مبنی ناول “پختوں کی بیٹی“ لکھا تو صوبہ سرحد پر ریسرچ کی۔ اس دوران یہ ایک گیتMazdeegar de ka naday سننا- جسکا ایک مصرہ دماغ میں جم ساگیاہے - استانی جی کیا آپ کو پتہ ہے یہ گیت کس کا ہے؟
Yawazey laas pa laas raaka, da laas neewal ba tar tera yadwama
تفسیر
تفسير صاحب! پختون کی بیٹی تو میں نے ابھی تک نہیں پڑھا ۔ اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتی کہ کتنا حقیقت اور کتنا فسانہ ہے ۔۔ کہ ۔۔۔ بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستان کے لئے۔۔۔۔
البتہ جس گیت کا آپ نے ذکر کیا اس کے بارے میں کچھ کہوں۔۔۔
یہ ایک فولک گیت ہے جسے ہم " سندرہ" ( سن دَ رہ) کہتے ہیں۔ اس سندرہ کو مختلف گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے گایا ہے ۔ میرے پاس یہ گانا افغان گلوکار احمد ولی کی آواز میں ہے۔ اس کا مکھڑا تو وہی ہے جو آپ نے ذکر کیا ہے یعنی
" ماذديګر دے که نه دے۔
مورے زما منګے اوزګار دے که نه دے
زه سړے اوبه راؤړمه
( مازیگر دے کا نہ دے۔ مورے زما منگے اوزگار دے کہ نہ دے۔ زہ سڑے اوبہ را وڑما)
( ماں! سہ پہر کا وقت ہو گیا ہے کہ نہیں؟؟ ۔ (مٹی کا ) گھڑا فارغ ہے کہ نہیں؟؟ ۔ مجھے (چشمے یا پنگھٹ سے) ٹھنڈا پانی لانا ہے۔)
باقی لائنیں اس سندرہ میں عموماً ٹپے ہوتے ہیں۔ جو کہ پختو شاعری کا مخصوص صنف ہے۔ ٹپہ کو مِصرہ یا لنڈئ بھی کہتے ہیں۔ ٹپہ بھی ایک عوامی اور فولک صنف ہے اور اس کا شاعر بھی معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک عوامی سرمایہ ہوتا ہے۔ ٹپہ کی خالق عام طور پر عورتیں ہوتی ہیں اور زیادہ تر نسوانی جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے ٹپے میں۔ مگر یہ لازمی نہیں۔ ٹپے میں کوئی بھی موضوع آسکتا ہے ، غزل کی طرح
ٹپہ ایک ادھورا شعر ہوتا ہے ۔ پہلا مصرعہ 13 سیلاب (Syllables) کا ہوتا جبکہ دوسرے مصرعے میں 19 آوازایں یا سیلابیں ہوتی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے گلوکار ٹپہ سے پہلے اپنے طرف سے ۔" یا قربان" یا "یکہ زار" اونچی آواز میں گا کر اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔
یہ لازمی ہے کہ ٹپہ کا دوسرا مصرعہ ھ پر ختم ہو ورنہ پھر یہ ٹپہ نہیں ہوتا بلکہ کچھ بھی نہیں ہوتا
آپ نے جو ٹپہ لکھا وہ صحیح نہیں۔ اصل ٹپہ یوں ہے
یؤ ځلې لاس په لاس کښې راکه
د لاس نيول به دې تر عمره ياده وومه
یو زلے لاس پا لاس کے را کا
دَ لاس نیوَل با دے تر عُمرہ یادا وو ما
یہ ٹپہ مجھے بھی بہت پسند ہے اپنے سادہ الفاظ اور بے ساختگی کی وجہ سے۔ مفہوم اس کا یوں ہے
اپنا ہاتھ ایک بار تو میرے ہاتھ میں دے دو۔
یوں پکڑنا تیرے ہاتھ کا زندگی بھر یاد رکھوں گی
جب میں نے حقیقت پر مبنی ناول “پختوں کی بیٹی“ لکھا تو صوبہ سرحد پر ریسرچ کی۔ اس دوران یہ ایک گیتMazdeegar de ka naday سننا- جسکا ایک مصرہ دماغ میں جم ساگیاہے - استانی جی کیا آپ کو پتہ ہے یہ گیت کس کا ہے؟
Yawazey laas pa laas raaka, da laas neewal ba tar tera yadwama
تفسیر
تفسير صاحب! پختون کی بیٹی تو میں نے ابھی تک نہیں پڑھا ۔ اس پر میں کچھ نہیں کہہ سکتی کہ کتنا حقیقت اور کتنا فسانہ ہے ۔۔ کہ ۔۔۔ بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستان کے لئے۔۔۔۔
البتہ جس گیت کا آپ نے ذکر کیا اس کے بارے میں کچھ کہوں۔۔۔
یہ ایک فولک گیت ہے جسے ہم " سندرہ" ( سن دَ رہ) کہتے ہیں۔ اس سندرہ کو مختلف گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے گایا ہے ۔ میرے پاس یہ گانا افغان گلوکار احمد ولی کی آواز میں ہے۔ اس کا مکھڑا تو وہی ہے جو آپ نے ذکر کیا ہے یعنی
" ماذديګر دے که نه دے۔
مورے زما منګے اوزګار دے که نه دے
زه سړے اوبه راؤړمه
( مازیگر دے کا نہ دے۔ مورے زما منگے اوزگار دے کہ نہ دے۔ زہ سڑے اوبہ را وڑما)
( ماں! سہ پہر کا وقت ہو گیا ہے کہ نہیں؟؟ ۔ (مٹی کا ) گھڑا فارغ ہے کہ نہیں؟؟ ۔ مجھے (چشمے یا پنگھٹ سے) ٹھنڈا پانی لانا ہے۔)
باقی لائنیں اس سندرہ میں عموماً ٹپے ہوتے ہیں۔ جو کہ پختو شاعری کا مخصوص صنف ہے۔ ٹپہ کو مِصرہ یا لنڈئ بھی کہتے ہیں۔ ٹپہ بھی ایک عوامی اور فولک صنف ہے اور اس کا شاعر بھی معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک عوامی سرمایہ ہوتا ہے۔ ٹپہ کی خالق عام طور پر عورتیں ہوتی ہیں اور زیادہ تر نسوانی جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے ٹپے میں۔ مگر یہ لازمی نہیں۔ ٹپے میں کوئی بھی موضوع آسکتا ہے ، غزل کی طرح
ٹپہ ایک ادھورا شعر ہوتا ہے ۔ پہلا مصرعہ 13 سیلاب (Syllables) کا ہوتا جبکہ دوسرے مصرعے میں 19 آوازایں یا سیلابیں ہوتی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے گلوکار ٹپہ سے پہلے اپنے طرف سے ۔" یا قربان" یا "یکہ زار" اونچی آواز میں گا کر اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔
یہ لازمی ہے کہ ٹپہ کا دوسرا مصرعہ ھ پر ختم ہو ورنہ پھر یہ ٹپہ نہیں ہوتا بلکہ کچھ بھی نہیں ہوتا
آپ نے جو ٹپہ لکھا وہ صحیح نہیں۔ اصل ٹپہ یوں ہے
یؤ ځلې لاس په لاس کښې راکه
د لاس نيول به دې تر عمره ياده وومه
یو زلے لاس پا لاس کے را کا
دَ لاس نیوَل با دے تر عُمرہ یادا وو ما
یہ ٹپہ مجھے بھی بہت پسند ہے اپنے سادہ الفاظ اور بے ساختگی کی وجہ سے۔ مفہوم اس کا یوں ہے
اپنا ہاتھ ایک بار تو میرے ہاتھ میں دے دو۔
یوں پکڑنا تیرے ہاتھ کا زندگی بھر یاد رکھوں گی