ٹھنڈا سورج (ہائیکو/ماہیا) - از خاور چودھری

خاورچودھری

محفلین
فہرست

ہائیکو نگاری کے تسلسل میں "ٹھنڈا سورج "

محسن بھوپالی

ٹھنڈا سورج پر ایک نظر

پروفیسر ہارون الرشید

ٹھنڈا سورج ، خنک تمازتیں

پروفیسر محمد اعظم خالد


ہائیکو

ماہیے
 

خاورچودھری

محفلین
ہائیکونگاری کے تسلسل میں“ٹھنڈاسورج“

محسن بھوپالی


اردوادب کے شعری ادب میں بیشتراصناف سخن مشرق وسطیٰ اورمغرب سے ہی آئی ہیں لیکن ان کے مقبول اورمعتبرہونے میں طویل عرصہ لگا جب کہ جاپان سے درآمدہونے والی صنف سخن ہائیکونے بیس پچیس برس کی قلیل مدت میں برصغیرپاک وہندمیں جوحیرت انگیزمقبولیت حاصل کی ہے وہ اردو اور اہل اردوکے لئے باعث فخرہے۔
گزشتہ تقریباًدو دہائیوں میں صرف ہائیکوپرمشتمل درجنوں شعری مجموعے منظرعام پرآچکے ہیں ۔
متعدد ادبی رسائل میں ہائیکوسے متعلق مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے اہم شہروں کراچی‘اسلام آباداورکوئٹہ وغیرہ میں ہائیکو مشاعرے بھی منعقدہوتے رہتے ہیں۔خصوصاًکراچی میں جاپان قونصل خانہ کے تحت1982ء سے سالانہ بنیادپرتسلسل کے ساتھ ہائیکومشاعرے کا انعقاد کیاجارہاہے جس میں اردوکے سینئرشعراکے علاوہ نئے شعراء بھی کافی تعدادمیں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔آج یہ بات نہایت تیقّن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہائیکواب اردو ادب کے قارئین کے لئے نہ صرف اجنبی صنف سخن نہیں رہی ہے بلکہ اصناف شعری میں گراں بہااضافے کی حیثیت اختیارکرچکی ہے۔
جس طرح شاعری کی دیگراصناف غزل‘قطعہ‘رباعی کے علاوہ مغرب سے آنے و الی اصناف ‘ آزادنظم‘نظم معریٰ‘سانیٹ اورترائیلے تک اپنی مخصوص ہیئت کی وجہ سے اپنی جداگانہ شناخت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ہائیکوبھی بشمول دیگرفنّی پابندی کے اپنی مخصوص ہئیت(FORM)کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ہائیکوکاپہلااورتیسرامصرع مساوی الاوزان جب کہ دوسرے مصرعے میں ایک رکن زائد ہوتا ہے ۔اساتذہ فن اوربیشترنقادوں نے مندرجہ ذیل ارکان کوہائیکوکے اصل وزن کے انتہائی قریب ہونے کے باعث صحیح وزن قراردیاہے جسے ارکان ‘اعداد اوراردومصرعوں کی وضاحت کے ساتھ دیا جا رہاہے :۔

فع لن۔فع لن۔فع = 5
آ وا ۔ رہ پت۔تے
فع لن۔فع لن۔فع لن۔فع = 7
تم نف۔رت سے۔مت دے۔کھو
فع لن۔فع لن۔فع
کل یہ۔کونپل۔تھے = 5

برصغیرپاک وہندکے تقریباً سبھی شعراء اس وزن کی پابندی کے ساتھ ہائیکولکھ رہے ہیں۔یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ اس پابندی کوپہلے پہل جاپان قونصل خانہ کراچی کے سالانہ مشاعرے منعقدہ1983ء میں ہدایت کی بموجب ملحوظ رکھاگیاتھا۔اس مشاعرے میں راقم نے جوہائیکوپیش کئے تھے ان میں سے دوہائیکویہاں دینابے محل نہ ہوگا:۔

بازآؤں گاجا
مجھ کوتوپھرسمجھانا
اس سے مل کرآ

بارش کا یہ ساز
رہ رہ کر یاد آتی ہے
گھنگرو کی آواز

بعض نقادوں نے پروفیسرمحمدامین کوان کے ہائیکومجموعے مطبوعہ 1981ء (طبع اول)1982 ء (طبع دوم)کی بنیادپرانہیں پاکستان کا پہلا ہائیکو نگار قرار دیا ہے جب کہ ان کے ہائیکوکے تینوں مصرعے مساوی الاوزان ہیں اس لئے یہ ہائیکوکی بنیادی شرط یعنی ہیئت کی پابندی پرپورے نہیں اترتے چنانچہ انہیں مختصرنظمیں ہی شمارکیاجاناچاہئے۔اس واضح فرق کے بارے میں مصنف نے اپنے ہائیکو کے دیباچے میں خودتحریرکیاہے:۔
“اردوہائیکواوربالخصوص میرے ہائیکوجاپانی ہائیکوسے مختلف ہیں۔۔۔ میں نے چونکہ جاپانی ہائیکوسے متاثرہوکرہائیکولکھنے شروع کئے اورجاپانی ہائیکوکی خصوصیات کوملحوظ رکھاہے اس لئے میں اسے ہائیکو کا نام دیناہی مناسب سمجھتاہوں۔“
مساوی الاوازان مصرعوں پرمشتمل مختصرنظمیں قیام پاکستان سے قبل بھی لکھی جارہی تھیں۔ مخمورجالندھری کی مختصرنظمیں کامجموعہ جواسی نام سے کتابی صورت میں 1946ء میں شائع ہواتھا۔ مذکورہ مجموعے سے تین نظمیں دی جارہی ہیں تاکہ میرے مؤقف کی تائیدہوسکے:۔

توکیاجانے تیرے سرپر
وقت کاچرخاگھوں گھوں کرتا
کات رہاہے بال سفید

اک اورناؤکنارے پہ بھرکے ڈوب گئی
امیدتھی کہ سمندرکی موج کف آلود
اٹھی‘بلندہوئی اورپھرسے ڈوب گئی

گذراتھاابھی کون سڑک سے کہ ابھی تک
ہاتھوں میں ہے بنئے کے اسی طرح ترازو
درزی کی سوئی پہلے جہاں تھی ہے وہیں پر

ہائیکوکی ہئیت کے سلسلے میں بات یقیناخاصی تفصیل میں چلی گئی ہے لیکن یہ بنیادی مسئلہ تھا جس کی وضاحت مثالوں کے ساتھ ضروری تھی۔
پانچ سات پانچ کی پابندی کے ساتھ سینئرشعراء کے علاوہ جن نئے شعراء اورشاعرات نے کامیاب ہائیکولکھے ہیں ان میں مہتاب الدین مہتاب‘لیاقت علی عاصم‘آفتاب مضطر‘ شبہ طراز‘ثروت سلطانہ ثروت‘ اور رونق حیات کے نام قابل ذکرہیں۔مہتاب اورعاصم کے علاوہ بقیہ شعراء کے ہائیکوکے مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔پچھلے چندبرسوں میں ہائیکو نگاروں کی اس کہکشاں میں خاور چودھری کے نام کاخوشگواراضافہ ہواہے۔ انہوں نے مساوی الاوزان ہائیکوبھی لکھے ہیں اورہیئت کی پابندی کے ساتھ بھی لیکن میرے نزدیک ہیئت کی پابندی کے ساتھ لکھے گئے ہائیکوہی ان کی پہچان ہیں جب کہ انہوں نے ماہئیے میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
ادبی مراکزسے دورہونے کے باعث انہیں ہائیکونگاروں میں کم ہی شمارکیا گیا ہے اوران کے کلام کی خاطرخواہ اشاعت بھی نہیں ہوسکی ہے جب کہ انہوں نے نہ صرف ہیئت کی پابندی کوملحوظ رکھتے ہوئے کامیاب ہائیکو لکھے ہیں بلکہ ہائیکوکے مزاج اورمضامین کونہایت خوبصورتی سے برتا ہے ۔ جاپانی ہائیکومیں قوافی کااہتمام نہیں کیا جاتالیکن اردوکے کئی شعراء قوافی کی پابندی کے ساتھ بھی کہہ رہے ہیں اورپابندی کے بغیربھی۔خاورکے بیشتر ہائیکوکے پہلے اورتیسرے مصرعے ہم قافیہ نہیں ہیں۔خاورنے مساوی الاوزان مصرعوں پرمشتمل ہائیکوبھی لکھے ہیں لیکن اصل وزن میں ہی لکھے گئے ہائیکوان کی پہچان ہیں۔مثلاً

قریہ قریہ دھوپ
میٹھے جھرنوں کاپانی
قصّے بُنتاہے!


کالے موسم میں
وعدوں کی زنجیر کٹے
مشکل ہو آسان

رفتہ فرداکیا
حال میں رہناسیکھ لیا
ہم دیوانوں نے

صحرا صحرا یاد
میری آنکھوں میں اُتری
اشکوں کی بارات

جاپانی ہائیکومیں موضوعات اورمضامین کے لحاظ سے موسم‘حشرات الارض ‘اور مظاہرفطرت کوکلیدی حیثیت حاصل ہے۔خاور# نے بھی اپنے انداز میں انہیں نہایت خوبی کے ساتھ اپنے ہائیکوکا موضوع بنایاہے۔

جھینگر‘جگنو‘رات
جذبوں کی سرگوشی سن
دیپک راگ نہ چھیڑ

زخمی زخمی خواب
بادل ، برکھا ، ساون رُت
تنہائی کی آگ


کُہرے کی چادر
پربت غم کے ٹوٹ پڑے
شعلے اُٹھتے ہیں!

خود سے ڈر جاؤں
چاند کی روشن راتوں میں
سایہ ساتھ چلے

خاورکے بعض ہائیکوجاپانی صنف سخن“سِن ریو“پرپورے اترتے ہیں:۔

سگرٹ‘بیڑی‘پان
اب توایساکچھ بھی نہیں
شاعرکی پہچان!

راز چھپائے کون
دوست سپولے بن بیٹھے
ہاتھ ملائے کون

خاورنے اس صنف کوغالباًشعری ذائقہ بدلنے کے لئے استعمال کیاہے لیکن ان کااصل میدان ہائیکوہے اور“ٹھنڈاسورج“ہائیکوکاایک اہم مجموعہ ہے میں اسے ہائیکوکی سبدِ گل میں ایک تازہ پھول کااضافہ سمجھتاہوں جواہل نقدونظرکی توجہّ بھی حاصل کرے گااورقارئین کی دادوتحسین کامستحق ہی نہیں حق داربھی ٹھہرے گا۔

(محسن بھوپالی28فروری2004ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ٹھنڈاسورج پرایک نظر

پروفیسرہارون الرشید

پچھلی تقریباًدودہائیوں سے ہائیکونے اردوشاعری میں بڑی آہستگی سے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں‘یہ اگرچہ بدیسی صنف ہے مگر اس کابنیادی ڈھانچہ ہمارے ماہیے سے مماثلت رکھتاہے جس کی وجہ سے یہ صنف اپنی ہی لگتی ہے۔
ہائیکوکے کینوس پرفطرت اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خاور چودھری کے ہائیکوزبھی انہی خوب صورتیوں سے مملوہیں‘انہوں نے زمین سے آسمان تک قدرت کے بیشتر رنگوں کونہایت مہارت سے پینٹ کیاہے اورفطری ماحول کے اندرڈوب کرنہایت اُجلے اورنازک الفاظ کے دھاگوں سے ہائیکوزکی لڑیاں پروئی ہیں۔ان کے ہائیکوزپڑھتے ہوئے ایسا لگتاہے جیسے قاری ایک Improvisation سے گذر رہا ہو۔مصرعوں کی بُنت‘الفاظ کی نشست وبرخاست اور خیال کی Dimensionسے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ انہیں اپنی بات کہنے پرکتناکنٹرول حاصل ہے۔خاورچودھری ایک ذہین لکھاری ہیں‘لکھنے کاعمل ان کے خون میں تیرتاہے۔ وہ لفظ کی اہمیت سے آگاہ ہیں‘اوریہی احتیاط ان کے ہائیکوزکا بنیادی وصف ہے۔
”ٹھنڈاسورج“میں انہوں نے جوتجربات کئے ہیں‘ وہ ان کے گہرے مطالعے‘کڑے مشاہدے اوروسیع سوچ کے حامل ہیں‘ان کے ہاں جدّت بھی ہے اورفطرت کی سچائی کی کھلی عکاسی بھی۔مجھے یقین ہے ان کے ہائیکوزکوشعری حلقوں میں بڑی پذیرائی ملے گی کیوں کہ انہوں نے بہت محنت کی ہے اور محنت ہمیشہ رنگ لاتی ہے۔
ماہیاہماری شاعری کی ایک نہایت حسین اور دلآویز صنف ہے۔لوک کہانیوں کی طرح ماہیابھی ہماری روایت میں رچا بساہے۔شہروں سے کہیں زیادہ ماہیا مضافات میں مقبول ہے‘خاورچودھری بھی مضافات سے تعلق رکھتے ہیں‘اور وہ جہاں کے باسی ہیں‘وہاں پرلوک ورثہ کی روایت بڑی مضبوط رہی ہے‘ ان کے ہاں رومانیت‘ حزن وملال اوردیہات کی ٹھنڈی اور نرم مٹی کی پرچھائیوں کے کلرایک عجیب بہار دیتے ہیں‘انہوں نے ہجرکے کرب اورآنسوؤں کی نمی کواپنے ماہیوں کاحصہ بنادیا ہے‘ اردوماہیامسلسل ارتقاکی طرف گامزن ہے‘خاورچودھری ماہیے کی رُوح میں بیٹھ کر لکھتے ہیں‘ان کے اکثرماہیوں کی Winsomenessدیکھنے کے لائق ہے۔
محبت ان کابنیادی استعارہ ہے‘انہوں نے اس کا استعمال نہایت مہارت اورقرینے سے کیاہے یوں لگتاہے جیسے انہوں نے اپنے خیالات کوایک داستان میں ڈھال دیاہو جس سے ان کے ماہیے پڑھتے ہوئے ایک گہراکیف ملتاہے۔
خاورچودھری کاشعری مستقبل یقیناتابناک ہے ان کی ماہیے کے ساتھ وارفتگی اور Commit mentان کے آئندہ کاپتہ دیتی ہے‘اللہ کرے مرحلہء شوق نہ ہوطے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"ٹھنڈاسورج"خنک تمازتیں
پروفیسرمحمداعظم خالد
وہ لوگ فی الواقع عظیم ہوتے ہیں جوکسی دیارغیرسے آنے والے مسافر کو پذیرائی بخشتے ہیں‘اسے سینے سے لگاتے ہیں۔ذاتی غرض وغائت سے ماوراء ہوکرفرض مشاطگی نباہتے ہیں۔خاوربھی ایک ایساہی باغباں ہے جس نے جاپانی ادب سے وطن عزیز میں قدم رنجہ فرمانے والی صنف شعر ہائیکو کو کھلی بانہوں خوش آمدیدکہا۔ اور اردو کے موئے قلم سے اس کی نوک پلک سنوارنے اورخال وخط اجالنے کابیڑااٹھایا۔ بلاشبہ چند صاحبان فن اس کار خیر میں پہلے سے مصروف عمل تھے اورخاور بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے۔مگرخاورکااعزازیہ ہے کہ انہوں نے خالصتاًطبع زادہائیکوکی ترویج کواپنا شعار بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ خامی سے خوبی اوربرائی سے اچھائی کاپہلونکالنا صنّاع کائنات کی قدرت کاملہ کااٹل ثبوت ہے۔اوریہ خیال بھی واثق ہے کہ Ignorence is Blessingایک آفاقی سچائی ہے ۔ سوخاورکاجاپانی زبان سے ناآشناہونابھی اس لحاظ سے ایک نعمت ثابت ہواکہ انہوں نے جوبھی لکھاصرف اور صرف طبع زاد ہے۔اورترجمے کے الزام سے مبرّا ہے۔
یہ ایک طرفہ تضادہے کہ جب بھی ہائیکوکاذکرآتاہے پنجابی ماہیے کاحوالہ بیچ میں آجاتاہے۔حالانکہ ہردواصناف میں نہ صرف بہت بعدہے بلکہ اپنی بنیادکے لحاظ سے دونوں اصناف یکسرایک دوسرے کے متضادہیں۔پنجابی ماہیا(اوراب تو اردو ماہیا بھی ادب میں درآیاہے)قدیم اروغزل کی طرح ذاتی جذبات اوردلی کیفیات کا مظہرہے۔یہ صنف دل کے ڈونگھے سمندروں میں اٹھنے والے ابال کااظہارہے۔جبکہ ہائیکو اپناتمام ترموادخارج سے وصولتی ہے۔ جب فطرت کادست لطیف دردل پر دستک دیتاہے توماہیا وجود میں آتا ہے۔مگرجب فطرت کی صنّاعی خارجی عوامل کے ذریعے آنکھ کے راستے روح میں گھر کرتی ہے توہائیکوتخلیق ہوتی ہے۔اورخاورکے ہائیکو قدرت کے خارجی مظاہرکے حوالے سے کیفیات قلبی کے اظہار کابہترین مرقع ہیں‘کتاب کاعنوان’‘ٹھنڈا سورج’‘اس لحاظ سے اسم بامسمّیٰ ہے کہ ایک توصاحب کتاب کانام خاور #ہے دوسرے جاپان کوچڑھتے سورج کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ کتاب میں جابجا سورج‘ سیمگوں گلاب‘دردکی ردا‘شبنمی اجالے ‘ پربتوں کے ریشے‘ کوہکن کے تیشے ‘حسن کی کرنیں‘ آنسو بونا‘ دھوپ کی چادر‘برف کابستر‘جیون امرت اورایسی بے شمار تراکیب ان ہائیکوزمیں اردوفارسی کارنگ تغزّل بھرکرقاری کے ذوق لطیف کوطمانیت بخشتی ہیں۔البتہ غزل کی ایک اورروایت یعنی شورقلقل مینااورپیمانہ و شیشہ کی کھنک سے یکسراغماض برتا گیا ہے۔دوسری طرف تین مصرعوں میں ایک مکمل پیغام قاری کے ذہن میں غیرشعوری طورگھرکرجاتاہے۔اورایک شاعریاکسی بھی فنکار کا سب سے بڑااعزازہی یہ ہے کہ وہ اپناپیغام غیرمحسوس طریقے سے سامع کے گوش گذارکردے۔
جو ن ایلیانے ایک جگہ لکھاتھا:

نظرپہ باربن جاتے ہیں منظر
جہاں رہیووہاں اکثرنہ رہیو

اس خیال کوخاورنے ہائیکوکے لباس میں یوں پینٹ کیاہے۔

زندہ آنکھیں تو
منظرروزہراچاہیں
ڈھونڈنیااک میت

شاعرجاپانی صنف ادب سے متاثرضرورہے مگرمغلوب نہیں۔ جابجااپنی مٹی سے محبت اوراپنی مٹی سے موادکشیدناشاعر کی کمٹ منٹ کابین ثبوت ہے۔مثلاً

منظر‘منظردھول
اجلے چہرے ‘کالے لوگ
مشکل ہے پہچان

جیناجیسے موت
جلتی ریت میں زندہ ہے
بھٹیارن کادکھ

کاگا‘یاد‘منڈیر
دل تاریک کنوئیں جیسا
آنکھیں بول پڑیں

ایسی بہت سی اصطلاحات اورتراکیب اپنی مٹی سے محبت اوراپنی ثقافت سے لگاؤ کا مظہر ہیں جن کاوجودکسی دوسری سوسائٹی میں مفقودہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں اردوماہیے ہیں‘جن میں فکری عنصرغالب ہے۔جوشاعرکی فکری بالیدگی کاغمّاز تو ہے۔مگراصل ماہیے کاکھراپن توا سکے کچے پن مستور ہوتا ہے ۔ یہ توان لوگوں کے دلوں کی دھڑکن کی صداہوتی ہے جوشہری دانش سے کوسوں دوراوربے سکولے ہوتے ہیں۔
 

خاورچودھری

محفلین
ہائیکو




بانجھ بدلیوں نے پھر
گھول کرپیاسُورج
سانس ہوگئی ٹھنڈی


تیرگی کی بارش میں
جل مرے زمانوں کی
داستاں سنائے چاند


ہاتھ کی لکیروں میں
تجھ کوڈھونڈتے رہنا
مشغلہ ہماراہے



سیمگوں گلابوں کو
زردرُوہواؤں نے
خاک میں ملایاہے


شہرخواب اُجڑاتو
ماندپڑگئی جیسے
روشنی ستاروں کی


خوشبوؤں کے موسم میں
دردکی ردااوڑھے
چل رہاہوں کانٹوں پر



ہونی ہوکے رہتی ہے
فرق کچھ نہیں پڑتا
آنسوؤں کے بونے سے


بُھولنابھلالیکن
کیسے پائیں چھٹکارا
خواہشوں کے چنگل سے


وقت توگذرتاہے
چھوڑووصل کی باتیں
خودسے کیوں اُلجھتے ہو



کچھ سیانے کہتے ہیں
دل میں میل آتاہے
ربط جب بڑھے حدسے


سردیوں کاموسم ہے
کاٹتی ہے تنہائی
پھروہ یادآیاہے


جب شکوک بڑھ جائیں
اعتمادکی چڑیاں
پرسمیٹ لیتی ہیں



میرامٹنامشکل ہے
میں مثال قُقنُس ہوں
اپنی راکھ میں زندہ


اک درخت آسیبی
دشت دل میں اُگتاہے
پیارنام ہے اس کا


ایک مہرباں سُورج
اپنی آگ جلتاہے
روشنی اُگاتاہے



اہتمام کرلینا
سُورجوں کی بستی میں
رات نے اُترناہے


خواہشوں کاخوں دوڑے
پربتوں کے ریشوں میں
کوہکنوں کے تیشوں میں


رکھ دیااندھیروں میں
شبنمی اُجالوں کو
تیرے سب حوالوں کو



کوئی خواب‘نہ عکس کوئی ہے
"جن میں پیارکاشہربساتھا
وہ آنکھیں ویران ہوئی ہیں"


خُوب سنبھالواشکوں کوتم
اب توہلکی آنچ ہے پیارے
تب پھرشعلے بھی اُٹھیں گے


ہجرکاموسم پھیل گیاہے
اورزخموں پہ کھرنڈآئے ہیں
یادکے ناخن بڑھتے جائیں



بُھوک طواف کرے جتنابھی
دست سوال درازنہ کیجے
اپناتومنشوریہی ہے


نومیدی کی چادرپھینکو
حُسن کی کرنیں جاگ اٹھی ہیں
گُھوراندھیردریچوں میں


جتنی دُورچلوں میں پیارے
عمرکارستہ بڑھتاجائے
امرت دھاراکیسے پاؤں



آگ پہاڑوں پرجلتی ہے
سُوکھ گئیں خواہش کی ندیاں
راکھ ہوئے وعدوں کے تارے


دل گھرپھونک تماشامانگے
اورغم توخودروپوداہے
ٹھہرو!ٹھہرومت سلگاؤ


تیرے نام نکھرتے موسم
اپنی توتقدیرہوئے ہیں
دُھوپ کی چادر‘برف کابستر



اچھے ساتھی‘چاند‘ستارے
ان پرواروں کھلتے موسم
اپناآپ نچھاورکردوں


کھلتے موسم‘جیون امرت
چاند‘ستارے‘روشن صبحیں
اورسکھ کی چھایاتیرے نام


پتھروں پرلکیرہیں ہم لوگ
دوسرارُخ کبھی نہیں دیکھا
چاہتوں کے سفیرہیں ہم لوگ



سنگ کے دل میں آب
لمس کہے سرگوشی میں
دھڑکن دھڑکن غم


پھول ہوئے سب راکھ
سچ کاکڑوازہرپیا
زخمی میرے ہونٹ


جب تم یادآئے
گونگے خواب ہی کاشت کئے
بنجرآنکھوں میں



تجھ کودیکھاتھا
کلیاں ساری پھول ہوئیں
کتناوقت ہوا


بارش کاموسم
پیڑوں کے ان سایوں میں
آنکھیں رہتی ہیں


پرواکے دل پر
تیرے غم کے قصے ہی
لکھتارہتاہوں



کاگا‘یاد‘منڈیر
دل تاریک کنوئیں جیسا
آنکھیں بول پڑیں


زخمی زخمی خواب
بادل‘برکھا‘ساون رت
تنہائی کی آگ


امبرامبریاد
چاندستاروں میں تنہا
یادکاگہرادُکھ



زندہ آنکھیں تو
منظرروزہراچاہیں
ڈھونڈنیااک میت


کون کہے گاروز
کانچ کی چوڑی ٹوٹ گئی
کرچی کرچی سانس


کالے موسم میں
وعدوں کی زنجیرکٹے
مشکل ہوآسان



کُہرے کی چادر
پربت غم کے ٹُوٹ پڑے
شعلے اُٹھتے ہیں


اندھوں کاہے راج
تاریکی ہمرازہوئی
جُگنوجیسے ناگ


کھولوکچھ اسرار
رات کی بنجرچھاتی میں
میری نینداُگے



منظرمنظردُھول
اُجلے چہرے‘کالے لوگ
مشکل ہے پہچان


جیناجیسے موت
جلتی ریت میں زندہ ہے
بھٹیارن کادُکھ


عشق مسلسل کام
لہریں گنتارہتاہوں
کہنے کوبے کار



ٹھٹھرے جلتے جسم
جیسے برفیلاسُورج
پہلی رات کاراز


پریاں ہیں نردوش
یُگ پہلے اک نام جپا
کھوئے اپنے ہوش


تیرامیرامیل
چُھولے نرم ہواکے پاؤں
جیسے جلتی آگ



ہونٹ ترے شہتوت
میں صدیوں کاپیاساہوں
دیکھ!نہ کرانکار


صدیوں پھیلی پیاس
لمس کی خوشبوپینے دے
خالی میراجام


کون جیے سوسال
پھینک چکاخواہش کی سیپ
کالے دریامیں



آگ اُگلتی سوچ
میری روح لٹکتی ہے
خوف کے زینے پر


بن مہتاب کی رات
خواہش رکھ کربھول گیا
روتی آنکھوں میں


جل تھل جل تھل آنکھ
اوس میں لپٹی تتلی اور
تیرابھیگاجسم



لہجہ جیسے نیم
تیرے عشق میں ہوناہے
سرافرازندیم


من میں پُھول کھلا
خوشبوآخرقیدہوئی
میری سانسوں میں


تم کوسوچاتھا
اوردل جلنے کی آواز
شہرمیں پھیل گئی



صحراصحرایاد
میری آنکھوں میں اُتری
اشکوں کی بارات


رات دسمبرکی
آنکھوں میں تصویرہوئے
پہلے پہل کے دُکھ


شورزدہ ہیں ہونٹ
بوسے اُگنابھول گئے
پیارزمینوں میں



عہدوفاچھوڑو
جب انجیرکے پیڑوں پر
پھول نہیں کھلتے


دوست کہاں ہیں دوست
نیلے خون کی خوشبو نے
راز اُگل ڈالے


قریہ قریہ دُھوپ
میٹھے جھرنوں کاپانی
قصّے بُنتاہے



عشق میں آپ امام
راول‘رانجھا‘نافرہاد
خاورمیرانام


رفتہ فرداکیا
حال میں رہناسیکھ لیا
ہم دیوانوں نے


نغمے گاتی ہیں
پت جھڑکی روشن رات میں
شیشم کی پھلیاں



کمروں میں ہیٹر
خانہ بدوشوں کے بچے
ٹھٹھری سردہوا


سگرٹ‘بیڑی‘پان
اب توایساکچھ بھی نہیں
شاعرکی پہچان


کون کرے احساس
بہتی جائے شوخ ندی
اورپیاساہے پیڑ



عکس میں جیسے شخص
لمس کی چٹکی لے تولُوں
تیری بات سُنوں


رازچھپائے کون
دوست سپولے بن بیٹھے
ہاتھ ملائے کون


چاند‘چنبیلی‘تم
ڈھولے گائے چرواہا
میرے دل میں آگ



سکّوں کی جھنکار
جسم بھی گروی رکھ چھوڑا
کروٹ کروٹ بھوک


خواب سہانے اب
چھوڑنہیں سکتے ہیں کیا
یارپُرانے اب


لکڑی کاہے پُل
یارواپنے خاورکی
موت ہے زیباگُل



جب سے روٹھا ہے
چپ کی چادرتانی ہے
دل نے چاروں اور


پیلا‘سُرخ گلاب
میری آنکھ میں چھوڑگیا
اپنے جلتے خواب


سوکھے لمحوں میں
آخرکوانجان ہوئے
آئینہ اورمیں



نیندچھلکتی رات
خوف کے کمبل میں لپٹا
پہلے عشق کاراز


جھرنوں کی آواز
چاندکٹورے دھیان میں ہیں
اوس میں ڈوبی رات


کون ہواہم راز
میرے من کی سیپی میں
یادتری مدفُون



کیاموسم آیا
بھیگے جسموں کاقصّہ
بارش بھول گئی


خواہش کاعفریت
اوروحشی لمحوں کارقص
اک کم سن تتلی


ایک بُریدہ شاخ
جاتے موسم کابوسہ
پیڑکے سینے پر



قرنوں پھیلی پیاس
برف کی دیوارکٹے تو
چکّھوں تیرالمس


دامن میں سوچھید
آخردوست ہی کھولیں گے
اپنے سارے بھید


ہاتھ سنہری ہے
موت کے سوداگرنے پھر
تتلی پکڑی ہے



آنکھیں برسی ہیں
خوں آلودہ تصویریں
میرے گھرکی ہیں


ٹُوٹ گیاہے خواب
تجھ کوپاکرخاور#پھر
دیرتلک رویا


گرگٹ ہے بدنام
خون کی ہولی کھیل گئے
امن کے نعرے باز



کم عُمری کاروگ
ہاتھ کی گرمی تیشہ ہوئی
کونپل ٹُوٹ گئی


پت جھڑکااحسان
جاتی رُت زنجیرہوئی
میری آنکھوں میں


ساون جیسی رات
ریشہ ریشہ بھیگ گیا
پیارکی بارش میں



سرخ اندھیروں نے
سورج کے پرکاٹ دیئے ہیں
اندھی آری سے


ایک نئی افتاد
دل توکب کاٹُوٹ چکا
آنکھ میں کیساعکس


آئی سب کی یاد
شایدعمرکاکیلنڈر
ختم ہُواچاہے



پاگل کون نہو
ٹھنڈاسورج‘تنہائی
اورسُلگتامن


ہوگاجوہونا
آج اسے بھی چھوڑدیا
چین سے اب سونا


ساون برسے گا
خاورتیرے لئے پیارے
کب تک ترسے گا



داناؤں کاقول
دل سُلگے تواچھاہے
عشق جواں ہوگا


کِھلتی صبحوں میں
اندھے چاندکی کون سُنے
دُنیاکہتی ہے


کیساپاگل پن
آتی جاتی آنکھوں میں
ڈھونڈوں اپناعکس



ایسے جیتاہُوں
پیاس کی شدت بڑھ جائے
آنسوپیتاہُوں


غربت‘بے کاری
کمرے کی چھت سے لٹکے
ایک جواں کی لاش


آنکھیں راکھ کاڈھیر
منظردُھندلاجاتے ہیں
بھوک اُگے جس دم



کیساآب ِحیات
میری پیاس بجھے‘جانوں
تیرے دریاہیں


تیری دُنیامیں
صبرکی چادراوڑھوں تو
رُوح کوآگ لگے


دیکھاکُل سنسار
غرض کے سارے رشتے ہیں
کون کسی کامیت



خودسے ڈرجاؤں
چاندکی روشن راتوں میں
سایہ ساتھ چلے


سیمیں ساعدمیں
کانچ کادریابہتاہے
زخمی میرادل


میرامسلک پیار
تیرے ہاتھ سے پی لُوں گا
گرچہ ہوزہراب



کتنی سُندرہو
آنکھیں روشن رہتی ہیں
تم کودیکھوں تو


جانے کیساخوف
وال کلاک کی ٹک ٹک نے
نینداُڑادی ہے


زخم مہکتے ہیں
رُت بادام کے پھولوں کی
کاش چلی آئے



پہلی رات کاچاند
تیری یادوں کی دہلیز
پارکرے گاکون


پہلی رات کاچاند
تیرے وعدوں کامظہر
اس سے بہترکون


پہلی رات کے چاند
توبھی چھوڑگیامجھ کو
کس کودُوں آواز



غم سے ہوں آزاد
میرکادیواں سینے پر
رکھ کرسویاتھا


حیراں بیٹھی ہے
مٹّی کی ہانڈی رکھّے
کچّے چولہے پر


جانے الہڑنار
دروازے کاپٹ کھولے
کس کی راہ تکے



اک تنہاکوا
روزبلاتاہے کس کو
توت کی شاخوں سے


بنجرمیرامن
گھرکاآنگن بھی ویران
شایدپھول کھلیں


سخت کٹھورفضا
کانوں میں رس گھول گئی
پھرتیری آواز

وقت سرکنا تھا
سارے گاما پا دا نی
بھول کے کون جیا
 

خاورچودھری

محفلین
ماہیے





کچھ کام نہیں ہوتا
عشق تمہارے میں
آرام نہیں ہوتا


ہووقت کبھی ملنا
زخم جدائی کا
مشکل ہے مگرسِلنا


زلفوں کوسنورنے دو
روزاُلجھتے ہو
کچھ کام بھی کرنے دو



ہیں بخت سیہ کالے
صرف تری خاطر
دستورمٹادالے


تم دردہوسینوں کا
حال نہیں پوچھا
ہم خاک نشینوں کا


جس سمت بھی دیکھوگی
یادرُلائے گی
جب بھی مجھے سوچوگی



جاتجھ سے نہیں ملنا
پھول محبت کا
آسان نہیں کِھلنا


رنگوں سے بھراموسم
بیت چکاساون
کیااشک بہائیں ہم


اک بارسُناؤگی
رازمحبت کا
کس کس سے چُھپاؤگی



مجبورجوانی پر
شہرامڈآیا
اک رات کی رانی پر


سجنی کاحسیں گِہنا
روٹھ گئے ہم تو
آوازنہیں دینا


سچ شہدسے میٹھاہے
رس ترے ہونٹوں کا
انعام وفاکاہے



ہررنگ کوچکھتاہوں
دردزمانے کے
آغوش میں رکھتاہوں


آنچل کی ہوادینا
حُسن کاقیدی ہوں
چرنوں میں جگہ دینا


زخموں کوسنوارآئی
دردچہک اٹّھے
اب کے جوبہارآئی



میں دیرتلک رویا
پیارکی ڈالی پر
جب پھول کِھلادیکھا


دریابھی اُترجائے
عین دسمبرمیں
محبوب مُکرجائے


غم‘ڈھیرہے سونے کا
خُوب ہنسو‘کھیلو
کیالطف ہے رونے کا



گھنگھوراندھیروں میں
عمرگذرتی ہے
بارودکے ڈھیروں میں


انگورکادانہ ہے
جان گیاہوں میں
انمول خزانہ ہے


کچھ آس نہیں رکھنا
بانجھ شجرسے تم
ہاں!پیاربہت کرنا



ہوخیربہاروں کی
اُتری پھرآنکھوں میں
بارات ستاروں کی


گندم کی ہری بالی
میرے مقدرکی
ہرسیپ رہی خالی


وہ سونے کی بالی ہے
حسن کی دیوی
ہربات نرالی ہے



تقدیدسنورتی ہے
جب بھی تجھے دیکھوں
خواہش سی مچلتی ہے


جب برف پگھلتی ہے
صبح پرستوں کی
ہررات سُلگتی ہے


اک بارپلٹ آؤں
سردہوائیں ہوں
میں تم سے لپٹ جاؤں



کھوجاؤں جویادوں میں
دیرتلک چمکے
جُگنوکوئی آنکھوں میں


اک بوجھ ہوں دھرتی پر
روزتڑپتاہوں
احساس کی سولی پر


ہردردپڑاسہنا
پیارسے کہتی ہے
تم جان نہیں کہنا



وہ چاندسی پیاری ہے
جان چھڑکتی ہے
اک ایسی بھی ناری ہے


فرصت نہیں گھرجائیں
اس کی محبت میں
اچھاہے کہ مرجائیں


ہم آہ نہیں بھرتے
دردِمحبت کی
تشہیرنہیں کرتے



رُکتے ہیں‘گذررتے ہیں
اس کی اداؤں پر
کس لطف سے مرتے ہیں


کیانار‘خداوندا
پھول نے بھی ایسا
رس رُوپ نہیں پایا


کانٹے پڑے راہوں میں
دوست ترے غم کو
بھرلوں گامیں بانہوں میں



جب یادسجن آیا
پھرمری آنکھوں نے
اک خواب نہیں دیکھا


چوڑی کی کھنک جیسے
رُوپ بدلتی ہے
رنگوں کی دھنک جیسے


شبنم کہ کنول جیسی
مجھ کوتودِکھتی ہے
اپنی ہی غزل جیسی



اس ساکوئی سادہ بھی
ہم نے نہیں دیکھا
خاور#سے زیادہ بھی


کیابوئیے تن من میں
پھول نہیں کھلتے
کب سے مرے آنگن میں


ہرآن سے چاہاہے
نیم سی لڑکی کو
دل جان سے چاہاہے



جلتاہواتن دیکھا
چاندکی بارش میں
بے تاب بدن دیکھا


سوغات ہوئی ہوتم
دل کی زمینوں میں
گُل،پات ہوئی ہوتم


رُخ سے نہ کسی جم سے
وقت کٹامیرا
دنیامیں ترے غم سے



گل نارحسیں زیبا
شہدسے میٹھی ہو
کچھ اورنہیں مانگا


خاورتراشیدائی
دیکھ لیامیں نے
آئینہءِ تنہائی


سکھیوں کوپکارآئی
یارکے آنے سے
پنگھٹ پہ بہارآئی



وہ دستِ مسیحائی
رُوح کوچھوگزرا
تب جان میں جان میںآ ئی


بے خوف وخطرآئی
عشق سمندرمیں
وہ ناراترآئی


ڈالی سی گلاب آئی
بانجھ سوالوں کا
لے کروہ جواب آئی



خاور ہواسودائی
نین کٹوروں میں
یادوں کی جمی کائی


پیپل کی گھنی چھاوٴں
شہرکی رونق میں
وہ بھول گیاگاوٴں


وہ نین جوملتے تھے
پھول خزاں میں بھی
ہرڈال پہ کِھلتے تھے



دل ہاتھ پہ دَھردے دوں
تم جوکہوخاور
میں خونِ جگردے دوں


ہرچاک کوسِیتاتھا
تیری نظریاکی
میںآ س پہ جیتاتھا


بن یارمیں جیتاہوں
عکس نہ بہہ جائے
ہراشک کوپیتاہوں



بھولوں میں خدائی کو
بھول نہیں سکتا
اس دستِ حنائی کو


چھوڑوں میں خدائی کو
ہونٹ سے چھونے دو
تم دستِ حنائی کو


کھیتوں میں کھلی سرسوں
تیرے لئے پیارے
روتامیں رہابرسوں



شیشم کے درختوں میں
نین ملے جب سے
ہے چین نہ بختوں میں


غم بٹ گئے دستوں میں
چھوڑچلاآیا
آنکھیں ترے رستوں میں


عشاق کے بستوں میں
حسن کے قصے ہیں
اصنام پرستوں میں



کس رنگ سے دل دھڑکیں
تیری کلائیوں میں
وہ چوڑیاں جب کھنکیں


اندھیرسراوٴں میں
دردکھلادل کا
پھرشام کی بانہوں میں


پھرفصل ِستم بوئی
عشق سے تائب ہو
خاورسے کہے کوئی
 
Top