اردوادب کے شعری ادب میں بیشتراصناف سخن مشرق وسطیٰ اورمغرب سے ہی آئی ہیں لیکن ان کے مقبول اورمعتبرہونے میں طویل عرصہ لگا جب کہ جاپان سے درآمدہونے والی صنف سخن ہائیکونے بیس پچیس برس کی قلیل مدت میں برصغیرپاک وہندمیں جوحیرت انگیزمقبولیت حاصل کی ہے وہ اردو اور اہل اردوکے لئے باعث فخرہے۔
گزشتہ تقریباًدو دہائیوں میں صرف ہائیکوپرمشتمل درجنوں شعری مجموعے منظرعام پرآچکے ہیں ۔
متعدد ادبی رسائل میں ہائیکوسے متعلق مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے اہم شہروں کراچی‘اسلام آباداورکوئٹہ وغیرہ میں ہائیکو مشاعرے بھی منعقدہوتے رہتے ہیں۔خصوصاًکراچی میں جاپان قونصل خانہ کے تحت1982ء سے سالانہ بنیادپرتسلسل کے ساتھ ہائیکومشاعرے کا انعقاد کیاجارہاہے جس میں اردوکے سینئرشعراکے علاوہ نئے شعراء بھی کافی تعدادمیں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔آج یہ بات نہایت تیقّن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہائیکواب اردو ادب کے قارئین کے لئے نہ صرف اجنبی صنف سخن نہیں رہی ہے بلکہ اصناف شعری میں گراں بہااضافے کی حیثیت اختیارکرچکی ہے۔
جس طرح شاعری کی دیگراصناف غزل‘قطعہ‘رباعی کے علاوہ مغرب سے آنے و الی اصناف ‘ آزادنظم‘نظم معریٰ‘سانیٹ اورترائیلے تک اپنی مخصوص ہیئت کی وجہ سے اپنی جداگانہ شناخت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ہائیکوبھی بشمول دیگرفنّی پابندی کے اپنی مخصوص ہئیت(FORM)کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ہائیکوکاپہلااورتیسرامصرع مساوی الاوزان جب کہ دوسرے مصرعے میں ایک رکن زائد ہوتا ہے ۔اساتذہ فن اوربیشترنقادوں نے مندرجہ ذیل ارکان کوہائیکوکے اصل وزن کے انتہائی قریب ہونے کے باعث صحیح وزن قراردیاہے جسے ارکان ‘اعداد اوراردومصرعوں کی وضاحت کے ساتھ دیا جا رہاہے :۔
برصغیرپاک وہندکے تقریباً سبھی شعراء اس وزن کی پابندی کے ساتھ ہائیکولکھ رہے ہیں۔یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ اس پابندی کوپہلے پہل جاپان قونصل خانہ کراچی کے سالانہ مشاعرے منعقدہ1983ء میں ہدایت کی بموجب ملحوظ رکھاگیاتھا۔اس مشاعرے میں راقم نے جوہائیکوپیش کئے تھے ان میں سے دوہائیکویہاں دینابے محل نہ ہوگا:۔
بازآؤں گاجا
مجھ کوتوپھرسمجھانا
اس سے مل کرآ
بارش کا یہ ساز
رہ رہ کر یاد آتی ہے
گھنگرو کی آواز
بعض نقادوں نے پروفیسرمحمدامین کوان کے ہائیکومجموعے مطبوعہ 1981ء (طبع اول)1982 ء (طبع دوم)کی بنیادپرانہیں پاکستان کا پہلا ہائیکو نگار قرار دیا ہے جب کہ ان کے ہائیکوکے تینوں مصرعے مساوی الاوزان ہیں اس لئے یہ ہائیکوکی بنیادی شرط یعنی ہیئت کی پابندی پرپورے نہیں اترتے چنانچہ انہیں مختصرنظمیں ہی شمارکیاجاناچاہئے۔اس واضح فرق کے بارے میں مصنف نے اپنے ہائیکو کے دیباچے میں خودتحریرکیاہے:۔
“اردوہائیکواوربالخصوص میرے ہائیکوجاپانی ہائیکوسے مختلف ہیں۔۔۔ میں نے چونکہ جاپانی ہائیکوسے متاثرہوکرہائیکولکھنے شروع کئے اورجاپانی ہائیکوکی خصوصیات کوملحوظ رکھاہے اس لئے میں اسے ہائیکو کا نام دیناہی مناسب سمجھتاہوں۔“
مساوی الاوازان مصرعوں پرمشتمل مختصرنظمیں قیام پاکستان سے قبل بھی لکھی جارہی تھیں۔ مخمورجالندھری کی مختصرنظمیں کامجموعہ جواسی نام سے کتابی صورت میں 1946ء میں شائع ہواتھا۔ مذکورہ مجموعے سے تین نظمیں دی جارہی ہیں تاکہ میرے مؤقف کی تائیدہوسکے:۔
توکیاجانے تیرے سرپر
وقت کاچرخاگھوں گھوں کرتا
کات رہاہے بال سفید
اک اورناؤکنارے پہ بھرکے ڈوب گئی
امیدتھی کہ سمندرکی موج کف آلود
اٹھی‘بلندہوئی اورپھرسے ڈوب گئی
گذراتھاابھی کون سڑک سے کہ ابھی تک
ہاتھوں میں ہے بنئے کے اسی طرح ترازو
درزی کی سوئی پہلے جہاں تھی ہے وہیں پر
ہائیکوکی ہئیت کے سلسلے میں بات یقیناخاصی تفصیل میں چلی گئی ہے لیکن یہ بنیادی مسئلہ تھا جس کی وضاحت مثالوں کے ساتھ ضروری تھی۔
پانچ سات پانچ کی پابندی کے ساتھ سینئرشعراء کے علاوہ جن نئے شعراء اورشاعرات نے کامیاب ہائیکولکھے ہیں ان میں مہتاب الدین مہتاب‘لیاقت علی عاصم‘آفتاب مضطر‘ شبہ طراز‘ثروت سلطانہ ثروت‘ اور رونق حیات کے نام قابل ذکرہیں۔مہتاب اورعاصم کے علاوہ بقیہ شعراء کے ہائیکوکے مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔پچھلے چندبرسوں میں ہائیکو نگاروں کی اس کہکشاں میں خاور چودھری کے نام کاخوشگواراضافہ ہواہے۔ انہوں نے مساوی الاوزان ہائیکوبھی لکھے ہیں اورہیئت کی پابندی کے ساتھ بھی لیکن میرے نزدیک ہیئت کی پابندی کے ساتھ لکھے گئے ہائیکوہی ان کی پہچان ہیں جب کہ انہوں نے ماہئیے میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
ادبی مراکزسے دورہونے کے باعث انہیں ہائیکونگاروں میں کم ہی شمارکیا گیا ہے اوران کے کلام کی خاطرخواہ اشاعت بھی نہیں ہوسکی ہے جب کہ انہوں نے نہ صرف ہیئت کی پابندی کوملحوظ رکھتے ہوئے کامیاب ہائیکو لکھے ہیں بلکہ ہائیکوکے مزاج اورمضامین کونہایت خوبصورتی سے برتا ہے ۔ جاپانی ہائیکومیں قوافی کااہتمام نہیں کیا جاتالیکن اردوکے کئی شعراء قوافی کی پابندی کے ساتھ بھی کہہ رہے ہیں اورپابندی کے بغیربھی۔خاورکے بیشتر ہائیکوکے پہلے اورتیسرے مصرعے ہم قافیہ نہیں ہیں۔خاورنے مساوی الاوزان مصرعوں پرمشتمل ہائیکوبھی لکھے ہیں لیکن اصل وزن میں ہی لکھے گئے ہائیکوان کی پہچان ہیں۔مثلاً
قریہ قریہ دھوپ
میٹھے جھرنوں کاپانی
قصّے بُنتاہے!
کالے موسم میں
وعدوں کی زنجیر کٹے
مشکل ہو آسان
رفتہ فرداکیا
حال میں رہناسیکھ لیا
ہم دیوانوں نے
صحرا صحرا یاد
میری آنکھوں میں اُتری
اشکوں کی بارات
جاپانی ہائیکومیں موضوعات اورمضامین کے لحاظ سے موسم‘حشرات الارض ‘اور مظاہرفطرت کوکلیدی حیثیت حاصل ہے۔خاور# نے بھی اپنے انداز میں انہیں نہایت خوبی کے ساتھ اپنے ہائیکوکا موضوع بنایاہے۔
جھینگر‘جگنو‘رات
جذبوں کی سرگوشی سن
دیپک راگ نہ چھیڑ
خود سے ڈر جاؤں
چاند کی روشن راتوں میں
سایہ ساتھ چلے
خاورکے بعض ہائیکوجاپانی صنف سخن“سِن ریو“پرپورے اترتے ہیں:۔
سگرٹ‘بیڑی‘پان
اب توایساکچھ بھی نہیں
شاعرکی پہچان!
راز چھپائے کون
دوست سپولے بن بیٹھے
ہاتھ ملائے کون
خاورنے اس صنف کوغالباًشعری ذائقہ بدلنے کے لئے استعمال کیاہے لیکن ان کااصل میدان ہائیکوہے اور“ٹھنڈاسورج“ہائیکوکاایک اہم مجموعہ ہے میں اسے ہائیکوکی سبدِ گل میں ایک تازہ پھول کااضافہ سمجھتاہوں جواہل نقدونظرکی توجہّ بھی حاصل کرے گااورقارئین کی دادوتحسین کامستحق ہی نہیں حق داربھی ٹھہرے گا۔
پچھلی تقریباًدودہائیوں سے ہائیکونے اردوشاعری میں بڑی آہستگی سے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں‘یہ اگرچہ بدیسی صنف ہے مگر اس کابنیادی ڈھانچہ ہمارے ماہیے سے مماثلت رکھتاہے جس کی وجہ سے یہ صنف اپنی ہی لگتی ہے۔
ہائیکوکے کینوس پرفطرت اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خاور چودھری کے ہائیکوزبھی انہی خوب صورتیوں سے مملوہیں‘انہوں نے زمین سے آسمان تک قدرت کے بیشتر رنگوں کونہایت مہارت سے پینٹ کیاہے اورفطری ماحول کے اندرڈوب کرنہایت اُجلے اورنازک الفاظ کے دھاگوں سے ہائیکوزکی لڑیاں پروئی ہیں۔ان کے ہائیکوزپڑھتے ہوئے ایسا لگتاہے جیسے قاری ایک Improvisation سے گذر رہا ہو۔مصرعوں کی بُنت‘الفاظ کی نشست وبرخاست اور خیال کی Dimensionسے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ انہیں اپنی بات کہنے پرکتناکنٹرول حاصل ہے۔خاورچودھری ایک ذہین لکھاری ہیں‘لکھنے کاعمل ان کے خون میں تیرتاہے۔ وہ لفظ کی اہمیت سے آگاہ ہیں‘اوریہی احتیاط ان کے ہائیکوزکا بنیادی وصف ہے۔
”ٹھنڈاسورج“میں انہوں نے جوتجربات کئے ہیں‘ وہ ان کے گہرے مطالعے‘کڑے مشاہدے اوروسیع سوچ کے حامل ہیں‘ان کے ہاں جدّت بھی ہے اورفطرت کی سچائی کی کھلی عکاسی بھی۔مجھے یقین ہے ان کے ہائیکوزکوشعری حلقوں میں بڑی پذیرائی ملے گی کیوں کہ انہوں نے بہت محنت کی ہے اور محنت ہمیشہ رنگ لاتی ہے۔
ماہیاہماری شاعری کی ایک نہایت حسین اور دلآویز صنف ہے۔لوک کہانیوں کی طرح ماہیابھی ہماری روایت میں رچا بساہے۔شہروں سے کہیں زیادہ ماہیا مضافات میں مقبول ہے‘خاورچودھری بھی مضافات سے تعلق رکھتے ہیں‘اور وہ جہاں کے باسی ہیں‘وہاں پرلوک ورثہ کی روایت بڑی مضبوط رہی ہے‘ ان کے ہاں رومانیت‘ حزن وملال اوردیہات کی ٹھنڈی اور نرم مٹی کی پرچھائیوں کے کلرایک عجیب بہار دیتے ہیں‘انہوں نے ہجرکے کرب اورآنسوؤں کی نمی کواپنے ماہیوں کاحصہ بنادیا ہے‘ اردوماہیامسلسل ارتقاکی طرف گامزن ہے‘خاورچودھری ماہیے کی رُوح میں بیٹھ کر لکھتے ہیں‘ان کے اکثرماہیوں کی Winsomenessدیکھنے کے لائق ہے۔
محبت ان کابنیادی استعارہ ہے‘انہوں نے اس کا استعمال نہایت مہارت اورقرینے سے کیاہے یوں لگتاہے جیسے انہوں نے اپنے خیالات کوایک داستان میں ڈھال دیاہو جس سے ان کے ماہیے پڑھتے ہوئے ایک گہراکیف ملتاہے۔
خاورچودھری کاشعری مستقبل یقیناتابناک ہے ان کی ماہیے کے ساتھ وارفتگی اور Commit mentان کے آئندہ کاپتہ دیتی ہے‘اللہ کرے مرحلہء شوق نہ ہوطے۔
"ٹھنڈاسورج"خنک تمازتیں پروفیسرمحمداعظم خالد
وہ لوگ فی الواقع عظیم ہوتے ہیں جوکسی دیارغیرسے آنے والے مسافر کو پذیرائی بخشتے ہیں‘اسے سینے سے لگاتے ہیں۔ذاتی غرض وغائت سے ماوراء ہوکرفرض مشاطگی نباہتے ہیں۔خاوربھی ایک ایساہی باغباں ہے جس نے جاپانی ادب سے وطن عزیز میں قدم رنجہ فرمانے والی صنف شعر ہائیکو کو کھلی بانہوں خوش آمدیدکہا۔ اور اردو کے موئے قلم سے اس کی نوک پلک سنوارنے اورخال وخط اجالنے کابیڑااٹھایا۔ بلاشبہ چند صاحبان فن اس کار خیر میں پہلے سے مصروف عمل تھے اورخاور بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے۔مگرخاورکااعزازیہ ہے کہ انہوں نے خالصتاًطبع زادہائیکوکی ترویج کواپنا شعار بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ خامی سے خوبی اوربرائی سے اچھائی کاپہلونکالنا صنّاع کائنات کی قدرت کاملہ کااٹل ثبوت ہے۔اوریہ خیال بھی واثق ہے کہ Ignorence is Blessingایک آفاقی سچائی ہے ۔ سوخاورکاجاپانی زبان سے ناآشناہونابھی اس لحاظ سے ایک نعمت ثابت ہواکہ انہوں نے جوبھی لکھاصرف اور صرف طبع زاد ہے۔اورترجمے کے الزام سے مبرّا ہے۔
یہ ایک طرفہ تضادہے کہ جب بھی ہائیکوکاذکرآتاہے پنجابی ماہیے کاحوالہ بیچ میں آجاتاہے۔حالانکہ ہردواصناف میں نہ صرف بہت بعدہے بلکہ اپنی بنیادکے لحاظ سے دونوں اصناف یکسرایک دوسرے کے متضادہیں۔پنجابی ماہیا(اوراب تو اردو ماہیا بھی ادب میں درآیاہے)قدیم اروغزل کی طرح ذاتی جذبات اوردلی کیفیات کا مظہرہے۔یہ صنف دل کے ڈونگھے سمندروں میں اٹھنے والے ابال کااظہارہے۔جبکہ ہائیکو اپناتمام ترموادخارج سے وصولتی ہے۔ جب فطرت کادست لطیف دردل پر دستک دیتاہے توماہیا وجود میں آتا ہے۔مگرجب فطرت کی صنّاعی خارجی عوامل کے ذریعے آنکھ کے راستے روح میں گھر کرتی ہے توہائیکوتخلیق ہوتی ہے۔اورخاورکے ہائیکو قدرت کے خارجی مظاہرکے حوالے سے کیفیات قلبی کے اظہار کابہترین مرقع ہیں‘کتاب کاعنوان’‘ٹھنڈا سورج’‘اس لحاظ سے اسم بامسمّیٰ ہے کہ ایک توصاحب کتاب کانام خاور #ہے دوسرے جاپان کوچڑھتے سورج کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ کتاب میں جابجا سورج‘ سیمگوں گلاب‘دردکی ردا‘شبنمی اجالے ‘ پربتوں کے ریشے‘ کوہکن کے تیشے ‘حسن کی کرنیں‘ آنسو بونا‘ دھوپ کی چادر‘برف کابستر‘جیون امرت اورایسی بے شمار تراکیب ان ہائیکوزمیں اردوفارسی کارنگ تغزّل بھرکرقاری کے ذوق لطیف کوطمانیت بخشتی ہیں۔البتہ غزل کی ایک اورروایت یعنی شورقلقل مینااورپیمانہ و شیشہ کی کھنک سے یکسراغماض برتا گیا ہے۔دوسری طرف تین مصرعوں میں ایک مکمل پیغام قاری کے ذہن میں غیرشعوری طورگھرکرجاتاہے۔اورایک شاعریاکسی بھی فنکار کا سب سے بڑااعزازہی یہ ہے کہ وہ اپناپیغام غیرمحسوس طریقے سے سامع کے گوش گذارکردے۔
جو ن ایلیانے ایک جگہ لکھاتھا:
نظرپہ باربن جاتے ہیں منظر
جہاں رہیووہاں اکثرنہ رہیو
اس خیال کوخاورنے ہائیکوکے لباس میں یوں پینٹ کیاہے۔
زندہ آنکھیں تو
منظرروزہراچاہیں
ڈھونڈنیااک میت
شاعرجاپانی صنف ادب سے متاثرضرورہے مگرمغلوب نہیں۔ جابجااپنی مٹی سے محبت اوراپنی مٹی سے موادکشیدناشاعر کی کمٹ منٹ کابین ثبوت ہے۔مثلاً
منظر‘منظردھول
اجلے چہرے ‘کالے لوگ
مشکل ہے پہچان
جیناجیسے موت
جلتی ریت میں زندہ ہے
بھٹیارن کادکھ
کاگا‘یاد‘منڈیر
دل تاریک کنوئیں جیسا
آنکھیں بول پڑیں
ایسی بہت سی اصطلاحات اورتراکیب اپنی مٹی سے محبت اوراپنی ثقافت سے لگاؤ کا مظہر ہیں جن کاوجودکسی دوسری سوسائٹی میں مفقودہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں اردوماہیے ہیں‘جن میں فکری عنصرغالب ہے۔جوشاعرکی فکری بالیدگی کاغمّاز تو ہے۔مگراصل ماہیے کاکھراپن توا سکے کچے پن مستور ہوتا ہے ۔ یہ توان لوگوں کے دلوں کی دھڑکن کی صداہوتی ہے جوشہری دانش سے کوسوں دوراوربے سکولے ہوتے ہیں۔