ٹھہرنا پڑے گا زمانے کو اک دن، زمانے کی بے نور آنکھوں میں آخر

ٹھہرنا پڑے گا زمانے کو اک دن
خلاؤں کی بے نور آنکھوں میں آخر
یہ اڑتا ہوا کارواں منظروں کا
غبارِ تغیّر سے باہر نکل کر
رکے گا کبھی وادیء بے سفر میں
اتارے گا پیراہن ِ رنگ و بو کو
سنائے گا وہ نغمہء سرمدیّت
کہ جس کے شرارے زمان و مکاں میں
تڑپتے رہے لحنِ داؤد بن کر
رلاتے رہے چشمِ یعقوب بن کر
سناتے رہے وقت کی ظلمتوں کو

وہی بے صدا نغمہء دلربائی
کہ جس کی صدا کو ترستے رہے ہیں
مغنّی کے ہونٹ اور مطرب کے ساز
کہ جس کے جنوں میں خیالوں کے کے وحشی
نگاہوں کی پھیلی ہوئی وسعتوں میں
سوادِ تحیّر سے آگے نکل کر
کئی بار لپکے
مگر کچھ نہ پایا

تمنّا کی صورت گری کے سوا
ہیولوں کی جلوہ گری کے سوا

جہاں کچھ نہیں ہے

سیدہ سارا غزلؔ ہاشمی
 
ٹھہرنا پڑے گا زمانے کو اک دن
خلاؤں کی بے نور آنکھوں میں آخر
یہ اڑتا ہوا کارواں منظروں کا
غبارِ تغیّر سے باہر نکل کر
رکے گا کبھی وادیء بے سفر میں
اتارے گا پیراہن ِ رنگ و بو کو
سنائے گا وہ نغمہء سرمدیّت
کہ جس کے شرارے زمان و مکاں میں
تڑپتے رہے لحنِ داؤد بن کر
رلاتے رہے چشمِ یعقوب بن کر
سناتے رہے وقت کی ظلمتوں کو

وہی بے صدا نغمہء دلربائی
کہ جس کی صدا کو ترستے رہے ہیں
مغنّی کے ہونٹ اور مطرب کے ساز
کہ جس کے جنوں میں خیالوں کے کے وحشی
نگاہوں کی پھیلی ہوئی وسعتوں میں
سوادِ تحیّر سے آگے نکل کر
کئی بار لپکے
مگر کچھ نہ پایا

تمنّا کی صورت گری کے سوا
ہیولوں کی جلوہ گری کے سوا

جہاں کچھ نہیں ہے

سیدہ سارا غزلؔ ہاشمی

کیا بات ہے۔ بہت عمدہ کہا سیدہ سارا غزل بٹیا
 
Top