کاشفی

محفلین
غزل
(اقبال اشہر)
ٹھہری ٹھہری سی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی

آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی

مدتوں بعد چلا اُن پہ ہمارا جادو
مدتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی

مدتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدتوں بعد ہمیں پیاس چھپانی آئی

مدتوں بعد کھلی وسعتِ صحرا ہم پر
مدتوں بعد ہمیں خاک اُرانی آئی

مدتوں بعد میسّر ہوا ماں کا آنچل
مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی

اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بہت خوب، لگتا ہےآج کل ہندوستانی مشاعرے بہت دیکھ سن رہے ہو ، شاعرات کا کلام بھی خوب پوسٹ کر رکھا ہے۔
اقبال اشہر کا کلام واقعی اچھا ہوتا ہے
 
Top