ٹیلی پیتھی کیا ہے - از خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح روشناس ہے ۔ کہکشانی اور شمسی نظاموں کی روشنی سے ہماری زمیں کا تعلق کیا ہے اور ان نظاموں کی روشنی زمین کی نوعوں انسان ۔ حیوانات ۔ نباتات ۔ اور جمادات پر کیا اثر کرتی ہے یہ مرحلہ سائنس کے سامنے آچکا ہے ۔ سائنس دانوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ شمسی نظاموں کی روشنی جمادات-نباتات اور حیوانات کے اندر کس طرح اور کیا عمل کرتی ہے اور کس طرح انکی کیفیات میں ردوبدل پیدا کرتی ہے ۔ سائنس کا عقیدہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر اور صرف لہر پر ہے ایسی لہر جسے روشنی کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ۔

ٹیلی پیتھی میں ایسے علوم پر بحث کی جاتی ہے جو حواس کے پس پردہ ، شعور سے چھپ کر کام کرتے ہیں ۔ یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے حواس کی گرفت مفروضہ ہے ۔

مثال

ہم جب کسی سخت چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس چیز کی سختی کا علم ہوجاتا ہے حالانکہ

براہ کرم اس تھریڈ میں کوئی جواب مت لکھئے کیونکہ ابھی اس موضوع پر گفتگو جاری ہے
 
حالانکہ ہمارے دماغ کے اوپر وہ سخت چیز ٹکراتی نہیں ہے سائنس کے نقطہ نظر اور مخفی علوم کی روشنی میں ہر شے دراصل شعاعوں یا لہروں کا مجموعہ ہے ۔ جب ہم کسی لکڑی یا لوہے کی طرف کسی بھی طریقے سے متوجہ ہوتے ہیں تو لکڑی یا لوہے کی شعاعیں ہمارے دماغ کو باخبر کر دیتی ہیں ۔ باخبر ی کے لیئے یہ ضروری نہیں کہ لکڑی یا لوہے کی سختی کو چھو کر محسوس کیا جائے
 
غور طلب بات یہ ہے کہ شعاع یا لہر اپنے اندر سختی رکھتی ہے اور نہ وزن ۔پھر ہمیں یہ علم کیسے ہو جاتا ہے کہ فلاں چیز سخت ہے یا نرم ۔ جب ہم پانی کو دیکھتے ہیں تو فورا ہمارے دماغ میں یہ بات آجاتی ہے کہ یہ پانی ہے حالانکہ ہماے دماغ میں پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا یعنی دماغ بھیگتا نہیں ہے ۔ جب ہمارا دماغ بھیگتا نہیں تو ہم یہ کیسے کہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے


براہ کرم اس تھریڈ میں کوئی جواب مت لکھئے کیونکہ ابھی اس موضوع پر گفتگو جاری ہے
 
رنگ کی قسمیں ساٹھ سے زیادہ دریافت ہو چکی ہیں ۔ جب ہم کوئی رنگ دیکھتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہم اس رنگ کو فورا پہچان لیتے ہیں بلکہ رنگ کے ہلکے یا تیز اثرات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں ۔ ہرا رنگ اور ہریالی دیکھ کر ہمیں سکون محسوس ہوتا ہے ۔ مسلسل اور متواتر سرخ رنگ سامنے رہنے سے ہمارے دماغ پر ناگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں یہی نہیں بلکہ اعتدال سے زیادہ سرخ رنگ کے اثرات دماغ کو غیر متوازن بھی کر دیتے ہیں ۔




حقائق یہ ہیں کہ ہر شئے الگ اور عین مقدار کے ساتھ وجود پذیر ہے ۔ لہروں یا شعاعوں کی معین مقداریں ہی ہر شئے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں ۔ اور ہر شئے کی لہریں یا شعاعیں ہمیں اپنے وجود کی اطلاع فراہم کرتی ہیں ۔ کہنا یہ ہے کہ ہر موجود شئے دراصل لہروں یا شعاعوں کا دوسرا نام ہے اور ہر شئے کی لہر یا شعاع ایک دوسرے سے الگ یا مختلف ہے ۔ اگ ہمیں یہ یہ معلوم ہو جائے کہ انسان ، حیوانات اور جمادات میں کس کس قسم کی لہریں کام کر رہی ہیں اور ان لہروں پر کس طرح کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے تو ہم ان چیزوں کو متاثر کر سکتے ہیں ۔ لہر یا شعاع دراصل ایک جاری و ساری حرکت ہے اور ہر شئے کے اندر لہروں یا شعاعوں کی حرکت کا ایک فارمولا ہے ۔ ہمارے اردگرد بہت سی آوازیں پھیلی ہوئی ہیں ۔ یہ آوازیں بھی لہروں کی شکل میں موجود ہیں ۔ انکے قطر (ویو لینتھ) بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں ۔ سائینسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چارسو قطر سے نیچے کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتا اور ایک ہزار چھے سو قطر سے آوپر کی آوازیں بھی بجز برقی رو کے سننا ممکن نہیں ۔


براہ کرم اس تھریڈ میں کوئی جواب مت لکھئے کیونکہ ابھی اس موضوع پر گفتگو جاری ہے
 
آنکھ کے پردوں پر جو عمل ہوتا ہے وہ رو یا لہر سے بنتا ہے ۔ آنکھ کی حس جس قدر تیز ہوگی وہ اتنا ہی رو میں امتیاز کر سکتی ہےٹیلی پیتھی کا اصل اصول یہی ہے کہ مشق کے ذریعے آنکھ کی حس کو اس قدر تیز کر دیا جائے کہ صاحب مشق رو اور حواس کی لہروں میں امتیاز کر لے ۔ آنکھیں بھی حواس میں شامل ہیں لیکن یہ ان چیزوں کا جو باہر سے دیکھتی ہیں زیادہ اثر قبول کرتی ہیں ۔ باہر کا عکس آنکھوں کے ذریعے اندرونی دماغ کو متاثر کرتے ہیں اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ حواس تازہ یا افسردہ ہوجاتے ہیں ۔ کمزور یا طاقتور ہو جاتے ہیں ۔ انہی باتوں پر دماغی کام کا انحصار ہوتا ہے ۔




براہ کرم اس تھریڈ میں کوئی جواب مت لکھئے کیونکہ ابھی اس موضوع پر گفتگو جاری ہے
 
Top