ٹیکسٹ بک کا استبداد ۔ ڈاکٹر ساجد علی

زیک

مسافر
میں اس مضمون کو ٹھیک سمجھ نہیں سکا۔ صاحب مضمون کالج لیول کے فلسفے کے بنیادی کورس سے آغاز کرتے ہیں۔ اس لیول کا کورس ٹیکسٹ بک سے بھی پڑھایا جا سکتا ہے اور علیحدہ علیحدہ ریڈنگز سے بھی۔ دونوں میں سے کوئی بھی سیلکٹ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات کلاس ڈسکشن اور مطالعے کی ہے۔

یہاں کالج میں اکثر اساتذہ ایک کتاب ٹیکسٹ بک کے طور پر استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مزید میٹیریل بھی اسائن کرتے ہیں۔

نوٹ: یہاں کالج سے مراد چار سالہ بیچلرز لیول ہے نہ کہ پاکستانی ایف ایس سی یا ایف اے
 

ربیع م

محفلین
ہو سکے تو تکفیر کی مبادیات پر ایک لڑی شروع کیجیے تاکہ ہم جیسے جہلا کو بھی پتا چل سکے۔
تکفیر کی بات تو میں نے شروع نہیں کی، جنہوں نے شروع کی وہ بصد شوق ابتداء کریں۔
اور اہل علم جانتے ہے کہ مسئلہ تکفیر انتہائی حساس موضوع ہے اور ایک عام عالم بھی تکفیر نہیں کر سکتا کجا مجھ جیسا عامی!
باقی کسی کے جہلاء میں شمار ہونے کی پوری لڑی میں کہیں بھی بات نہیں کی گئی۔
اگر میرے کسی مراسلہ سے ایسا سمجھا گیا ہے تو دلی معذرت!
والسلام
 
مدیر کی آخری تدوین:
علما کی مذہب سے متعلق مختلف آرا کو مذہبی نصاب یا درسی کتب کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ یہ اختلافی مسائل ہیں اور انکا مذہب کی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مذہب کے اندر مختلف فرقوں یا مکاتب الفکر سے متعلق تعلیم دینا مقصود ہے تو وہ اختلافی مسائل کو شامل کئے بغیر دینی چاہئے۔ یاد رہے کہ تعلیم کا مقصد حصول علم ، حصول تنازعات نہیں۔
یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جو علم کو جامد سمجھتا ہو۔
 
Top