الف نظامی
لائبریرین
ٹیکس کلچر کہاں سے آئے گا؟ ---گریبان --- منو بھائی
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والے کاروباری لوگوں میں اضافے کی بجائے مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ایف بی آر کے رکن ابرار احمد بتاتے ہیں کہ گزشتہ مالی سال کے دوران دس میں سے ایک کاروباری حضرات نے اپنی ٹیکس ریٹرنیں داخل کی ہیں۔ 2010 کے دوران تنخواہ دار طبقے سے باہر کے پانچ لاکھ 33 ہزار پانچ سو 84کاروباری حضرات نے ٹیکسوں کے گوشوارے داخل کئے ہیں۔ ان میں سے صرف 64ہزار 250نے اپنے کاروبار کو نفع بخش تسلیم کیا ہے اور ایک اعشاریہ چار ارب روپے بطور ٹیکس ادا کئے ہیں۔ بعض بڑے بڑے کاروباری ادارے اور صنعتوں کے بڑے نام اس فہرست میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ باقی ماندہ گوشوارے داخل کرنے والے 72ہزار چار سو 36انکم ٹیکس کی شکل میں کچھ دینے کی بجائے لینے کا موقف اختیار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے حصے سے زیادہ ٹیکس ادا کرچکے ہیں۔ انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے 3ارب روپے واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان اعداد و شمار سے پاکستان میں ٹیکس کلچر کی پذیرائی کی مایوس کن صورتحال کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کو غریب لوگوں کا امیر ملک کیوں کہا جاتا ہے اور پاکستان امیر لوگوں کا غریب ملک کیوں کہلاتا ہے۔ پاکستان میں 9 فیصد لوگ محصولات اداکرتے ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب 16 فیصدی سے 18 فیصدی تک ہے۔ پاکستان کے لوگ اگر اپنے تمام محصولات ادا کردیں تو غیرملکی امداد اور قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سہیل احمدکہتے ہیں کہ وطن عزیزکے قوانین انہیں ٹیکس چوری کرنے اور چھپانے والوں کوگرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ قومی اسمبلی کی مالیات کی سٹینڈنگ کمیٹی کی سابق چیئرپرسن فوزیہ وہاب بھی اعتراف کرتی ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا سوائے ان کے جن کا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ یہی معروضی سچائی اور زمینی حقیقت ہے۔ ابرار احمد کاکہنا ہے کہ اس کے باوجود کہ پاکستان کے حکمران کاروباری عناصر کو ٹیکسوں کے جال کے اندر لانا چاہتے ہیں مگر حکومت کے اندراور باہر کے مخالفین حکومتی ریونیو بڑھانے کی کسی کوشش کا ساتھ دیتے دکھائی نہیں دیتے ”آر جی ایس ٹی“ کا نفاذ بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے جو اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ریونیو کے شعبے سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ موجودہ سسٹم کے تحت کرپشن کا خاتمہ دیوانے کا خواب ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی بشریٰ گوہر کہتی ہیں کہ ٹیکسوں کے اعداد و شمار تمام فوجی جرنیلوں، جج صاحبان، ارکان پارلیمینٹ کے نوٹس میں لائے جانے چاہئیں تاکہ ملک کے تمام طبقے اور لوگ ان سے آگاہ ہوسکیں۔ بشریٰ کے مطابق لوگ ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں بشرطیکہ انہیں ان ٹیکسوں کا صحیح، مناسب اور موزوں استعمال دکھائی دے رہا ہو اور ٹیکس سے جمع ہونے والی رقوم بددیانتی کے عفریت سے محفوظ رکھی جائیں۔
انکم ٹیکس کے علاقائی دفاتر سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں 7964 لوگوں نے ایک کروڑ 20لاکھ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کئے۔ بہاولپور میں 123 ٹیکس دہندگان نے ایک کروڑ 50 لاکھ کاٹیکس ادا کیا۔ فیصل آباد سے 6097 لوگوں سے چار کروڑ 90ہزار روپے کا انکم ٹیکس وصول ہوا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے۔ گوجرانوالہ سے گزشتہ مالی سال میں ایک ہزار 598 ٹیکس ادا کرنے والوں سے ایک کروڑ 10لاکھ روپے وصول کئے گئے۔ حیدرآباد کے 2511 ٹیکس دینے والوں نے 2کروڑ 90لاکھ روپے ادا کئے۔ اسلام آباد کے 2511 کاروباری لوگوں نے اپنے آپ کو انکم ٹیکس ادا کرنے کے قابل پایا اور 93لاکھ روپے کا ٹیکس ادا کیا۔ ملتان میں 6770 لوگوں نے ساڑھے 4کروڑ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کئے۔ پشاور کے 2012 کاروباری لوگوں نے 3کروڑ 60 لاکھ روپے بطور ٹیکس ادا کئے۔ کوئٹہ کے 477ٹیکس دہندگان نے ایک ارب 29کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کیا۔ کراچی میں صرف 16ہزار 299 کاروباری حضرات نے 66کروڑ 80لاکھ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کئے۔ لاہوریوں میں سے صرف 13ہزار 635 کاروباری لوگوں نے اپنے پورے مالی سال کی آمدنی میں سے 20کروڑ 10لاکھ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کرنے پراکتفا کیا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والے کاروباری لوگوں میں اضافے کی بجائے مسلسل کمی ہورہی ہے۔ ایف بی آر کے رکن ابرار احمد بتاتے ہیں کہ گزشتہ مالی سال کے دوران دس میں سے ایک کاروباری حضرات نے اپنی ٹیکس ریٹرنیں داخل کی ہیں۔ 2010 کے دوران تنخواہ دار طبقے سے باہر کے پانچ لاکھ 33 ہزار پانچ سو 84کاروباری حضرات نے ٹیکسوں کے گوشوارے داخل کئے ہیں۔ ان میں سے صرف 64ہزار 250نے اپنے کاروبار کو نفع بخش تسلیم کیا ہے اور ایک اعشاریہ چار ارب روپے بطور ٹیکس ادا کئے ہیں۔ بعض بڑے بڑے کاروباری ادارے اور صنعتوں کے بڑے نام اس فہرست میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ باقی ماندہ گوشوارے داخل کرنے والے 72ہزار چار سو 36انکم ٹیکس کی شکل میں کچھ دینے کی بجائے لینے کا موقف اختیار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے حصے سے زیادہ ٹیکس ادا کرچکے ہیں۔ انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے 3ارب روپے واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان اعداد و شمار سے پاکستان میں ٹیکس کلچر کی پذیرائی کی مایوس کن صورتحال کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کو غریب لوگوں کا امیر ملک کیوں کہا جاتا ہے اور پاکستان امیر لوگوں کا غریب ملک کیوں کہلاتا ہے۔ پاکستان میں 9 فیصد لوگ محصولات اداکرتے ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب 16 فیصدی سے 18 فیصدی تک ہے۔ پاکستان کے لوگ اگر اپنے تمام محصولات ادا کردیں تو غیرملکی امداد اور قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سہیل احمدکہتے ہیں کہ وطن عزیزکے قوانین انہیں ٹیکس چوری کرنے اور چھپانے والوں کوگرفتار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ قومی اسمبلی کی مالیات کی سٹینڈنگ کمیٹی کی سابق چیئرپرسن فوزیہ وہاب بھی اعتراف کرتی ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا سوائے ان کے جن کا ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ یہی معروضی سچائی اور زمینی حقیقت ہے۔ ابرار احمد کاکہنا ہے کہ اس کے باوجود کہ پاکستان کے حکمران کاروباری عناصر کو ٹیکسوں کے جال کے اندر لانا چاہتے ہیں مگر حکومت کے اندراور باہر کے مخالفین حکومتی ریونیو بڑھانے کی کسی کوشش کا ساتھ دیتے دکھائی نہیں دیتے ”آر جی ایس ٹی“ کا نفاذ بھی ایک ایسی ہی کوشش ہے جو اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ریونیو کے شعبے سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ موجودہ سسٹم کے تحت کرپشن کا خاتمہ دیوانے کا خواب ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی بشریٰ گوہر کہتی ہیں کہ ٹیکسوں کے اعداد و شمار تمام فوجی جرنیلوں، جج صاحبان، ارکان پارلیمینٹ کے نوٹس میں لائے جانے چاہئیں تاکہ ملک کے تمام طبقے اور لوگ ان سے آگاہ ہوسکیں۔ بشریٰ کے مطابق لوگ ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں بشرطیکہ انہیں ان ٹیکسوں کا صحیح، مناسب اور موزوں استعمال دکھائی دے رہا ہو اور ٹیکس سے جمع ہونے والی رقوم بددیانتی کے عفریت سے محفوظ رکھی جائیں۔
انکم ٹیکس کے علاقائی دفاتر سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں 7964 لوگوں نے ایک کروڑ 20لاکھ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کئے۔ بہاولپور میں 123 ٹیکس دہندگان نے ایک کروڑ 50 لاکھ کاٹیکس ادا کیا۔ فیصل آباد سے 6097 لوگوں سے چار کروڑ 90ہزار روپے کا انکم ٹیکس وصول ہوا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے۔ گوجرانوالہ سے گزشتہ مالی سال میں ایک ہزار 598 ٹیکس ادا کرنے والوں سے ایک کروڑ 10لاکھ روپے وصول کئے گئے۔ حیدرآباد کے 2511 ٹیکس دینے والوں نے 2کروڑ 90لاکھ روپے ادا کئے۔ اسلام آباد کے 2511 کاروباری لوگوں نے اپنے آپ کو انکم ٹیکس ادا کرنے کے قابل پایا اور 93لاکھ روپے کا ٹیکس ادا کیا۔ ملتان میں 6770 لوگوں نے ساڑھے 4کروڑ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کئے۔ پشاور کے 2012 کاروباری لوگوں نے 3کروڑ 60 لاکھ روپے بطور ٹیکس ادا کئے۔ کوئٹہ کے 477ٹیکس دہندگان نے ایک ارب 29کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کیا۔ کراچی میں صرف 16ہزار 299 کاروباری حضرات نے 66کروڑ 80لاکھ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کئے۔ لاہوریوں میں سے صرف 13ہزار 635 کاروباری لوگوں نے اپنے پورے مالی سال کی آمدنی میں سے 20کروڑ 10لاکھ روپے بطور انکم ٹیکس ادا کرنے پراکتفا کیا۔