ٹیکنالوجی اور ہم۔۔

ہمارے غیر ملکی رشتے دار تو جب پاکستان آتے ہیں تو خاندان میں سے ہی کسی کے گھر ٹہرتے ہیں۔ جن کے اپنے یہاں گھر ہیں تو رات گزارنے تو جاتے ہیں پر ما شاء اللہ سے صبح سے کسی کے بھی گھر آجاتے ہیں۔ کھانا پینا تو ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے۔

جن کو ملنا ہوتا ہے تو ضرور ملتے ہیں :) اصل دوریاں تو دل برائیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جب اپنا اپنے کی کاٹ کرتا ہے۔ جب کوئی بہن بھائی ایک دوسرے کی جائیداد ہڑپ کر جاتا ہے یا کسی بیوہ بھابھی حق دبا کر بیٹھ جاتا ہے۔
ماشاہ اللہ اللہ ہمشیہ ایسا ہی پیار مبہت رکھے۔۔۔
 
ہمارے غیر ملکی رشتے دار تو جب پاکستان آتے ہیں تو خاندان میں سے ہی کسی کے گھر ٹہرتے ہیں۔ جن کے اپنے یہاں گھر ہیں تو رات گزارنے تو جاتے ہیں پر ما شاء اللہ سے صبح سے کسی کے بھی گھر آجاتے ہیں۔ کھانا پینا تو ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے۔

جن کو ملنا ہوتا ہے تو ضرور ملتے ہیں :) اصل دوریاں تو دل برائیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ جب اپنا اپنے کی کاٹ کرتا ہے۔ جب کوئی بہن بھائی ایک دوسرے کی جائیداد ہڑپ کر جاتا ہے یا کسی بیوہ بھابھی کا حق دبا کر بیٹھ جاتا ہے۔
ایسا ہی ہے۔
بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان بھر سے ہمارے رشتہ دار ہمارے گھر کو بیس کیمپ بنا کر ناردرن ایریاز کی سیر کو نکل جاتے تھے۔ ہمارا جانا بہت بعد میں ہوا۔ :)
اب بھی ایسا ہی ہے۔
بلکہ رشتہ داروں کے رشتہ داروں کے لیے بھی ہمارا گھر حاضر رہتا ہے۔ :)
 

سین خے

محفلین
اصل بات رابطہ رہنے کی نہین ھے،اصل بات مبٰت

اصل بات رابطہ رکھنے کی نہیں ھے ۔۔اصل بات دلوں مین مبہت کی ھے۔پہلےاور مہنیوں کے بعد خط آتا تھا ۔لیکن ہر دن شدت سے انتظار رہتا تھا۔اب مین نے اکثر دیکھا ھے اپنی آنکحون سے کہ اپ کا کوہی رشتہ دار باہر رہتا ھے۔اور وہ دن مین تیسری یا چوتھی دفعہ فون کرے تو گھر مین سے کوہی سننا گواراہ نہیں کرتا۔

فون فوراً ریسیو نہ کرنے کے پیچھے تو مصروفیت کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری بات آپ غور کیجئے گا اگر کوئی اپنے کسی رشتے دار سے چڑتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی بہت بھیانک کہانی بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی کسی کی وجہ سے کتنی تکلیف اٹھاتا ہے اس کو سمجھنا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے :)
 

نایاب

لائبریرین
محترم عندلیب راجہ بٹیا
بلا شک اک اچھی تحریر
اور اس پر آنے والے تبصروں پر آپ کی متاثر کن گفتگو
ماشاء اللہ
اللہ کرے زور قلم و علم اور زیادہ آمین
بہت دعائیں
 
محترم عندلیب راجہ بٹیا
بلا شک اک اچھی تحریر
اور اس پر آنے والے تبصروں پر آپ کی متاثر کن گفتگو
ماشاء اللہ
اللہ کرے زور قلم و علم اور زیادہ آمین
بہت دعائیں
جزاک الللہ میں نے تو پہلی دفعہ لکھا ھے اور جو اپنے ادھر گرد دیکھا اس کو لکھ دیا۔۔میرے پاس تو کوہی خاص علم کا خزانہ بھی نہیں ھے۔۔
 
فون فوراً ریسیو نہ کرنے کے پیچھے تو مصروفیت کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری بات آپ غور کیجئے گا اگر کوئی اپنے کسی رشتے دار سے چڑتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی بہت بھیانک کہانی بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی کسی کی وجہ سے کتنی تکلیف اٹھاتا ہے اس کو سمجھنا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے :)
ہو سکتا ھے۔۔مین جو محسوس کیا جو اپنے اردگرد ہوتے دیکھا وہ لکھا دیا۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ انسان زمانے کو برا بھلا کہتا ھے جبکہ میں
زمانے کو بدلتا رہتا ہوں۔زمانے کو برا کہنا غلط ہے۔
تو پھر ہم ٹیکنالوجی کو برا کیوں کہہ رہے ہیں؟ جب کہ ٹیکنالوجی زمانے ہی کا حصہ ہے اور زمانے کو اللہ تعالیٰ ہی نے بدلا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اصل بات رابطہ رہنے کی نہین ھے،اصل بات مبٰت

اصل بات رابطہ رکھنے کی نہیں ھے ۔۔اصل بات دلوں مین مبہت کی ھے۔پہلےاور مہنیوں کے بعد خط آتا تھا ۔لیکن ہر دن شدت سے انتظار رہتا تھا۔اب مین نے اکثر دیکھا ھے اپنی آنکحون سے کہ اپ کا کوہی رشتہ دار باہر رہتا ھے۔اور وہ دن مین تیسری یا چوتھی دفعہ فون کرے تو گھر مین سے کوہی سننا گواراہ نہیں کرتا۔
آپ کے سوال کا جواب آپ کی اس بات ہی میں ہے۔

پہلے ٹیکنالوجی نہیں تھی، خبر اخبار بھی دنوں مہینوں میں پہنچتی تھی، دُور کے رشتہ داروں کو سالہا سال کے بعد دیکھتے اور ملتے تھے، ایک دوسرے کے مہمان بنتے تھے۔

اب آپ روز سکائپ پر گپ شپ بھی لگا رہے ہوں، فون پر بات بھی ہو رہی ہو، حال احوال سب کی منٹ منٹ کی خبر بھی ہو اور پھر ایک شہر سے اُٹھ کر دوسرے شہر پہنچ جاؤ کہ ملنے آئے ہیں، خیریت دریافت کرنے آئے ہیں اور پھر وہاں مہمان بن کر دنوں ہفتوں پڑے بھی رہو تو میزبان کو کوفت ہونا لازمی سی بات ہے!
 
تو پھر ہم ٹیکنالوجی کو برا کیوں کہہ رہے ہیں؟ جب کہ ٹیکنالوجی زمانے ہی کا حصہ ہے اور زمانے کو اللہ تعالیٰ ہی نے بدلا ہے۔
برا تو نہیں کہ رہے بس ہم اس کا استعال میں اتنے مصرف ہو جاتے ہیں۔کہ اپنے قریب بیٹھے ہوے لوگوں کا خیال نہیں رہتا کہ شاید ان کو ہماری زیادہ ضرورت ھے۔
 
آپ کے سوال کا جواب آپ کی اس بات ہی میں ہے۔

پہلے ٹیکنالوجی نہیں تھی، خبر اخبار بھی دنوں مہینوں میں پہنچتی تھی، دُور کے رشتہ داروں کو سالہا سال کے بعد دیکھتے اور ملتے تھے، ایک دوسرے کے مہمان بنتے تھے۔

اب آپ روز سکائپ پر گپ شپ بھی لگا رہے ہوں، فون پر بات بھی ہو رہی ہو، حال احوال سب کی منٹ منٹ کی خبر بھی ہو اور پھر ایک شہر سے اُٹھ کر دوسرے شہر پہنچ جاؤ کہ ملنے آئے ہیں، خیریت دریافت کرنے آئے ہیں اور پھر وہاں مہمان بن کر دنوں ہفتوں پڑے بھی رہو تو میزبان کو کوفت ہونا لازمی سی بات ہے!
جی بجا فرمایا اپ نے
 
جزاک الللہ میں نے تو پہلی دفعہ لکھا ھے اور جو اپنے ادھر گرد دیکھا اس کو لکھ دیا۔۔میرے پاس تو کوہی خاص علم کا خزانہ بھی نہیں ھے۔۔
بلکہ ابھی تو اردو بھی اچھی سے لکھی نہیںجا رہی۔اپ کی دعاوں کا بہت شکریہ۔اپ جیسے لوگوں کا ساتھ رہا تو انشاہ اللہ بہت جلد اپنے لکھنے مین روانی پیدا کر لوں گی۔۔
 

سید عمران

محفلین
ٹیکنالوجی ہو یا کوئی اور وجہ۔۔۔
ماضی قریب اور حال کے عمومی انسانی رویوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔۔۔
ہمیں اپنے بچپن کا ماحول یاد ہے جب مال داروں میں اپنی دولت کا تفاخر اور غریب رشتے داروں کو حقیر سمجھنے کا رجحان نہایت کم تھا۔۔۔
کتنے امیروں کو دیکھا کہ غریب رشتے داروں کے یہاں جارہے ہیں، ہنس بول رہے ہیں، ساتھ کھا پی رہے ہیں اور واضح طبقاتی فرق کو درمیان میں آنے نہیں دے رہے ۔۔۔
کم تھے ایسے لوگ جو دولت کے نشے میں منہ بنا کر کم حیثیت رشتے داروں سے نہیں ملتے تھے۔۔۔
لیکن آج کتنے لوگوں کو دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دولت مند بن گئے اور سگے بہن بھائیوں سے جن کے ساتھ چند برس قبل تک دانت کاٹی روٹی کا تعلق تھا، ان کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا رویہ اختیار کیا جو دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔اتنی نفرتیں، اتنی کدورتیں ، اتنا بغض پہلے نہیں دیکھا۔
اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ پہلے میل جول، آنا جانا، ایک دوسرے سے ملنا آج کی بہ نسبت بہت تھا۔ اگر غیبتیں بھی کرتے تھے جو بہرحال پسندیدہ نہیں تو ایک دوسرے کے ذرا سے دُکھ درد میں، پریشانی میں اس کی مدد کرنے ایک پیر پر کھڑے بھی ہوجاتے تھے۔
دوسروں کی خوشیوں میں بھی دل سے شریک ہوتے تھے، ہر کوئی اپنے ذمہ کام لے لیتا تھا۔کچھ اہم کام خاندان کے بڑے بھی دوسروں کے ذمہ لگاتے تھے جسے وہ نہایت خوشی دلی قبول کرتے تھے۔
آج خاندان میں کسی کو بڑا نہیں سمجھا جاتا، ہر ایک اپنا کام خود کرے،کوئی کسی کے کام نہیں آتا۔نہ کسی سے تکرار، نہ محبت کا اقرار اور ہر ایک ہوگیا تنہائی کا شکار۔۔۔
الا ماشاء اللہ!!!
 

سید عمران

محفلین
فون فوراً ریسیو نہ کرنے کے پیچھے تو مصروفیت کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ دوسری بات آپ غور کیجئے گا اگر کوئی اپنے کسی رشتے دار سے چڑتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی بہت بھیانک کہانی بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی کسی کی وجہ سے کتنی تکلیف اٹھاتا ہے اس کو سمجھنا ذرا مشکل ہی ہوتا ہے :)
ہمیشہ یہی صورت حال نہیں ہوتی۔۔۔
خصوصاً آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلا کسی کدورت کے ایک دوسرے سے ملنا پسند نہیں کیا جارہا۔۔۔
مثلاً کوئی اپنے بیٹے سے کہے کہ خالہ کے یا ماموں کے یا پھپھو کے گھر جانا ہے تو انتہائی بے زاری سے منہ بسور کر کہا جاتا ہے کہ میں نہیں جارہا۔۔۔
وجہ؟؟؟
بور ہوتا ہوں۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یعنی سگی خالہ کی محبت، ان سے قلبی تعلق یہ سب کیا ہوا؟؟؟
 

سین خے

محفلین
ہمیشہ یہی صورت حال نہیں ہوتی۔۔۔
خصوصاً آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلا کسی کدورت کے ایک دوسرے سے ملنا پسند نہیں کیا جارہا۔۔۔
مثلاً کوئی اپنے بیٹے سے کہے کہ خالہ کے یا ماموں کے یا پھپھو کے گھر جانا ہے تو انتہائی بے زاری سے منہ بسور کر کہا جاتا ہے کہ میں نہیں جارہا۔۔۔
وجہ؟؟؟
بور ہوتا ہوں۔۔۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یعنی سگی خالہ کی محبت، ان سے قلبی تعلق یہ سب کیا ہوا؟؟؟

آپ کی بات بھی درست ہے عمران بھائی :) ایسا بھی دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔
ویسے میرا اپنا ذاتی تجربہ یہ بھی ہے کچھ بڑوں کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور طعنے تشنے دینے کی عادت بھی ایک وجہ ہوتی ہے۔
ابھی رمضان میں میرے ماموں زاد بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ اس کی اتنی غلطی نہیں تھی۔ پر دوسری پارٹی کی گالم گلوچ اور ہاتھ کا استعمال اس سے برداشت نہیں ہوا اور وہ بھی اس سب کاروائی کا جواب دے بیٹھا۔ بات تھانے تک پہنچ گئی۔ سب نے ہی اس کو خوب سنائیں۔ خاندان کی کچھ خواتین اور ہم بہنیں اس کے لئے پریشان رہے اور آنسو بہاتے رہے۔ ویک اینڈ پر میں نے اس کی خاطر اس کی پسند کے ڈنر کا اہتمام کیا پر وہ اتنا ناراض تھا کہ وہ آیا ہی نہیں اور وجہ یہ تھی کہ باقی لوگوں سے وہ باتیں سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔
 

سید عمران

محفلین
آپ کی بات بھی درست ہے عمران بھائی :) ایسا بھی دیکھنے میں آتا رہتا ہے۔
ویسے میرا اپنا ذاتی تجربہ یہ بھی ہے کچھ بڑوں کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور طعنے تشنے دینے کی عادت بھی ایک وجہ ہوتی ہے۔
ابھی رمضان میں میرے ماموں زاد بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ اس کی اتنی غلطی نہیں تھی۔ پر دوسری پارٹی کی گالم گلوچ اور ہاتھ کا استعمال اس سے برداشت نہیں ہوا اور وہ بھی اس سب کاروائی کا جواب دے بیٹھا۔ بات تھانے تک پہنچ گئی۔ سب نے ہی اس کو خوب سنائیں۔ خاندان کی کچھ خواتین اور ہم بہنیں اس کے لئے پریشان رہے اور آنسو بہاتے رہے۔ ویک اینڈ پر میں نے اس کی خاطر اس کی پسند کے ڈنر کا اہتمام کیا پر وہ اتنا ناراض تھا کہ وہ آیا ہی نہیں اور وجہ یہ تھی کہ باقی لوگوں سے وہ باتیں سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔
جی ایسا بھی ہوتا ہے۔۔۔
لیکن یہ عارضی صورت حال ہوتی ہے۔۔۔
بعض مرتبہ امتحان میں اچھے نمبر نہ آنے پر بھی بچے منہ چھپائے پھرتے ہیں۔۔۔
لیکن پھر بعد میں سب صحیح ہوجاتا ہے۔۔۔
ہم بات کررہے ہیں عمومی و دائمی مردم بے زاری کی!!!
 
ویسے میرا اپنا ذاتی تجربہ یہ بھی ہے کچھ بڑوں کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور طعنے تشنے دینے کی عادت بھی ایک وجہ ہوتی ہے۔
بڑے بھی تو اب وہ بڑے نہیں رہے۔ :)

گھر میں اسی قسم کی ڈسکشن چل رہی تھی کہ آج کل اپنے بچے کو کوئی دوسرا ڈانٹ دے تو ہم برا مان جاتے ہیں۔ تو ابو نے دادا کا بتایا ہوا قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ان کے والد کے کوئی دوست پہلی دفعہ گھر آئے۔ دادا لڑکپن میں تھے اس وقت۔
ان مہمان کے قریب بیٹھے ٹانگ ہلا رہے تھے۔ بزرگ نے ایک دفعہ ٹوکا۔ جب دوبار ہ ٹانگ ہلائی تو انھوں نے اپنی لاٹھی سے ٹانگ پر مارا۔ اس وقت بزرگ سانجھے ہوتے تھے۔ میرا تیرا نہ ہوتاتھا۔ :)
اب تو خاندانوں میں اکثر لڑائی بھی بچوں کی وجہ سے ہو جایا کرتی ہے۔ کہ میرے بچے کو یوں کہہ دیا۔
 

سین خے

محفلین
بڑے بھی تو اب وہ بڑے نہیں رہے۔ :)

گھر میں اسی قسم کی ڈسکشن چل رہی تھی کہ آج کل اپنے بچے کو کوئی دوسرا ڈانٹ دے تو ہم برا مان جاتے ہیں۔ تو ابو نے دادا کا بتایا ہوا قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ان کے والد کے کوئی دوست پہلی دفعہ گھر آئے۔ دادا لڑکپن میں تھے اس وقت۔
ان مہمان کے قریب بیٹھے ٹانگ ہلا رہے تھے۔ بزرگ نے ایک دفعہ ٹوکا۔ جب دوبار ہ ٹانگ ہلائی تو انھوں نے اپنی لاٹھی سے ٹانگ پر مارا۔ اس وقت بزرگ سانجھے ہوتے تھے۔ میرا تیرا نہ ہوتاتھا۔ :)
اب تو خاندانوں میں اکثر لڑائی بھی بچوں کی وجہ سے ہو جایا کرتی ہے۔ کہ میرے بچے کو یوں کہہ دیا۔

بالکل درست فرمایا تابش بھائی۔ ایک بات اور بھی تکلیف دہ دیکھنے میں آتی ہے کہ آجکل مقابلہ بازی اور حسد بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اگر کسی کا بچہ دوسروں کے بچوں سے زیادہ لائق اور تمیزدار ہے تو بڑے اپنے بچے کو زیادہ اچھا ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی الٹی سیدھی بات نکال کر بچے کو بے عزت اور بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب بچے بڑوں کو یہ کام کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی اپنے کزنز کے ساتھ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ دلوں کے درمیان فاصلے بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
 
Top