ٹیکنالوجی اور ہم۔۔

سید عمران

محفلین
بڑے بھی تو اب وہ بڑے نہیں رہے۔ :)
یہی بات ہے۔۔۔

گھر میں اسی قسم کی ڈسکشن چل رہی تھی کہ آج کل اپنے بچے کو کوئی دوسرا ڈانٹ دے تو ہم برا مان جاتے ہیں۔ تو ابو نے دادا کا بتایا ہوا قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ان کے والد کے کوئی دوست پہلی دفعہ گھر آئے۔ دادا لڑکپن میں تھے اس وقت۔
ان مہمان کے قریب بیٹھے ٹانگ ہلا رہے تھے۔ بزرگ نے ایک دفعہ ٹوکا۔ جب دوبار ہ ٹانگ ہلائی تو انھوں نے اپنی لاٹھی سے ٹانگ پر مارا۔ اس وقت بزرگ سانجھے ہوتے تھے۔ میرا تیرا نہ ہوتاتھا۔ :)
اب تو خاندانوں میں اکثر لڑائی بھی بچوں کی وجہ سے ہو جایا کرتی ہے۔ کہ میرے بچے کو یوں کہہ دیا۔
بچپن میں ہمیں ڈانٹنا خاندان بھر کے، محلے بھر کے، بلکہ ایرے غیرے بڑے بوڑھے کا آبائی فرض تھا۔۔۔
اور والدین خوش ہوتے تھے کہ اپنا سمجھتے ہیں جبھی سمجھاتے ہیں۔۔۔
آج تو سگی خالہ یا سگے چچا حتی کہ نانی یا دادی بھی بچوں کو ٹوک دے تو ماں باپ کو انسلٹ فیل ہوتا ہے۔۔۔
کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی تربیت ہر کوئی نہیں کرے گا، صرف ہم کریں گے!!!
 
آخری تدوین:
بالکل درست فرمایا تابش بھائی۔ ایک بات اور بھی تکلیف دہ دیکھنے میں آتی ہے کہ آجکل مقابلہ بازی اور حسد بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ اگر کسی کا بچہ دوسروں کے بچوں سے زیادہ لائق اور تمیزدار ہے تو بڑے اپنے بچے کو زیادہ اچھا ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی الٹی سیدھی بات نکال کر بچے کو بے عزت اور بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب بچے بڑوں کو یہ کام کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی اپنے کزنز کے ساتھ ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ دلوں کے درمیان فاصلے بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
اس پر فاخر رضا بھائی نے ایک اچھا آرٹیکل شیئر کیا تھا، اور اس پر بہت مفید گفتگو ہوئی تھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ٹیکنالوجی ہو یا کوئی اور وجہ۔۔۔
ماضی قریب اور حال کے عمومی انسانی رویوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔۔۔
ہمیں اپنے بچپن کا ماحول یاد ہے جب مال داروں میں اپنی دولت کا تفاخر اور غریب رشتے داروں کو حقیر سمجھنے کا رجحان نہایت کم تھا۔۔۔
کتنے امیروں کو دیکھا کہ غریب رشتے داروں کے یہاں جارہے ہیں، ہنس بول رہے ہیں، ساتھ کھا پی رہے ہیں اور واضح طبقاتی فرق کو درمیان میں آنے نہیں دے رہے ۔۔۔
کم تھے ایسے لوگ جو دولت کے نشے میں منہ بنا کر کم حیثیت رشتے داروں سے نہیں ملتے تھے۔۔۔
لیکن آج کتنے لوگوں کو دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دولت مند بن گئے اور سگے بہن بھائیوں سے جن کے ساتھ چند برس قبل تک دانت کاٹی روٹی کا تعلق تھا، ان کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا رویہ اختیار کیا جو دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔اتنی نفرتیں، اتنی کدورتیں ، اتنا بغض پہلے نہیں دیکھا۔
اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ پہلے میل جول، آنا جانا، ایک دوسرے سے ملنا آج کی بہ نسبت بہت تھا۔ اگر غیبتیں بھی کرتے تھے جو بہرحال پسندیدہ نہیں تو ایک دوسرے کے ذرا سے دُکھ درد میں، پریشانی میں اس کی مدد کرنے ایک پیر پر کھڑے بھی ہوجاتے تھے۔
دوسروں کی خوشیوں میں بھی دل سے شریک ہوتے تھے، ہر کوئی اپنے ذمہ کام لے لیتا تھا۔کچھ اہم کام خاندان کے بڑے بھی دوسروں کے ذمہ لگاتے تھے جسے وہ نہایت خوشی دلی قبول کرتے تھے۔
آج خاندان میں کسی کو بڑا نہیں سمجھا جاتا، ہر ایک اپنا کام خود کرے،کوئی کسی کے کام نہیں آتا۔نہ کسی سے تکرار، نہ محبت کا اقرار اور ہر ایک ہوگیا تنہائی کا شکار۔۔۔
الا ماشاء اللہ!!!

میرے نزدیک اس کی وجہ دین سے دوری بھی ہے۔

  • اسلام حلال حرام کی تمیز سکھاتا ہے ، اور اس کا خیال رکھنے سے آپ کے پاس ایسا مال نہیں آتا کہ آپ کو اپنے پرائے اور اچھے برے کی تمیز ہی ختم ہو جائے۔
  • مال کی بہت زیادہ محبت اسلام میں پسند نہیں کی جاتی۔ مال کی محبت سے ہی انسان میں لالچ ، بخیلی ، ہوس جیسے اسفل جذبے فروغ پاتے ہیں ۔ اور انسان معاملات میں کجی دکھانے لگتا ہے اور خود سے کم تر لوگوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔
  • اسلام اعتدال کا حکم دیتا ہے لیکن نت نئی آسائشوں کے حصول کی خاطر انسان مال کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور نتیجتاً اعتدال و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے ۔
  • اسلام عزیز و اقارب یہاں تک کے پڑوسیوں کے حقوق پر زور دیتا ہے۔ اور تھوڑی بہت کوشش سے قربتیں بڑھتیں ہیں۔
  • اسلام صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے، یعنی جو رشتے دار آپ سے رابطہ توڑے آپ اللہ کی رضا کے لئے اُس سے رابطہ جوڑیں۔
  • مسلمان جو بھی نیکی کسی دوست رشتے دار کے ساتھ کرتا ہے اُس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اجر اُسے اللہ سے ملے گا ۔ لیکن جب یہ عقیدہ کمزور ہو جاتا ہے تو انسان نیکی کرکے لوگوں سے اس کا صلہ چاہنے لگتا ہے اور صلہ نہ ملنے پر وہ تمام تر اچھے معاملات سے ہاتھ اُٹھا لیتا ہے۔
  • اسلام خوش اخلاقی کی تعلیم دیتا ہے۔ حفظ مراتب سکھاتا ہے ۔

سو جب ہم اسلام سے دور ہوتے ہیں تو بہت سی اچھی باتوں سے دور ہو جاتے ہیں نتیجتاً بہت سے معاملات میں توازن کھو بیٹھتے ہیں اور ہمیں کئی شکلوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 

سین خے

محفلین

سید عمران

محفلین
میرے نزدیک اس کی وجہ دین سے دوری بھی ہے۔

  • اسلام حلال حرام کی تمیز سکھاتا ہے ، اور اس کا خیال رکھنے سے آپ کے پاس ایسا مال نہیں آتا کہ آپ کو اپنے پرائے اور اچھے برے کی تمیز ہی ختم ہو جائے۔
  • مال کی بہت زیادہ محبت اسلام میں پسند نہیں کی جاتی۔ مال کی محبت سے ہی انسان میں لالچ ، بخیلی ، ہوس جیسے اسفل جذبے فروغ پاتے ہیں ۔ اور انسان معاملات میں کجی دکھانے لگتا ہے اور خود سے کم تر لوگوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔
  • اسلام اعتدال کا حکم دیتا ہے لیکن نت نئی آسائشوں کے حصول کی خاطر انسان مال کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور نتیجتاً اعتدال و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے ۔
  • اسلام عزیز و اقارب یہاں تک کے پڑوسیوں کے حقوق پر زور دیتا ہے۔ اور تھوڑی بہت کوشش سے قربتیں بڑھتیں ہیں۔
  • اسلام صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے، یعنی جو رشتے دار آپ سے رابطہ توڑے آپ اللہ کی رضا کے لئے اُس سے رابطہ جوڑیں۔
  • مسلمان جو بھی نیکی کسی دوست رشتے دار کے ساتھ کرتا ہے اُس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اجر اُسے اللہ سے ملے گا ۔ لیکن جب یہ عقیدہ کمزور ہو جاتا ہے تو انسان نیکی کرکے لوگوں سے اس کا صلہ چاہنے لگتا ہے اور صلہ نہ ملنے پر وہ تمام تر اچھے معاملات سے ہاتھ اُٹھا لیتا ہے۔
  • اسلام خوش اخلاقی کی تعلیم دیتا ہے۔ حفظ مراتب سکھاتا ہے ۔

سو جب ہم اسلام سے دور ہوتے ہیں تو بہت سی اچھی باتوں سے دور ہو جاتے ہیں نتیجتاً بہت سے معاملات میں توازن کھو بیٹھتے ہیں اور ہمیں کئی شکلوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اصل فساد کی جڑ دین سے دوری ہے۔۔۔
لوگ صرف عبادات کو دین سمجھتے ہیں۔۔۔
نماز، روزہ، تسبیح، تلاوت بھی ہورہی ہے اور زبان سے غیبت اور گالیاں بھی۔۔۔
ابھی جس منہ سے اللہ کا نام لیا اسی سے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں۔۔۔
عبادات تو دین کا تقریباً پچیس فیصدہے۔۔۔
باقی پچھتر فیصد میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان انسان بن کر رہنے کی تلقین بھی کی ہے اور اپنے رسول کے ذریعے تربیت بھی کی ہے۔۔۔
رشتے داروں سے تعلق کی بات کی جائے تو ایک حدیث ہے کہ جو تم سے توڑے اس سے جوڑو، جو تم کو محروم کرے اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے درگزر کرتے رہو۔۔۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ رشتے داری نبھانے کے لیے اسی ایک حدیث پر عمل کرلیں تو بے شمار معاملات سلجھ جائیں گے۔۔۔
کسی بات پر رشتے دار روٹھ گئے چاہے غلطی ہماری نہ بھی ہو لیکن اب ہم ہی اسے منانے اور سمجھانے جائیں تو نفس پر کتنا بھاری گزرتا ہے۔ اس کو وہی جانتے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ ورنہ عموماً لوگ یہی کہتے ہیں تم روٹھے ہم چھوٹے۔
اب حدیث کا دوسرا حصہ دیکھیں۔ ہمیں پتا چلا کہ فلاں نے اپنی کسی تقریب میں ہمیں نہیں بلایا ، یا فلاں کے بچوں کو اتنا دیا اور جب ہمارے بچوں کا موقع آیا تو کچھ نہ دیا۔ اس پر عام رجحان یہ ہوتا ہے کہ اب ہم بھی اپنی کسی تقریب میں اسے نہیں بلائیں گے یا اس کے بچوں کو کچھ نہ دیں گے۔
کتنے لوگ ہیں جو دل کے نہ چاہتے ہوئے بھی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی لاج رکھتے ہوئے ان کو بلاتے بھی ہیں اور دینا دلانے بھی کرتے رہتے ہیں۔
اور حدیث کا تیسرا حصہ۔۔۔ اف خدایا۔۔۔ اس نے بھری دعوت میں ہماری بے عزتی کردی، ہماری انا، ہماری عزت نفس مجروح کی، اب دیکھنا اس کی ایسی تیسی نہ کی، اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا، ایک کی دس نہ سنائیں تو میرا نام نہیں۔
کون ہے جو لوگوں کی کڑوی کسیلی سنے اور اس پر صبر کی جزا آخرت کے لیے رکھ چھوڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو دل ہی دل میں دہرا لے کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو، درگزر کرو، چھوڑو جانے دو کہتا رہے۔
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخرت میں بھی کچھ لے کر جانا ہے، سارے کا سارا حساب یہیں برابر نہیں کرنا ہے۔
دنیا میں تھوڑا سا ظلم سہہ لیں اور مظلوم بن کر رہ لیں۔ یاد رکھیں آخرت کا میدان مظلوموں کے ہاتھ میں ہے!!!
 

زیک

مسافر
غلطی سے اوپی کی پروفائل پر کلک کر دیا۔ وہ اپنے بچپن کو بہتر زمانہ قرار دے رہی ہیں۔ لیکن وہ تو ہماری جوانی کا وقت تھا۔ پس ثابت ہوا کہ ہم بہتر لوگ تھے۔ بس یہ آجکل کے بچے۔۔۔
 
ٹیکنالوجی ہو یا کوئی اور وجہ۔۔۔
ماضی قریب اور حال کے عمومی انسانی رویوں میں واضح فرق نظر آتا ہے۔۔۔
ہمیں اپنے بچپن کا ماحول یاد ہے جب مال داروں میں اپنی دولت کا تفاخر اور غریب رشتے داروں کو حقیر سمجھنے کا رجحان نہایت کم تھا۔۔۔
کتنے امیروں کو دیکھا کہ غریب رشتے داروں کے یہاں جارہے ہیں، ہنس بول رہے ہیں، ساتھ کھا پی رہے ہیں اور واضح طبقاتی فرق کو درمیان میں آنے نہیں دے رہے ۔۔۔
کم تھے ایسے لوگ جو دولت کے نشے میں منہ بنا کر کم حیثیت رشتے داروں سے نہیں ملتے تھے۔۔۔
لیکن آج کتنے لوگوں کو دیکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دولت مند بن گئے اور سگے بہن بھائیوں سے جن کے ساتھ چند برس قبل تک دانت کاٹی روٹی کا تعلق تھا، ان کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا رویہ اختیار کیا جو دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔اتنی نفرتیں، اتنی کدورتیں ، اتنا بغض پہلے نہیں دیکھا۔
اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ پہلے میل جول، آنا جانا، ایک دوسرے سے ملنا آج کی بہ نسبت بہت تھا۔ اگر غیبتیں بھی کرتے تھے جو بہرحال پسندیدہ نہیں تو ایک دوسرے کے ذرا سے دُکھ درد میں، پریشانی میں اس کی مدد کرنے ایک پیر پر کھڑے بھی ہوجاتے تھے۔
دوسروں کی خوشیوں میں بھی دل سے شریک ہوتے تھے، ہر کوئی اپنے ذمہ کام لے لیتا تھا۔کچھ اہم کام خاندان کے بڑے بھی دوسروں کے ذمہ لگاتے تھے جسے وہ نہایت خوشی دلی قبول کرتے تھے۔
آج خاندان میں کسی کو بڑا نہیں سمجھا جاتا، ہر ایک اپنا کام خود کرے،کوئی کسی کے کام نہیں آتا۔نہ کسی سے تکرار، نہ محبت کا اقرار اور ہر ایک ہوگیا تنہائی کا شکار۔۔۔
الا ماشاء اللہ!!!
بہت اچھی بات کی اپ نے۔۔میرے خیال میں تو ہم اب فون پر غیبت زیادہ کرتے ہیں۔
 
ٹیکنالوجی کے فوائد بہت زیادہ ہیں اور ابھی اس معاملے میں ہم نے مزید بڑھوتری کی طرف ہی جانا ہے، اس میدان میں تنزلی یا تنزلی کی خواہش کوئی احسن شے نہیں.

لیکن میرے نزدیک مسئلہ فقط یہ ہے کہ ہم نے اپنی روحانی بڑھوتری پر توجہ دینی چھوڑ دی ہے. جتنی ضروری ہماری مادی نشوونما اور مادی چیلنجز کو لینا اور ان کے لیے کوشش کرنا ہے بالکل اتنی ہی روحانی نشوونما پر توجہ اہم ہے ورنہ جس طرح روح کے بغیر ہم مردہ ہیں اسی طرح روح کی آواز، ضروریات، سکون اور نشوونما کو نظرانداز کر کے ہم کوئی احسن اقدام نہیں کر رہے اور جنہیں ہم ٹیکنالوجی کے نقصانات سمجھتے ہیں ان میں سے اکثر کے پیچھے وجہ دراصل یہ ہوا کرتی ہے. :)
 
غلطی سے اوپی کی پروفائل پر کلک کر دیا۔ وہ اپنے بچپن کو بہتر زمانہ قرار دے رہی ہیں۔ لیکن وہ تو ہماری جوانی کا وقت تھا۔ پس ثابت ہوا کہ ہم بہتر لوگ تھے۔ بس یہ آجکل کے بچے۔۔۔
آج کے بچوں کی تربیت سے متعلق میرے ساتھ ایک اور واقعہ پیش ایا ھے۔میں اس پر لکھنا چاہ رہی تھی لیکن وقت نہیں ملا۔انشاہ اللہ کوشیش کروں گی کہ جلدی لکھ سکون۔
 

سید عمران

محفلین
ٹیکنالوجی کے فوائد بہت زیادہ ہیں اور ابھی اس معاملے میں ہم نے مزید بڑھوتری کی طرف ہی جانا ہے، اس میدان میں تنزلی یا تنزلی کی خواہش کوئی احسن شے نہیں.

لیکن میرے نزدیک مسئلہ فقط یہ ہے کہ ہم نے اپنی روحانی بڑھوتری پر توجہ دینی چھوڑ دی ہے. جتنی ضروری ہماری مادی نشوونما اور مادی چیلنجز کو لینا اور ان کے لیے کوشش کرنا ہے بالکل اتنی ہی روحانی نشوونما پر توجہ اہم ہے ورنہ جس طرح روح کے بغیر ہم مردہ ہیں اسی طرح روح کی آواز، ضروریات، سکون اور نشوونما کو نظرانداز کر کے ہم کوئی احسن اقدام نہیں کر رہے اور جنہیں ہم ٹیکنالوجی کے نقصانات سمجھتے ہیں ان میں سے اکثر کے پیچھے وجہ دراصل یہ ہوا کرتی ہے. :)
ٹیکنالوجی کے فوائد تو بے شک بہت ہیں۔۔۔
لیکن یہاں اس کے غلط اور بے جا استعمال کے نقصانات میں سے ایک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔۔
اور اس نقصان سے بچنے کا ایک حل آپ نے بھی بتادیا !!!
 
ٹیکنالوجی کے فوائد تو بے شک بہت ہیں۔۔۔
لیکن یہاں اس کے غلط اور بے جا استعمال کے نقصانات میں سے ایک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔۔۔
اور اس نقصان سے بچنے کا ایک حل آپ نے بھی بتادیا !!!
اپ کے پسند کرنے کا شکریہ۔۔
 
ٹیکنالوجی کے فوائد بہت زیادہ ہیں اور ابھی اس معاملے میں ہم نے مزید بڑھوتری کی طرف ہی جانا ہے، اس میدان میں تنزلی یا تنزلی کی خواہش کوئی احسن شے نہیں.

لیکن میرے نزدیک مسئلہ فقط یہ ہے کہ ہم نے اپنی روحانی بڑھوتری پر توجہ دینی چھوڑ دی ہے. جتنی ضروری ہماری مادی نشوونما اور مادی چیلنجز کو لینا اور ان کے لیے کوشش کرنا ہے بالکل اتنی ہی روحانی نشوونما پر توجہ اہم ہے ورنہ جس طرح روح کے بغیر ہم مردہ ہیں اسی طرح روح کی آواز، ضروریات، سکون اور نشوونما کو نظرانداز کر کے ہم کوئی احسن اقدام نہیں کر رہے اور جنہیں ہم ٹیکنالوجی کے نقصانات سمجھتے ہیں ان میں سے اکثر کے پیچھے وجہ دراصل یہ ہوا کرتی ہے. :)
بہت خوبصورت بات کی اپ نے۔۔۔
 
اصل فساد کی جڑ دین سے دوری ہے۔۔۔
لوگ صرف عبادات کو دین سمجھتے ہیں۔۔۔
نماز، روزہ، تسبیح، تلاوت بھی ہورہی ہے اور زبان سے غیبت اور گالیاں بھی۔۔۔
ابھی جس منہ سے اللہ کا نام لیا اسی سے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں۔۔۔
عبادات تو دین کا تقریباً پچیس فیصدہے۔۔۔
باقی پچھتر فیصد میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان انسان بن کر رہنے کی تلقین بھی کی ہے اور اپنے رسول کے ذریعے تربیت بھی کی ہے۔۔۔
رشتے داروں سے تعلق کی بات کی جائے تو ایک حدیث ہے کہ جو تم سے توڑے اس سے جوڑو، جو تم کو محروم کرے اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے درگزر کرتے رہو۔۔۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ رشتے داری نبھانے کے لیے اسی ایک حدیث پر عمل کرلیں تو بے شمار معاملات سلجھ جائیں گے۔۔۔
کسی بات پر رشتے دار روٹھ گئے چاہے غلطی ہماری نہ بھی ہو لیکن اب ہم ہی اسے منانے اور سمجھانے جائیں تو نفس پر کتنا بھاری گزرتا ہے۔ اس کو وہی جانتے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ ورنہ عموماً لوگ یہی کہتے ہیں تم روٹھے ہم چھوٹے۔
اب حدیث کا دوسرا حصہ دیکھیں۔ ہمیں پتا چلا کہ فلاں نے اپنی کسی تقریب میں ہمیں نہیں بلایا ، یا فلاں کے بچوں کو اتنا دیا اور جب ہمارے بچوں کا موقع آیا تو کچھ نہ دیا۔ اس پر عام رجحان یہ ہوتا ہے کہ اب ہم بھی اپنی کسی تقریب میں اسے نہیں بلائیں گے یا اس کے بچوں کو کچھ نہ دیں گے۔
کتنے لوگ ہیں جو دل کے نہ چاہتے ہوئے بھی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی لاج رکھتے ہوئے ان کو بلاتے بھی ہیں اور دینا دلانے بھی کرتے رہتے ہیں۔
اور حدیث کا تیسرا حصہ۔۔۔ اف خدایا۔۔۔ اس نے بھری دعوت میں ہماری بے عزتی کردی، ہماری انا، ہماری عزت نفس مجروح کی، اب دیکھنا اس کی ایسی تیسی نہ کی، اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا، ایک کی دس نہ سنائیں تو میرا نام نہیں۔
کون ہے جو لوگوں کی کڑوی کسیلی سنے اور اس پر صبر کی جزا آخرت کے لیے رکھ چھوڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو دل ہی دل میں دہرا لے کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو، درگزر کرو، چھوڑو جانے دو کہتا رہے۔
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخرت میں بھی کچھ لے کر جانا ہے، سارے کا سارا حساب یہیں برابر نہیں کرنا ہے۔
دنیا میں تھوڑا سا ظلم سہہ لیں اور مظلوم بن کر رہ لیں۔ یاد رکھیں آخرت کا میدان مظلوموں کے ہاتھ میں ہے!!!
بالکل۔ہم سنت کی کتابوں کو صرف علم حاصل کرنےکے لیے پڑھتے ہیں۔کاش ہم عمل کرنے کی نیت سے پڑھے تو یہ بوبت ہی نہ آے۔بہت خوبصورت بات کی اپ نے۔۔
 
بچپن میں ہمیں ڈانٹنا خاندان بھر کے، محلے بھر کے، بلکہ ایرے غیرے بڑے بوڑھے کا آبائی فرض تھا۔۔۔
اور والدین خوش ہوتے تھے کہ اپنا سمجھتے ہیں جبھی سمجھاتے ہیں۔۔۔
آج تو سگی خالہ یا سگے چچا حتی کہ نانی یا دادی بھی بچوں کو ٹوک دے تو ماں باپ کو انسلٹ فیل ہوتا ہے۔۔۔
کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی تربیت ہر کوئی نہیں کرے گا، صرف ہم کریں گے!!!
ہمارے گھر بھی ایسا ہی ہوتا ھے۔
 
Top