میرے نزدیک اس کی وجہ دین سے دوری بھی ہے۔
- اسلام حلال حرام کی تمیز سکھاتا ہے ، اور اس کا خیال رکھنے سے آپ کے پاس ایسا مال نہیں آتا کہ آپ کو اپنے پرائے اور اچھے برے کی تمیز ہی ختم ہو جائے۔
- مال کی بہت زیادہ محبت اسلام میں پسند نہیں کی جاتی۔ مال کی محبت سے ہی انسان میں لالچ ، بخیلی ، ہوس جیسے اسفل جذبے فروغ پاتے ہیں ۔ اور انسان معاملات میں کجی دکھانے لگتا ہے اور خود سے کم تر لوگوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔
- اسلام اعتدال کا حکم دیتا ہے لیکن نت نئی آسائشوں کے حصول کی خاطر انسان مال کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور نتیجتاً اعتدال و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے ۔
- اسلام عزیز و اقارب یہاں تک کے پڑوسیوں کے حقوق پر زور دیتا ہے۔ اور تھوڑی بہت کوشش سے قربتیں بڑھتیں ہیں۔
- اسلام صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے، یعنی جو رشتے دار آپ سے رابطہ توڑے آپ اللہ کی رضا کے لئے اُس سے رابطہ جوڑیں۔
- مسلمان جو بھی نیکی کسی دوست رشتے دار کے ساتھ کرتا ہے اُس کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اجر اُسے اللہ سے ملے گا ۔ لیکن جب یہ عقیدہ کمزور ہو جاتا ہے تو انسان نیکی کرکے لوگوں سے اس کا صلہ چاہنے لگتا ہے اور صلہ نہ ملنے پر وہ تمام تر اچھے معاملات سے ہاتھ اُٹھا لیتا ہے۔
- اسلام خوش اخلاقی کی تعلیم دیتا ہے۔ حفظ مراتب سکھاتا ہے ۔
سو جب ہم اسلام سے دور ہوتے ہیں تو بہت سی اچھی باتوں سے دور ہو جاتے ہیں نتیجتاً بہت سے معاملات میں توازن کھو بیٹھتے ہیں اور ہمیں کئی شکلوں میں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اصل فساد کی جڑ دین سے دوری ہے۔۔۔
لوگ صرف عبادات کو دین سمجھتے ہیں۔۔۔
نماز، روزہ، تسبیح، تلاوت بھی ہورہی ہے اور زبان سے غیبت اور گالیاں بھی۔۔۔
ابھی جس منہ سے اللہ کا نام لیا اسی سے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہیں۔۔۔
عبادات تو دین کا تقریباً پچیس فیصدہے۔۔۔
باقی پچھتر فیصد میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان انسان بن کر رہنے کی تلقین بھی کی ہے اور اپنے رسول کے ذریعے تربیت بھی کی ہے۔۔۔
رشتے داروں سے تعلق کی بات کی جائے تو ایک حدیث ہے کہ جو تم سے توڑے اس سے جوڑو، جو تم کو محروم کرے اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے درگزر کرتے رہو۔۔۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ رشتے داری نبھانے کے لیے اسی ایک حدیث پر عمل کرلیں تو بے شمار معاملات سلجھ جائیں گے۔۔۔
کسی بات پر رشتے دار روٹھ گئے چاہے غلطی ہماری نہ بھی ہو لیکن اب ہم ہی اسے منانے اور سمجھانے جائیں تو نفس پر کتنا بھاری گزرتا ہے۔ اس کو وہی جانتے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ ورنہ عموماً لوگ یہی کہتے ہیں تم روٹھے ہم چھوٹے۔
اب حدیث کا دوسرا حصہ دیکھیں۔ ہمیں پتا چلا کہ فلاں نے اپنی کسی تقریب میں ہمیں نہیں بلایا ، یا فلاں کے بچوں کو اتنا دیا اور جب ہمارے بچوں کا موقع آیا تو کچھ نہ دیا۔ اس پر عام رجحان یہ ہوتا ہے کہ اب ہم بھی اپنی کسی تقریب میں اسے نہیں بلائیں گے یا اس کے بچوں کو کچھ نہ دیں گے۔
کتنے لوگ ہیں جو دل کے نہ چاہتے ہوئے بھی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی لاج رکھتے ہوئے ان کو بلاتے بھی ہیں اور دینا دلانے بھی کرتے رہتے ہیں۔
اور حدیث کا تیسرا حصہ۔۔۔ اف خدایا۔۔۔ اس نے بھری دعوت میں ہماری بے عزتی کردی، ہماری انا، ہماری عزت نفس مجروح کی، اب دیکھنا اس کی ایسی تیسی نہ کی، اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا، ایک کی دس نہ سنائیں تو میرا نام نہیں۔
کون ہے جو لوگوں کی کڑوی کسیلی سنے اور اس پر صبر کی جزا آخرت کے لیے رکھ چھوڑے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو دل ہی دل میں دہرا لے کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو، درگزر کرو، چھوڑو جانے دو کہتا رہے۔
ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آخرت میں بھی کچھ لے کر جانا ہے، سارے کا سارا حساب یہیں برابر نہیں کرنا ہے۔
دنیا میں تھوڑا سا ظلم سہہ لیں اور مظلوم بن کر رہ لیں۔ یاد رکھیں آخرت کا میدان مظلوموں کے ہاتھ میں ہے!!!