معلومات کا شکریہ حمیرا بہن۔
میری انفارمیشن کے مطابق اب فلائنگ کارز کا کانسپٹ فکشن اور لیبارٹری سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ بلکہ پرواز کرنے والی گاڑیوں کی راہ میں اب ٹیکنالوجی کی کوئی رکاوٹ نہیں رہی ہے، بلکہ اصل رکاوٹ سول ایوی ایشن کی حفاظتی ریکوائرمنٹس کو پورا کرنا اور ان سے اجازت حاصل کرنا ہے۔ شہری حدود میں کوئی بھی پرواز اتھارٹیز کی مرضی کے بغیر نہیں کی جا سکتی، اور فلائنگ کارز جیسی نئی ٹیکنالوجی کو یہ رکاوٹ عبور کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ بائی دا وے یہ مشینیں اصل میں کاریں نہیں ہیں، انہیں محض ایک استعارے کے طور پر فلائنگ کارز کہا جاتا ہے۔ انہیں پرواز کے لیے کسی رن وے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ یہ اپنی جگہ سے ہی عمودی طور پر ہوا میں بلند ہوتی ہیں، اپنے رستے پر سفر کرتی ہیں اور اترنے سے پہلے بھی اپنی جگہ پر ایک کواڈکاپٹر ڈرون کی طرح عمودی طور پر اترتی ہیں۔ اکثر فلائنگ کارز کی ٹیکنالوجی مجھے موجودہ ڈرونز پر ہی مبنی معلوم ہوتی ہے۔ ان مشینوں کو VTOL یعنی ورٹیکل ٹیک آف اینڈ لینڈنگ وہیکلز کہا جاتا ہے۔ ان فلائنگ کارز کی ایک اور خاص بات ان کا مکمل طور پر الیکٹرک بیٹری پر انحصار ہے، یعنی ان میں پٹرول انجن استعمال نہیں ہوتا۔
میرا اندازہ ہے کہ اگلے تین یا چار سالوں میں فلائنگ کارز کا شہری ٹریفک میں عمل دخل شروع ہو جائے گا، اور اس سے شہری زندگی میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ اس کا ایک منظرنامہ یوں تصور کیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ اونچی بلڈنگ میں کسی فلیٹ میں رہتے ہیں، انہیں صبح آفس جانے کے لیے پہلے نیچے اترنے، پارکنگ میں جانے اور اس کے بعد شہر کی مصروف ٹریفک میں پھنسنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کی بجائے وہ اسی بلڈنگ کی چھت پر اپنی فلائنگ کار میں بیٹھ کر اسے اڑا کر اپنے آفس کی سکائی سکریپر بلڈنگ کی چھت پر اتاریں گے اور یوں سفر نہایت مختصر ہو جائے گا۔ فلائنگ کارز کے میدان میں کام کرنے والی اکثر کمپنیاں اسی سنیریو کو پرکشش بنا کر پیش کر رہی ہیں۔
اگرچہ کئی کمپنیاں فلائنگ کارز کے میدان میں کام کر رہی ہیں، لیکن ذاتی طور پر مجھے میونخ جرمنی کی ایک کمپنی
لیلیم (Lilium) کا فلائنگ جیٹ پسند آیا ہے۔ لیلیم یونیورسٹی آف میونخ کے کچھ طلبا کی ایک سٹارٹ اپ کمپنی ہے۔ لیلیم کے فلائنگ جیٹ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ونگز میں کئی الیکٹرک موٹرز ہیں۔ ٹیک آف کے وقت ان کا رخ نیچے کی جانب ہوتا ہے اور یوں ہوا کو نیچے کی جانب پھینک کر یہ فلائنگ جیٹ فضا میں بلند ہوتا ہے، اور اس کے بعد ان موٹرز کا رخ پیچھے کی جانب ہو جاتا ہے اور یوں اس فلائنگ جیٹ کی اپنی منزل کی جانب پرواز شروع ہو جاتی ہے۔ لیلیم کے فلائنگ جیٹ کے بارے میں کچھ معلومات ذیل کی ویڈیو میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
فلائنگ کارز کے میدان میں محض چھوٹی سٹارٹ اپس ہی کام نہیں کر رہی ہیں بلکہ اوبر اور گوگل جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی اس میں بڑے پیمانے پر وسائل صرف کر رہی ہیں اور وہ وقت زیادہ دور نہیں ہوگا جب شہری حدود میں پرواز کے لیے فلائنگ کارز کے روٹ بھی بنا کر دیے جائیں گے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان مخصوص روٹس پر ٹریفک کے مسائل پیدا ہونے شروع ہو جائیں جیسا کہ بیک ٹو دا فیوچر فلم میں دکھایا گیا ہے۔
یوٹیوب کے مقبول ٹیکنالوجی ریویو چینل کولڈ فیوژن کے ڈاگوگو نے ذیل کی ویڈیو میں برقی اڑن گاڑیوں کی انڈسٹری کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔