ٹی وی پروگرام اور فکری زوال

محمداحمد

لائبریرین
ٹی وی پروگرام اور فکری زوال
عبدالرؤف ارقم بھٹی
2275264-tvgameshow-1643010597-287-640x480.jpg

آج کے ٹی وی گیم شوز ہمارے معاشرے کے فکری زوال کی عکاسی کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

گزرتا وقت تبدیلیوں کی داستان رقم کرتا جاتا ہے اور دھیرے دھیرے سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے، حتیٰ کہ انسانی رجحانات اور ترجیحات تک بدل جاتی ہیں۔ جو آج ہے وہ کل ماضی بن جائے گا اور ماضی تاریخ میں ڈھل کر نئی نسلوں کو پچھلی نسلوں کے طرز زندگی کا پتہ دے گا۔ وقت کی اس بازی گری کے کئی نظارے ہم میں سے بہت سے لوگ دیکھ چکے ہیں۔

مجھے اپنے زمانہ طالب علمی میں ٹیلی وژن پر پیش کیے جانے والے کوئز شوز بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ اس زمانے میں یہ کوئز شوز مجھ سمیت بے شمار افراد کے پسندیدہ پروگرام ہوا کرتے تھے۔ دراصل یہ پروگرام علمی نوعیت کے تھے جو مختلف کمپنیوں کے تعاون سے پیش کیے جاتے تھے، جس کا ایک مقصد کمپنی مصنوعات کی مشہوری بھی تھا۔ ان پروگرامز میں سوالات پوچھے جاتے تھے اور درست جواب دینے والوں کو ان کمپنیوں کی مصنوعات انعام کے طور پر دی جاتی تھیں۔ علاوه ازیں شعر وشاعری کے مقابلے اور نامور شخصیات سے ملاقات بھی شامل ہوتی تھیں۔

ان کوئز شوز میں شرکت کے خواہشمند افراد کئی کئی کتب کا مطالعہ کر ڈالتے تھے۔ تقریباً تمام ہی طبقات میں یہ کوئز شوز حد درجہ مقبول تھے، جنہیں خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا جاتا تھا کیونکہ یہ پروگرام معلومات میں اضافے کا ذریعہ تھے۔ ان کوئز شوز میں نیلام گھر جو بعد ازاں طارق عزیز شو کہلایا، کسوٹی، سندھی کوئز شو پرکھ، مینا بازار وغیرہ سرفہرست ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب کتابوں سے دوستی کا چلن عام تھا۔ طالب علم اپنی نصابی کتب کے ساتھ ساتھ شعر و ادب اور معلومات عامہ کے بھی دلدادہ ہوا کرتے تھے۔ شہر کی لائبریریز علم کے متلاشیوں سے آباد تھیں۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ کسی لائبریری کی ممبرشپ ملنا فخر کی بات اور لائبریری میں مطالعہ کرتے گزرا وقت حسین وقت تصور کیا جاتا تھا۔ اگر اسے علمی دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ ٹیلی وژن پر بھی علمی پروگرام پیش کیے جاتے تھے اور عوامی پسندیدگی کے اعتبار سے بھی نمبر ون تھے۔

پھر وقت بدلا اور لوگ پروفیشنل ہونے لگے۔ طالب علموں کی توانائیاں فقط نصابی کتب اور ڈگری کے حصول تک محدود ہوگئیں۔ کاروبار میں سبقت کی دوڑ لگی۔ سیٹلائٹ ٹی وی اور پرائیویٹ پروڈکشنز کا زمانہ آیا۔ سوشل میڈیا روشناس ہوا اور سب کچھ بدل گیا۔ ان باتوں کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت ہرگز نہیں، کیونکہ جدید ٹیکنالوجی سہولت اور آسانی کا نام ہے اور ہر سہولت اور آسانی عطیہ خداوندی ہے لیکن ہم نے اسے مثبت انداز سے نہیں اپنایا بلکہ اس کے مضر پہلوؤں میں اپنا سامانِ دلچسپی ڈھونڈنا شروع کردیا۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ ان کے برے اثرات کی زد میں آگیا۔

کل جن ہاتھوں میں کتاب ہوا کرتی تھی آج ان ہاتھوں میں موبائل ہے اور سوشل میڈیا کی بے مقصد سرگرمیاں ہیں۔ آج یہی نوجوان علم و ادب سے دور ہوچکا ہے۔ نہ کتاب دوستی رہی اور نہ مطالعہ کا شوق رہا۔ آج پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے لیکن شاید ہی کوئی چینل ہوگا جس پر کوئی کوئز شوز پیش کیا جاتا ہو۔ اب یہ کوئز شوز قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اب وہ علم دوستی کا دور نہیں رہا۔ ماضی میں کوئز شوز کمپنیوں کی کاروباری ضرورت تھے اور آج بھی ان کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

پرائیویٹ چینلز اور مختلف کمپنیوں کے اشتراک سے آج بھی اسی طرز کے پروگرامز پیش کیے جارہے ہیں، بس ان کا ڈھنگ کچھ بدل دیا گیا ہے۔ کوئز شوز کی جگہ نام گیم شوز رکھ دیا گیا ہے۔ پہلے سوالات کے درست جوابات پر انعامات دیے جاتے تھے اب کھیل کھلا کر دیے جاتے ہیں۔ آج معلومات کسی کو نہیں، البتہ کھیل کود ہر کسی کےلیے آسان کام ہے اور ناظرین بھی اس کھیل کود سے ہی محظوظ ہوتے ہیں اور اگر کسی پروگرام میں کبھی کوئی معلومات عامہ کا سوال پوچھ بھی لیا جائے تو حاضرین ایسے ایسے اوٹ پٹانگ جوابات دیتے ہیں کہ انسان سر پیٹ کر رہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ریٹنگ کی دوڑ میں لگے چینلز اب گئے وقتوں کے کوئز شوز چلانے کا رسک نہیں لیتے کیونکہ ان کوئز شوز سے اب ریٹنگ نہیں ملتی۔

کوئز شوز اور گیم شوز کو مثال محض اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ ایک پیمانہ ہے جس سے ہمارے معاشرے کے زوال پذیر ہوتے فکری معیار کی بہتر عکاسی ہوتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے ہم اپنے علمی معیار کو بہتر بنا کر جدید خطوط پر استوار کرسکتے تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال علم و ادب کے حلقوں کو زیادہ وسیع اور مربوط بنا سکتا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس ہم نے اس ٹیکنالوجی کے تفریح طبع کے رخ کو اپنا کر جدید دنیا کے ساتھ چلنا تصور کیا اور اسی خیالِ باطل کے باعث علم سے لاعلمی کی طرف چلے گئے۔
کیا اب بھی ہم کوئی ایسا جواز ڈھونڈ کر لا سکتے ہیں جس کی بنیاد پر ہم اپنی اس حالت کو فکری زوال اور علمی پستی نہ کہہ سکیں؟ شاید نہیں۔


بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر زمانے، ہر دور کے اپنے اپنے طور طریقے اور اپنی اپنی چال ہوتی ہے۔ میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جس کا راقم نے ذکر کیا ہے اور یہ بھی یعنی نیلام گھر بھی دیکھا ہے اور جیتو پاکستان بھی۔ کرائے پر لے کر کتابیں بھی پڑھی ہیں اور سمارٹ موبائل فون کو بھی استعمال کیا ہے۔ اور اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر زمانے کی اپنی ہی چال ہوتی ہے، آپ کسی عہد کو یاد کر کے آہیں تو بھر سکتے ہیں (جو کہ ہم بھی دن رات بھرتے ہیں) لیکن کسی کو غلط اور کسی کو زریں کہنا بس ایک ذہنی بات اور فکر ہی ہے۔

مثال کے طور پر جس زمانے میں نیلام گھر شو چلا کرتا تھا اس زمانے میں سارے پروگرام اسی طرح کے ہوتے تھے یعنی کسوٹی، مینا بازار وغیرہ وغیرہ۔ اب جیتو پاکستان چلتا ہے تو سارے پروگرام اسی طرح کے ہیں، آج کے کمرشل ازم کے دور میں ایک طرف آپ جیتو پاکستان چلائیں اور دوسری طرف نیلام گھر تو یقینی طور پر نیلام گھر کو ہماری طرح ناسٹلجیا کے مارے صرف کچھ بابے ہی دیکھیں گے۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
بجا فرمایا دونوں حضرات نے ۔۔۔ آج کل ایسا ہی ہے ویوز کے چکر میں کیا کیا فیوز ہو رہا ہے کسی کو اندازہ ہی نہیں۔۔۔۔معلومات کا ایک سمندر آپ کے ہاتھ میں ہے اور اس کی ساری یوٹیلازیشن صرف جبلی رہ گئی ہے عقلی نہیں قولِ مولا علی ذہن میں آتا ہے اور کیا ہی خوب فرمایا کہ -

اپنے بچوں کی تربیت کرو اس سے قبل کہ دنیا کا فاسد ترین ماحول ان پر اثر انداز ہو-

تو بس اب اتنا رہ گیا ہے دردِ دل رکھنے والے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کریں تاکہ بہترین کردار کے افراد مستقبل میں اس گھٹن اور تعفن کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔۔۔میرے بیٹے نے میٹرو میں ایک شیلف سے نکال کر چاکلیٹ کھائی اور اس کا ریپر ہاتھ میں دبائے رکھا اور کاونٹر والے کو دے دیا -ایک چھوٹی سے مثال - خیر فضا محیط ہے وسیع ہے کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور ۔ ۔ ۔ التماس ِ دعا
 

علی وقار

محفلین
زوال تو واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ فی زمانہ کسی ٹی وی چینل کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ تاریخ اور جغرافیہ جیسے اہم موضوعات پر کوئی سلسلہ ہی شروع کر پائیں۔ علمی و تحقیقی پروگرام بہت کم رہ گئے۔ پی ٹی وی کو بھی توفیق نصیب نہ ہوئی کہ اپنا نیٹ ورک اس حوالے سے موثر طور پر استعمال کر پائے۔ میرا اندازہ تھا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں تاریخ، جغرافیہ، ادب، سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں سے متعلق الگ ٹی وی چینلز موجود ہوں گے مگر یہ سب اک خواب ثابت ہوا۔ الگ چینلز تو دور کی بات، ان اہم موضوعات پر کسی چینل پر کوئی چھوٹا موٹا پروگرام دکھائی پڑ جائے تو یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جو زمانہ کتب کا بتایا جا رہا ہے اس میں پاکستان کی شرح خواندگی کتنی تھی؟
سوال آپ کا درست ہے کہ شرح خواندگی آج کل کی نسبت سے آدھی ہوگی لیکن اسی سے شاید مصنف نے فکری زوال کا نتیجہ نکالا ہے کہ اس وقت شرح خواندگی کم ہونے کے باوجود کتب کا مطالعہ کرنے والے زیادہ تھے اور اب شرح خواندگی زیادہ ہونے کے باوجود کتب بین نہ ہونے کے برابر ہیں، اسی کو وہ فکری زوال یا جو بھی سمجھا جائے کہہ رہے ہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
مثال کے طور پر جس زمانے میں نیلام گھر شو چلا کرتا تھا اس زمانے میں سارے پروگرام اسی طرح کے ہوتے تھے یعنی کسوٹی، مینا بازار وغیرہ وغیرہ۔ اب جیتو پاکستان چلتا ہے تو سارے پروگرام اسی طرح کے ہیں، آج کے کمرشل ازم کے دور میں ایک طرف آپ جیتو پاکستان چلائیں اور دوسری طرف نیلام گھر تو یقینی طور پر نیلام گھر کو ہماری طرح ناسٹلجیا کے مارے صرف کچھ بابے ہی دیکھیں گے۔

یعنی یہی بات ہوئی نا کہ خشک مضامین سے لوگوں کا دل اُٹھ گیا ہے اور لوگ اب میلوں ٹھیلوں میں ہی خوش رہتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
تو بس اب اتنا رہ گیا ہے دردِ دل رکھنے والے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کریں تاکہ بہترین کردار کے افراد مستقبل میں اس گھٹن اور تعفن کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں

آج کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اکثر والدین کو بھی تربیت کی ضرورت ہے وہ آگے بچوں کی تربیت کیسے کریں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
زوال تو واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ فی زمانہ کسی ٹی وی چینل کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ تاریخ اور جغرافیہ جیسے اہم موضوعات پر کوئی سلسلہ ہی شروع کر پائیں۔ علمی و تحقیقی پروگرام بہت کم رہ گئے۔ پی ٹی وی کو بھی توفیق نصیب نہ ہوئی کہ اپنا نیٹ ورک اس حوالے سے موثر طور پر استعمال کر پائے۔ میرا اندازہ تھا کہ بیسویں صدی کے اوائل میں تاریخ، جغرافیہ، ادب، سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں سے متعلق الگ ٹی وی چینلز موجود ہوں گے مگر یہ سب اک خواب ثابت ہوا۔ الگ چینلز تو دور کی بات، ان اہم موضوعات پر کسی چینل پر کوئی چھوٹا موٹا پروگرام دکھائی پڑ جائے تو یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

بجا فرمایا بھائی آپ نے۔

اب تو ٹی وی چینلز پر چھچورے پن کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اور غالباً ان ٹی وی چینلز کی مرکزی غایت بھی یہ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جو زمانہ کتب کا بتایا جا رہا ہے اس میں پاکستان کی شرح خواندگی کتنی تھی؟

شرح خواندگی تو شاید کم ہوگی لیکن تب لوگوں میں اس بات کا رجحان تھا کہ وہ پڑھتے پڑھاتے رہے اور اُن میں ایسے لوگ بھی تھے جو سنجیدہ موضوعات سے گھبراتے نہیں تھے اور انہی سنجیدہ موضوعات میں ہی اپنی تفریحِ طبع کا سامان بھی تلاش کرتے تھے۔
 

زیک

مسافر
شرح خواندگی تو شاید کم ہوگی لیکن تب لوگوں میں اس بات کا رجحان تھا کہ وہ پڑھتے پڑھاتے رہے اور اُن میں ایسے لوگ بھی تھے جو سنجیدہ موضوعات سے گھبراتے نہیں تھے اور انہی سنجیدہ موضوعات میں ہی اپنی تفریحِ طبع کا سامان بھی تلاش کرتے تھے۔
کیا کوئی سروے ہے جس سے اس رجحان کی کمی کا اندازہ لگایا جا سکے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اس ربط سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں کہ یونیورسٹی کے چار میں سے تین طلباء نے کبھی کوئی غیر نصابی کتاب نہیں پڑھی۔ اور صرف 9 فیصد لوگ کتابیں پڑھنے کے شائق ہیں۔

اس میں گیلپ اور گیلانی فاؤنڈیشن کے سروے کا حوالہ ملتا ہے۔ یہ 2019اپریل کا مضمون ہے۔
 

زیک

مسافر
یہ ایک عمومی خیال ہے اور میری معلومات میں ایسا کوئی سروے نہیں ہے کہ جس سے ان شماریات کا اندازہ لگایا جا سکے۔
اس عمومی خیال کا اظہار تو صدیوں سے ہر تہذیب میں کیا جا رہا ہے لیکن اس سے اس کے درست ہونے کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
 

علی وقار

محفلین
اس ربط سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں یونیورسٹی کے چار میں سے تین طلباء نے کبھی کوئی غیر نصابی کتاب نہیں پڑھی۔
کتب بینی کا رجحان ہی نہیں۔ گو کہ لائبریریوں کی حالت ابتر ہے، اور اپنے پیسوں سے کتاب خریدنے کی سکت بھی ایک اہم معاملہ ہے مگر کتاب پڑھنے کا کلچر یوں کیوں کر پروان چڑھے گا۔ ہفتہ عشرہ میں ایک بار ٹیچر کو لائبریری میں بھجوا کر طلباء سے اسائنمنٹ حل کروانی چاہیے تاکہ انہیں حوالہ دینے کا ہنر آئے، وہ کتابوں سے مطلوبہ مواد نکال پائیں۔ کتاب پڑھنا ایک نشے کی طرح ہے، مگر یہ نشہ لگوانا پڑتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کتب بینی کا رجحان ہی نہیں۔ گو کہ لائبریریوں کی حالت ابتر ہے، اور اپنے پیسوں سے کتاب خریدنے کی سکت بھی ایک اہم معاملہ ہے مگر کتاب پڑھنے کا کلچر یوں کیوں کر پروان چڑھے گا۔ ہفتہ عشرہ میں ایک بار ٹیچر کو لائبریری میں بھجوا کر طلباء سے اسائنمنٹ حل کروانی چاہیے تاکہ انہیں حوالہ دینے کا ہنر آئے، وہ کتابوں سے مطلوبہ مواد نکال پائیں۔ کتاب پڑھنا ایک نشے کی طرح ہے، مگر یہ نشہ لگوانا پڑتا ہے۔
کتاب بینی کی جگہ موبائل بینی نے لے لی ہے۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایسا تو ہونا ہی تھا
 

اکمل زیدی

محفلین
بہرحال ابھی بھی کئی لوگ ہیں جو مطالعہ کی اہمیت کوسمجھتے ہیں اور وہ اس ڈگر پر ہیں یعنی مطالعاتی ذوق کی تشفی حتی المقدور کرتے رہتے ہیں ظاہر ہے جو سمجھے گا وہ اس پر عمل پیرا ہو گا ۔۔۔ٹیکنالوجی نے تو کام اور آسان کردیا ہے ای بک - ٹیبلٹ - اتنی آسانیاں ہیں دنیا بھر کی کتابیں آپ کی دسترس میں ہیں جو کہ پہلے بمشکل میسر ہوتی تھیں دنیا جہاں کے مصنف آپ کی پہنچ میں دنیا میں کس موضوع پر کیا کیا لکھا جا رہا ہے وہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں سب ممکن ہے صرف ایک ڈوانلوڈنگ کے کلک سے ۔۔۔۔ بات صرف ذوق اور شوق کی ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
ہفتہ عشرہ میں ایک بار ٹیچر کو لائبریری میں بھجوا کر طلباء سے اسائنمنٹ حل کروانی چاہیے تاکہ انہیں حوالہ دینے کا ہنر آئے، وہ کتابوں سے مطلوبہ مواد نکال پائیں۔
یہ بہت اچھا طریقہ ہے۔
کتاب پڑھنا ایک نشے کی طرح ہے، مگر یہ نشہ لگوانا پڑتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے اس سے کہیں زیادہ مہلک نشوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہرحال ابھی بھی کئی لوگ ہیں جو مطالعہ کی اہمیت کوسمجھتے ہیں اور وہ اس ڈگر پر ہیں یعنی مطالعاتی ذوق کی تشفی حتی المقدور کرتے رہتے ہیں ظاہر ہے جو سمجھے گا وہ اس پر عمل پیرا ہو گا ۔۔۔ٹیکنالوجی نے تو کام اور آسان کردیا ہے ای بک - ٹیبلٹ - اتنی آسانیاں ہیں دنیا بھر کی کتابیں آپ کی دسترس میں ہیں جو کہ پہلے بمشکل میسر ہوتی تھیں دنیا جہاں کے مصنف آپ کی پہنچ میں دنیا میں کس موضوع پر کیا کیا لکھا جا رہا ہے وہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں سب ممکن ہے صرف ایک ڈوانلوڈنگ کے کلک سے ۔۔۔۔ بات صرف ذوق اور شوق کی ہے

دراصل کتابیں نہ پڑھنے کی ایک اور وجہ یکسوئی کا نہ مل پانا اور موبائل فون اور دیگر گیجٹس کا ہمیں ہمہ وقت ڈسٹریکٹ کرتے رہنا ہے۔ کتاب کامل یکسوئی چاہتی ہے اور ہماری اکثریت منتشر الخیالی اور اختلال کا شکار ہے۔
 
Top