حسیب نذیر گِل
محفلین
اسلام آباد: پاکستان میں نجی ٹیلی وژن چینلز کی مانیٹرنگ، مقبولیت کا تعین اور انہیں سرکاری اشتہارات جاری کرنے کے عمل کو باضابطہ بنانے کے لیے حکومت علیحدہ ادارہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
اس مقصد کے لیے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے ‘ڈپارٹمنٹ آف الیکٹرانک میڈیا’ یعنی ‘ڈیم’ قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
مجوزہ ادارہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ماتحت ہوگا جو نجی ٹیلی وژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے لیے مخصوص ہوگا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری اطلاعات چوہدری راشد کا کہنا تھا کہ ‘ڈیم، الیکٹرانک میڈیا کے لیے سہولت کار کے فرائض انجام دے گا۔’
وزارتِ اطلاعات کے ایک اور افسر نے بتایا کہ ‘ڈائریکٹوریٹ قائم ہونے کے بعد نجی ٹیلی وژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو کو ان کی مقبولیت یا ریٹنگ کے حساب سے سرکاری اشتہارات جاری کیے جائیں گے۔’
اس حوالے سے ستر ملین روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ جس کے تحت پورے ملک کے مختلف علاقوں میں پانچ ہزار میٹرز لگائے جائیں گے۔ ان سے نجی ٹی وی چینلز اور ان کے مخصوص پروگراموں کی مقبولیت کا تعین کیا جاسکے گا۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا کہنا تھا کہ ‘یہ میٹر ٹی وی سیٹ کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں لگائے جائیں گے۔ جس سے پتا چل سکے گا کہ دیکھنے والے نے کون سا چینل لگایا اور دن میں کتنی بار اس نے کون کون سے چینلز دیکھے۔’
پاکستان میں نجی ٹیلی وژن چینلز کے درمیان ریٹنگ میں خود کو سب سے آگے ظاہر کرنے کی دوڑ ہے اور حکومت کے پاس سرکاری سطح پرایسا کوئی نظام موجود نہیں جس سے ان کی مقبولیت کا تعین کیا جاسکتا ہو۔
اس وقت ایک نجی ادارہ حکومت کے لیے ٹیلی وژن چینلز کی ریٹنگ کا تعین کررہا ہے، تاہم مقبولیت کے اعداد و شمارکوغیر مصدقہ سمجھا جاتا ہے۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا دعویٰ تھا کہ ‘نجی ٹی وی چینلز خصوصاً ٹاک شوز میں اکثر اوقات صرف اس لیے صحافتی اخلاق کی حدود پار کرجاتے ہیں کہ ان کی ریٹنگ بہتر ہو۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں، جس سے ان کی مقبولیت کا تعین ہوسکے۔ جس کی وجہ سے اکثر چینلز خود کو ایک دوسرے سے زیادہ مقبول ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کے مطابق ‘خیال کیا جاتا ہے کہ جب سرکاری سطح پر نجی ٹی وی چینلز کی مقبولیت کے اعدادو شمار جاری ہونا شروع ہوں گے تو رفتہ رفتہ عوامی آرا کی روشنی میں ‘غیر اخلاقی’ پروگرام خود بخود بند ہونا شروع ہوجائیں گے۔’
اس وقت سرکاری سطح پر ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں کہ جس کی بنیاد پر نجی ٹیلی وژن چینلز یا ایف ایم ریڈیو کے لیے سرکاری اشتہارات ان کی مقبولیت کی بنیاد پر جاری ہوسکیں۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کو ایک سال میں اُنیس ارب روپے کے اشتہارات ملے۔ ان میں سے پانچ ارب روپے کے اشتہارات پبلک سیکٹر جب کہ بقایا پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے دیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجموعی اشتہارات میں پبلک سیکٹر کا حجم تقریباً ایک تہائی ہے مگر کم ہونے کے باوجود الیکٹرانک میڈیا کو سرکاری اشتہارات سے حاصل منافع کی شرح پبلک سیکٹر سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘الیکٹرانک میڈیا کے لیے سرکاری اشتہارات کا ریٹ دو سے ڈھائی لاکھ روپے فی منٹ ہے جب کہ پرائیوٹ سیکٹر کے اشتہار کا ریٹ فی منٹ پانچ سو سے لے کر زیادہ سے زیادہ اُنتیس ہزار روپے تک ہے۔
پاکستان میں سن دو ہزار کے بعد نجی ٹیلی وژن چینلز کو نشریات شروع کرنے کے لیے لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس وقت درجنوں نیوز چینلز اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے الیکٹرانک میڈیا صرف سرکاری کنٹرول میں کام کررہا تھا۔ ان میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان شامل ہے۔
پاکستان سے نشریات کرنے والے بعض نجی ٹی وی چینلز صرف تفریحی مقاصد اورکھیلوں کے لیے بھی مخصوص ہیں۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے پہلے ہی ایک سرکاری ادارہ پیمرا کے نام سے کام کررہا ہے۔
بشکریہ:ڈان نیوز
اس مقصد کے لیے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے ‘ڈپارٹمنٹ آف الیکٹرانک میڈیا’ یعنی ‘ڈیم’ قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
مجوزہ ادارہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ماتحت ہوگا جو نجی ٹیلی وژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے لیے مخصوص ہوگا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری اطلاعات چوہدری راشد کا کہنا تھا کہ ‘ڈیم، الیکٹرانک میڈیا کے لیے سہولت کار کے فرائض انجام دے گا۔’
وزارتِ اطلاعات کے ایک اور افسر نے بتایا کہ ‘ڈائریکٹوریٹ قائم ہونے کے بعد نجی ٹیلی وژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو کو ان کی مقبولیت یا ریٹنگ کے حساب سے سرکاری اشتہارات جاری کیے جائیں گے۔’
اس حوالے سے ستر ملین روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ جس کے تحت پورے ملک کے مختلف علاقوں میں پانچ ہزار میٹرز لگائے جائیں گے۔ ان سے نجی ٹی وی چینلز اور ان کے مخصوص پروگراموں کی مقبولیت کا تعین کیا جاسکے گا۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا کہنا تھا کہ ‘یہ میٹر ٹی وی سیٹ کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں لگائے جائیں گے۔ جس سے پتا چل سکے گا کہ دیکھنے والے نے کون سا چینل لگایا اور دن میں کتنی بار اس نے کون کون سے چینلز دیکھے۔’
پاکستان میں نجی ٹیلی وژن چینلز کے درمیان ریٹنگ میں خود کو سب سے آگے ظاہر کرنے کی دوڑ ہے اور حکومت کے پاس سرکاری سطح پرایسا کوئی نظام موجود نہیں جس سے ان کی مقبولیت کا تعین کیا جاسکتا ہو۔
اس وقت ایک نجی ادارہ حکومت کے لیے ٹیلی وژن چینلز کی ریٹنگ کا تعین کررہا ہے، تاہم مقبولیت کے اعداد و شمارکوغیر مصدقہ سمجھا جاتا ہے۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا دعویٰ تھا کہ ‘نجی ٹی وی چینلز خصوصاً ٹاک شوز میں اکثر اوقات صرف اس لیے صحافتی اخلاق کی حدود پار کرجاتے ہیں کہ ان کی ریٹنگ بہتر ہو۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں، جس سے ان کی مقبولیت کا تعین ہوسکے۔ جس کی وجہ سے اکثر چینلز خود کو ایک دوسرے سے زیادہ مقبول ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کے مطابق ‘خیال کیا جاتا ہے کہ جب سرکاری سطح پر نجی ٹی وی چینلز کی مقبولیت کے اعدادو شمار جاری ہونا شروع ہوں گے تو رفتہ رفتہ عوامی آرا کی روشنی میں ‘غیر اخلاقی’ پروگرام خود بخود بند ہونا شروع ہوجائیں گے۔’
اس وقت سرکاری سطح پر ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں کہ جس کی بنیاد پر نجی ٹیلی وژن چینلز یا ایف ایم ریڈیو کے لیے سرکاری اشتہارات ان کی مقبولیت کی بنیاد پر جاری ہوسکیں۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کو ایک سال میں اُنیس ارب روپے کے اشتہارات ملے۔ ان میں سے پانچ ارب روپے کے اشتہارات پبلک سیکٹر جب کہ بقایا پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے دیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجموعی اشتہارات میں پبلک سیکٹر کا حجم تقریباً ایک تہائی ہے مگر کم ہونے کے باوجود الیکٹرانک میڈیا کو سرکاری اشتہارات سے حاصل منافع کی شرح پبلک سیکٹر سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘الیکٹرانک میڈیا کے لیے سرکاری اشتہارات کا ریٹ دو سے ڈھائی لاکھ روپے فی منٹ ہے جب کہ پرائیوٹ سیکٹر کے اشتہار کا ریٹ فی منٹ پانچ سو سے لے کر زیادہ سے زیادہ اُنتیس ہزار روپے تک ہے۔
پاکستان میں سن دو ہزار کے بعد نجی ٹیلی وژن چینلز کو نشریات شروع کرنے کے لیے لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس وقت درجنوں نیوز چینلز اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے الیکٹرانک میڈیا صرف سرکاری کنٹرول میں کام کررہا تھا۔ ان میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان شامل ہے۔
پاکستان سے نشریات کرنے والے بعض نجی ٹی وی چینلز صرف تفریحی مقاصد اورکھیلوں کے لیے بھی مخصوص ہیں۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے پہلے ہی ایک سرکاری ادارہ پیمرا کے نام سے کام کررہا ہے۔
بشکریہ:ڈان نیوز