ھارون اعظم
محفلین
بچپن کے دن، جب گھر میں کسی بڑے بزرگ سے رات کے وقت کہانیاں سنتے تھے، ایک عجب دور تھا۔ بڑی شدت کے ساتھ اس وقت کا انتظار رہتا تھا کہ کب رات کا کھانا کھائیں اور کہانی سنیں۔ اکثر اوقات کہانی لمبی ہوجاتی تھی، اور باقی آئندہ کا کہہ کر زبردستی سونے کے لئے بھیج دیا جاتا۔ اس صورت میں اکثر نیند آنکھوں سے غائب ہوجاتی تھی۔ بہت برا لگتا تھا، کہ یونہی کہانی ختم کرنے سے پہلے سونے کے لئے بھیج دیتے ہیں۔
پھر ٹی وی آیا۔ وہ دن کبھی نہیں بھولتے جب محلے میں واقع اپنے رشتہ داروں کے گھر سب لوگ ٹی وی دیکھنے جمع ہوتے تھے۔ یادیں کچھ دھندلی سی ہیں، ایک بڑا سا ٹی وی میز پر رکھا ہوتا تھا، جس کی بلیک اینڈ وائٹ ڈسپلے اکثر انٹینا کی خرابی کی وجہ سے تصاویر کو غیرواضح کردیتی تھی۔ زمین پر چٹائی بچھادی جاتی تھی، جس پر بچوں کو بٹھادیا جاتا تھا، جبکہ نوجوان اور بزرگ چارپائیوں پر بیٹھ جاتے تھے۔ بہت شدت سے اس لمحے کا انتظار رہتا تھا کہ کب ڈرامہ شروع ہو، جس کے لئے ایک ہفتہ انتظار کیا جاتا تھا۔ ڈرامہ دیکھتے وقت باقی سرگرمیاں موقوف ہوتی تھیں۔ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد ٹی وی بند کردیا جاتا تھا، اور ٹی وی کو کسی کپڑے سے اچھی طرح ڈھانپ دیا جاتا تھا، تاکہ گردوغبار سے محفوظ رہے۔ عموماً ٹی وی اگلے ہفتے ہی دوبارہ آن کیا جاتا۔
اس دور سے آگے بڑھیں تو رنگین ٹی وی کا زمانہ آیا۔ اگر چہ شہروں میں بہت پہلے ہی کلر ٹی وی آچکا تھا، لیکن دیہات کے لوگوں کے لئے یہ ایک عجوبے سے کم نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے پہلی مرتبہ جب کلر ٹی وی ہمارے گاؤں میں آیا تھا، تو میں اکثر لوگوں سے سنتا تھا، کہ آج فلاں ڈرامہ دیکھنے جانا ہے، پتا ہے فلاں کے ہاں ایسا ٹی وی ہے جس میں ہر رنگ اصل دکھائی دیتا ہے۔ ڈرامے بھی اب ہفتے میں ایک کی جگہ تقریباً روزانہ کے حساب سے نشر ہونے لگے۔ اس وقت اکثر گھر سے چھپ کر یا کوئی بہانہ بنا کر اپنے دوست کے ہاں بچوں کے ڈرامے دیکھنے جاتا۔
ڈرامہ دیکھنے کی خاطر کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ اکثر ٹی وی کا انٹینا خراب ہوجاتا تھا۔ اب اس کو صحیح رخ پر کرنے کے لئے چھت پر جانا پڑتا۔ انٹینا گھمانے کے ساتھ ساتھ زور زور سے آواز لگا کر پوچھنا بھی پڑتا، کہ ٹھیک ہوگیا کہ نہیں؟ اکثر چھت سے اترنے تک کوئی کوا انٹینا پر بیٹھ جاتا اور ٹی وی پھر خراب ہوجاتا۔ نتیجتاً پھر چھت کا دورہ کرنا پڑتا۔
تھوڑا اور آگے چلتے ہیں۔ ہائی اسکول اور اس کے بعد کالج کا زمانہ ہے۔ پہلے ڈش ٹی وی آیا۔ اس کے بعد کیبل نیٹ ورک آیا۔ ابتداء میں کچھ مزاحمت ہوئی۔ لیکن اس کو یہ کہہ کر ٹالا گیا کہ کیبل پر صرف پاکستانی چینل دکھائے جائیں گے۔ خیر، پاکستانی چینل تو آٹے میں نمک کے برابر ہی رہے۔
کیبل کے آنے کے بعد حالت یہ ہوگئی کہ سینکڑوں چینل ہوگئے، جن پر ہر وقت ڈرامے اور فلم چلتے رہتے ہیں۔ کوئی وقت مخصوص نہیں رہا، ہر وقت فلم اور ڈرامے آپ کی پہنچ میں ہیں۔ ان فلموں اور ڈراموں کے گڑ میں پرائی تہذیبوں کا زہر ڈال کر ہمارے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے۔ ایسی کہانیاں فلمائی جاتی ہیں جن کا ہماری تہذیب سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور تو اور، آج کل کے پاکستانی ڈرامے چند فیصد امراء کے طبقے کی ہی نمائندگی کرتے ہیں، جن میں بڑی بڑی گاڑیاں، کوٹھیاں دکھا کر نوجوانوں کو غیر شعوری طور پر اسی طرز زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔
شریف گھرانے بھی کیبل کے جال میں آہستہ آہستہ پھنستے ہیں۔ پہلے پہل جب ٹی وی لگاتے ہیں، تو بزرگوں کی طرف سے سخت آرڈرز ہوتے ہیں، کوئی غیر اخلاقی پروگرام یا سین بچے نہ دیکھ پائیں۔ اس لئے ریموٹ بڑوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی ایسا ویسا سین آیا، جلدی سے چینل تبدیل کرکے جیو ٹی وی لگالیا۔ دھیرے دھیرے یہ اہتمام کم ہوتا جاتا ہے۔ پھر ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ غیر مناسب سین آتےہیں تو ماں باپ چلاتے ہیں، ارے بیٹا بری بات ہے، چینل تبدیل کرلو۔ پھر یہ بات بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ ابتداء میں جو چیز بری لگتی ہے، بعد میں نارمل ہوجاتی ہے۔
گزرے ہوئے دور پر نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے، ہم نے واقعی بہت ترقی کرلی ہے۔ انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ کا ایک سیلاب ہے، جو نئی نسل کو بہا کر لے جارہا ہے۔ ہر طرح کی معلومات آپ سے چند کلک کے فاصلے پر ہیں۔ لیکن وہ سکون جو امی کی سنائی ہوئی کہانیوں میں ملتا تھا، وہ کہیں اور نہیں ملا۔ جو سکون رات کو کھلے آسمان کے نیچے سونے سے پہلے ستاروں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا تھا، وہ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں سونے سے نہیں ملا۔ ہم جس راستے پر جارہے ہیں، کیا وہ ہمیں ہمارا وہ سکون اور ذہنی اطمینان واپس لوٹاسکے گا؟
پھر ٹی وی آیا۔ وہ دن کبھی نہیں بھولتے جب محلے میں واقع اپنے رشتہ داروں کے گھر سب لوگ ٹی وی دیکھنے جمع ہوتے تھے۔ یادیں کچھ دھندلی سی ہیں، ایک بڑا سا ٹی وی میز پر رکھا ہوتا تھا، جس کی بلیک اینڈ وائٹ ڈسپلے اکثر انٹینا کی خرابی کی وجہ سے تصاویر کو غیرواضح کردیتی تھی۔ زمین پر چٹائی بچھادی جاتی تھی، جس پر بچوں کو بٹھادیا جاتا تھا، جبکہ نوجوان اور بزرگ چارپائیوں پر بیٹھ جاتے تھے۔ بہت شدت سے اس لمحے کا انتظار رہتا تھا کہ کب ڈرامہ شروع ہو، جس کے لئے ایک ہفتہ انتظار کیا جاتا تھا۔ ڈرامہ دیکھتے وقت باقی سرگرمیاں موقوف ہوتی تھیں۔ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد ٹی وی بند کردیا جاتا تھا، اور ٹی وی کو کسی کپڑے سے اچھی طرح ڈھانپ دیا جاتا تھا، تاکہ گردوغبار سے محفوظ رہے۔ عموماً ٹی وی اگلے ہفتے ہی دوبارہ آن کیا جاتا۔
اس دور سے آگے بڑھیں تو رنگین ٹی وی کا زمانہ آیا۔ اگر چہ شہروں میں بہت پہلے ہی کلر ٹی وی آچکا تھا، لیکن دیہات کے لوگوں کے لئے یہ ایک عجوبے سے کم نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے پہلی مرتبہ جب کلر ٹی وی ہمارے گاؤں میں آیا تھا، تو میں اکثر لوگوں سے سنتا تھا، کہ آج فلاں ڈرامہ دیکھنے جانا ہے، پتا ہے فلاں کے ہاں ایسا ٹی وی ہے جس میں ہر رنگ اصل دکھائی دیتا ہے۔ ڈرامے بھی اب ہفتے میں ایک کی جگہ تقریباً روزانہ کے حساب سے نشر ہونے لگے۔ اس وقت اکثر گھر سے چھپ کر یا کوئی بہانہ بنا کر اپنے دوست کے ہاں بچوں کے ڈرامے دیکھنے جاتا۔
ڈرامہ دیکھنے کی خاطر کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔ اکثر ٹی وی کا انٹینا خراب ہوجاتا تھا۔ اب اس کو صحیح رخ پر کرنے کے لئے چھت پر جانا پڑتا۔ انٹینا گھمانے کے ساتھ ساتھ زور زور سے آواز لگا کر پوچھنا بھی پڑتا، کہ ٹھیک ہوگیا کہ نہیں؟ اکثر چھت سے اترنے تک کوئی کوا انٹینا پر بیٹھ جاتا اور ٹی وی پھر خراب ہوجاتا۔ نتیجتاً پھر چھت کا دورہ کرنا پڑتا۔
تھوڑا اور آگے چلتے ہیں۔ ہائی اسکول اور اس کے بعد کالج کا زمانہ ہے۔ پہلے ڈش ٹی وی آیا۔ اس کے بعد کیبل نیٹ ورک آیا۔ ابتداء میں کچھ مزاحمت ہوئی۔ لیکن اس کو یہ کہہ کر ٹالا گیا کہ کیبل پر صرف پاکستانی چینل دکھائے جائیں گے۔ خیر، پاکستانی چینل تو آٹے میں نمک کے برابر ہی رہے۔
کیبل کے آنے کے بعد حالت یہ ہوگئی کہ سینکڑوں چینل ہوگئے، جن پر ہر وقت ڈرامے اور فلم چلتے رہتے ہیں۔ کوئی وقت مخصوص نہیں رہا، ہر وقت فلم اور ڈرامے آپ کی پہنچ میں ہیں۔ ان فلموں اور ڈراموں کے گڑ میں پرائی تہذیبوں کا زہر ڈال کر ہمارے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے۔ ایسی کہانیاں فلمائی جاتی ہیں جن کا ہماری تہذیب سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور تو اور، آج کل کے پاکستانی ڈرامے چند فیصد امراء کے طبقے کی ہی نمائندگی کرتے ہیں، جن میں بڑی بڑی گاڑیاں، کوٹھیاں دکھا کر نوجوانوں کو غیر شعوری طور پر اسی طرز زندگی کے لئے بھاگ دوڑ کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔
شریف گھرانے بھی کیبل کے جال میں آہستہ آہستہ پھنستے ہیں۔ پہلے پہل جب ٹی وی لگاتے ہیں، تو بزرگوں کی طرف سے سخت آرڈرز ہوتے ہیں، کوئی غیر اخلاقی پروگرام یا سین بچے نہ دیکھ پائیں۔ اس لئے ریموٹ بڑوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی ایسا ویسا سین آیا، جلدی سے چینل تبدیل کرکے جیو ٹی وی لگالیا۔ دھیرے دھیرے یہ اہتمام کم ہوتا جاتا ہے۔ پھر ریموٹ بچوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ غیر مناسب سین آتےہیں تو ماں باپ چلاتے ہیں، ارے بیٹا بری بات ہے، چینل تبدیل کرلو۔ پھر یہ بات بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ ابتداء میں جو چیز بری لگتی ہے، بعد میں نارمل ہوجاتی ہے۔
گزرے ہوئے دور پر نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے، ہم نے واقعی بہت ترقی کرلی ہے۔ انفارمیشن اور انٹرٹینمنٹ کا ایک سیلاب ہے، جو نئی نسل کو بہا کر لے جارہا ہے۔ ہر طرح کی معلومات آپ سے چند کلک کے فاصلے پر ہیں۔ لیکن وہ سکون جو امی کی سنائی ہوئی کہانیوں میں ملتا تھا، وہ کہیں اور نہیں ملا۔ جو سکون رات کو کھلے آسمان کے نیچے سونے سے پہلے ستاروں کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا تھا، وہ ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں سونے سے نہیں ملا۔ ہم جس راستے پر جارہے ہیں، کیا وہ ہمیں ہمارا وہ سکون اور ذہنی اطمینان واپس لوٹاسکے گا؟