اقبال جہانگیر
محفلین
ٹی ٹی پی پشاور کے چیف نے ہوٹل بم حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک رکن، جنہوں نے خود کو ٹی ٹی پی پشاور کا ضلعی چیف قرار دیتے ہوئے منگل کی شام ایک ہوٹل پر ہوئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی، جس میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے منگل کے روز پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار میں واقع پاک ہوٹل پر ہوئے حملے میں اپنی مداخلت سے انکار کیا تھا، گزشتہ روز بدھ کو مفتی حسان سواتی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ حملہ گزشتہ سال نومبر میں راولپنڈی کے ایک مدرسہ تعلیم القرآن پر ہوئے حملے میں معصوم طالبعلموں کی ہلاکت کا در عمل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہاں زیادہ تر پاراچنار سے لوگوں آتے ہیں اور یہ نا صرف راولپنڈی حملے، بلکہ تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے رہنماء علی اصغر اور ایک بینک منیجر کے قتل کا بھی ردِ عمل تھا۔
مفتی حسان سواتی کا کہنا تھا کہ پشاور ہوٹل پر کیا گیا حملہ ہمارے مرکزی ڈپٹی امیر شیخ خالد حقانی کی ہدایت پر کیا گیا جو راولپنڈی پر ہوئے حملے کا بدلہ تھا۔
مفتی حسان ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے ممبر ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ آیا انہیں کب ٹی ٹی پی پشاور کا چیف مقرر کیا گیا۔
خیال رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے گروپ کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے مفتی حسن کے بیان پر کوئی درِ عمل دیا ہے۔
ادھر سیکیورٹی ذرائع نے کچھ وقت پہلے مفتی حسان کی جاسوسی کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس نئی پش رفت سے حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل پر کیسا اثر مرتب ہوگا، لیکن امن مذاکرات کے لیے طالبان کی جانب سے نامزد کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی تبصرے سے پہلے طالبان سے بات کریں گے۔
کمیٹی کے تین اراکین میں سے ایک جماعتِ اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہم خان نے ڈان کو بتایا کہ جہاں تک ہم جانتے ہیں طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، لیکن ہم اور اس نئے پیش رفت پر بات کرنے کے لیے ان سے رابطہ قائم کریں گے۔
مصالحتی عمل کے لیے حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کے کوآرڈیننٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ترجمان کے باضابطہ جواب کا انتظار کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور ہم اب ان کا انتظار کررہے ہیں۔
مفتی حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حملوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کمزور نہیں ہوگا، لیکن جب تک بات چیت کے ذریعے دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوجاتی، شدت پسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
میڈیا سے بات چیف کرتے ہوئے مفتی حسان کے پس منظر میں ٹی ٹی پی کا بینر تھا اور ان کے ہمراہ حزبل مجاہدین کے رہنما ہارون خان، الیاس گل بھی موجود تھے۔ جن کو 1995ء میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں جیل سے فرار ہونے کے بعد ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کے بعد شہرت ملی تھی۔
ان کا تعلق کرم ایجنسی کے علاقے سدا سے ہے۔
47 سالہ جنگجو نے اگست 2003 میں پشاور کے قریب ایک حملے کیا تھا اور جس اس کے بعد سے ان کا ٹھکانا سمجھا جاتا ہے۔
مفتی حسان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پشاور حملوں کے لیے مست گل کو ہدایت دی تھی۔
http://urdu.dawn.com/news/1002099/ttp-peshawar-chief-owns-up-to-tuesdays-sectarian-attack
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک رکن، جنہوں نے خود کو ٹی ٹی پی پشاور کا ضلعی چیف قرار دیتے ہوئے منگل کی شام ایک ہوٹل پر ہوئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی، جس میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے منگل کے روز پشاور کے علاقے کوچہ رسالدار میں واقع پاک ہوٹل پر ہوئے حملے میں اپنی مداخلت سے انکار کیا تھا، گزشتہ روز بدھ کو مفتی حسان سواتی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ حملہ گزشتہ سال نومبر میں راولپنڈی کے ایک مدرسہ تعلیم القرآن پر ہوئے حملے میں معصوم طالبعلموں کی ہلاکت کا در عمل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہاں زیادہ تر پاراچنار سے لوگوں آتے ہیں اور یہ نا صرف راولپنڈی حملے، بلکہ تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے رہنماء علی اصغر اور ایک بینک منیجر کے قتل کا بھی ردِ عمل تھا۔
مفتی حسان سواتی کا کہنا تھا کہ پشاور ہوٹل پر کیا گیا حملہ ہمارے مرکزی ڈپٹی امیر شیخ خالد حقانی کی ہدایت پر کیا گیا جو راولپنڈی پر ہوئے حملے کا بدلہ تھا۔
مفتی حسان ٹی ٹی پی کی سپریم شوریٰ کے ممبر ہیں، لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ آیا انہیں کب ٹی ٹی پی پشاور کا چیف مقرر کیا گیا۔
خیال رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کے گروپ کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انہوں نے مفتی حسن کے بیان پر کوئی درِ عمل دیا ہے۔
ادھر سیکیورٹی ذرائع نے کچھ وقت پہلے مفتی حسان کی جاسوسی کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس نئی پش رفت سے حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل پر کیسا اثر مرتب ہوگا، لیکن امن مذاکرات کے لیے طالبان کی جانب سے نامزد کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی تبصرے سے پہلے طالبان سے بات کریں گے۔
کمیٹی کے تین اراکین میں سے ایک جماعتِ اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہم خان نے ڈان کو بتایا کہ جہاں تک ہم جانتے ہیں طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے، لیکن ہم اور اس نئے پیش رفت پر بات کرنے کے لیے ان سے رابطہ قائم کریں گے۔
مصالحتی عمل کے لیے حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کے کوآرڈیننٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ترجمان کے باضابطہ جواب کا انتظار کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی کمیٹی کے ساتھ ملاقات کی کوششیں ناکام رہی ہیں اور ہم اب ان کا انتظار کررہے ہیں۔
مفتی حسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان حملوں سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کمزور نہیں ہوگا، لیکن جب تک بات چیت کے ذریعے دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوجاتی، شدت پسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔
میڈیا سے بات چیف کرتے ہوئے مفتی حسان کے پس منظر میں ٹی ٹی پی کا بینر تھا اور ان کے ہمراہ حزبل مجاہدین کے رہنما ہارون خان، الیاس گل بھی موجود تھے۔ جن کو 1995ء میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں جیل سے فرار ہونے کے بعد ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی کے بعد شہرت ملی تھی۔
ان کا تعلق کرم ایجنسی کے علاقے سدا سے ہے۔
47 سالہ جنگجو نے اگست 2003 میں پشاور کے قریب ایک حملے کیا تھا اور جس اس کے بعد سے ان کا ٹھکانا سمجھا جاتا ہے۔
مفتی حسان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پشاور حملوں کے لیے مست گل کو ہدایت دی تھی۔
http://urdu.dawn.com/news/1002099/ttp-peshawar-chief-owns-up-to-tuesdays-sectarian-attack
آخری تدوین: