فیض پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو ۔ فیض احمد فیض

فرخ منظور

لائبریرین
پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو
ہم کیا کرتے کس رہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
اُن رشتوں کے جو چھوٹ گئے
اُن صدیوں کے یارانوں کے
جو اِک اِک کر کے ٹوٹ گئے
جس راہ چلے، جس سمت گئے
یوں پاؤﺅں لہولہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی رِیت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگائی ہے
وہ کہتے تھے، کیوں قحطِ وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پاؤﺅں سے لہو کو دھو ڈالو!
یہ راہیں جب اٹ جائیں گی
سو رستے اِن سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے
1973ء​
(کتاب: شامِ شہر یاراں)​
(فیض احمد فیض)​
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہ کتاب تو مکمل ہو چکی نا!!! مرے دل مرے مسافر کی کیا پوزیشن ہے فرخ؟

جی میں اسی پر کام کر رہا ہوں۔ شامِ شہر یاراں کی کچھ نظمیں رہتی تھیں وہ میں نے ٹائپ کر لی ہیں۔ اس کے بعد کچھ دن تک متذکرہ کتاب بھی شروع کر دوں گا۔
 
Top