نیرنگ خیال
لائبریرین
نئے وقتوں کی بات ہے۔ کہ کہیں اک شاعر رہتا تھا۔ چپ چپ رہنا کسی سے کچھ نہ کہنا اسکی عادت تھی۔ اکثر خود کلامی میں دعوی کرتا پایا جاتا تھا کہ ہم جانتے ہیں کس نے کیا کہنا ہے۔ لیکن کوئی بھی اسکی اس صدا پر کان نہ دھرتا تھا۔ شائد سب سمجھتے تھے کہ ہجر کے آزار میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہے۔
کرنا خدا کا یوں ہوا کہ اک دن علم عروض سیکھنے کے لیئے ارض پر بیٹھا کام کر رہا تھا۔ کہ ایسے میں اسے دور اک اور آدمی الجھا الجھا نظر آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ آدمی پائتھون کے ساتھ الجھا ہے۔پہلے تو اس نے سوچا کہ بھاگ کر لوگوں کو مدد کے لیئے بلائے مگر جلد ہی احساس ہوا کہ وہ آدمی اپنی مرضی سے اس موذی سے بھڑا ہوا ہے۔ اور وہ پائتھون اسکے اشارے کے مطابق حرکت کر رہا ہے۔ یہ دیکھکر اس کو بڑی حیرانگی ہوئی۔ شاعر سے رہا نہ گیا اور وہ اس مسافر سے کچھ یوں ہمکلام ہوا۔
اے انسان تو کون ہے۔
اور تو اس پائتھون سے کیوں الجھا ہے۔
تجھے کس پیر کی بددعا ہے۔
یا پھر تو والدین کا نافرمان تھا۔
اے انسان تو بولتا کیوں نہیں۔
اس مسافر نے اک نظر اس شاعر پر ڈالی اور کہا کہ اے شاعر! میں اک ایسی محبت ہوں جسکا آخری حرف زمانے کے ہاتھوں کٹ چکا ہے۔ میں تیرا ہم وطن ہوں مگر آہ! میرے رنگ روپ اورلباس نے تجھے دھوکہ دے دیا۔ اور تو نے مجھے مسافر سمجھ لیا۔ بےشک یہ زندگی اک سفر ہے۔ اے شاعر! میں پردیسوں میں رہ کر ظاہراًانکے جیسا ہو گیا ہوں مگر یقین کرو کہ یہ غلام عباس والا اوورکوٹ ہے- کبھی کبھار پرانے وقتوں کا ذکر کر کے دل کے بہلانے کا سامان کرتا ہوں۔ اور آج بھی ذوق و شوق سے سنتا ہوں دیسی اسی پردیساں وچ۔۔۔
اب اس شاعر نے اصل موضوع پر آتے ہوئے کہا کہ اے مسافر تو اس موذی سے کیوں بھڑا ہے۔ کیا تو نے بزرگوں سے سن نہیں رکھا
اب اس شاعر کے ذہن میں آیا کہ اگر میری بھی اس موذی سے دوستی ہوجائے تواس زہر بردار کی بدولت یقینا ہجر و فراق کی داستاں میں تلخی بڑھ جائے گی۔ جو حقیقت کے زیادہ قریب اور عوام میں مقبولیت کا باعث ہوگی۔ مزید یہ کہ گرو کہلانے کی دیرینہ خواہش جلد پوری ہوتی نظر آرہی تھی کہ معاشرے میں اس موذی سے دوستی گانٹھنے والے دولت خلوص کی صورت نایاب ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ نوجوان شاعر نے اس دیسی مسافر کی شاگردی اختیار کر لی۔ اور پائتھون سے تعارف شروع ہوگیا۔ ادھر مسافر خوش ہوگیا کہ اک اور بھی اس زہر کا اسیر ہونے جا رہا ہے۔ اور یوں اسکا علم اور بڑھے گا۔ کہ اب پائتھون کے ساتھ کھیلنے کی بجائے وہ اس شاعر کو کھیلتے دیکھ کر مشاہدہ بھی کر سکے گا۔ اس سے موذی کے مزید بھید اس پر کھلیں گے۔
اب وہ دونوں وہاں پر پائتھون کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھے کہ اک ننھی بچی بھی وہاں آدھمکی۔ پہلے پہل تو وہ اسے کھلونا سمجھی۔ مگر جب اس نے جب موذی کے ساتھ ان دونوں کی انسیت دیکھی تو اسے احساس ہوا کہ یہ موذی ان دونوں کے لیئےبہت مقدس ہے۔ اس کا ادراک ہوتے ہی اسے نت نئی شرارتیں سوجھنے لگیں۔ اور وہ اس مقدس موذی کو دور دور سےتنگ کرنے لگی۔ اس بالکی کی ان حرکتوں سے یہ دونوں بہت پریشان ہوگئے۔ موذی بھی شدید ناراض تھا کہ اسکے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اور یہ دونوں نام نہاد دوست کوئی سدباب کرنے سے قاصر ہیں۔
اب دونوں نے اس نٹ کھٹ شرارتی کے بزرگوں کو شکائت لگائی۔ مگر بجائے اسکے وہ شریر اعلی کو سمجھاتے وہ بھی اسکا ساتھ دینے لگے۔ بالکی کے جڑواں بھائی نے بھی بہنا کے ساتھ ملکرخوب ادہم مچایا۔ دونوں جڑواں بہن بھائیوں کی ان شرارتوں سے سخت پریشاں تھے۔ انکو ڈر تھا کہ انکا موذی جو مقدس ہونے کے بعد بے ضرر ہوتا جا رہا تھا محض اک نام بن کر نہ رہ جائے۔ اور لوگوں کے دلوں سے اسکا خوف ہی نکل جائے۔ شاعر یوں بھی خاموش تھا کہ اس بالکی کا جڑواں بھائی جو خود بھی شاعر تھا ، محلے میں اپنی خوش زبانی کی وجہ سے بڑا نام رکھتا تھا۔ مسافر اس لیئے خاموش تھا کہ اس نے محلے کے قبرستان کے پیچھے بنے کوچے میں اسے بکثرت جاتے دیکھا تھا۔ اور اسکا ماننا تھا کہ جب انسان عکس اور آدمی میں فرق روا نہ رکھ سکے تو اس سے دور رہنا چاہیئے۔ اکثر اوقات شاعر بھی ان شرارتوں سے حظ اٹھاتا پایا جاتا اور محلے کے لڑکوں بالوں کے ساتھ شاعری کے نام پر چونچیں لڑاتا ۔ اس وجہ سےمسافر کو احساس ہوا کہ بات ایسے نہیں سلجھنے والی۔ اسکا کوئی مستند حل نکالنا پڑے گا۔ورنہ موذی تو اپنی موت مرے گا ہی۔ ساتھ میں اکلوتے شاگرد سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
اب اس نے سوچا کہ اگر یہ کھیل کود کے شوقین ہیں تو انکو کھیل کود سے قابو کر لیا جائے۔ اور چاند کے موضوع پر شاعری کا کھیل شروع کر دیا۔ مگر یہ ترکیب کارگر نہ ہوئی کہ شریر اعلی اپنے جڑواں بھائی کے بالکل برعکس ثابت ہوئی۔ اور اس نے اس کھیل میں دور سے بھی حصہ نہ لیا۔ اس ناکامی پر مسافر کافی مایوس ہوا اورغم کا ساتھ رم کے مصداق اسی کوچے میں جا پہنچا۔ وہاں عسکری جوان ساقی تھا۔ اس نے مسافر کو بھی پٹیالہ پیگ بنا کر دیا۔ وہاں پر مسافر کی ملاقات اک جوہنی فنش سے ہوئی جو لاتعداد کتابوں کو ترکش میں رکھ کر کمان میں پیگ لگا رہا تھا۔ اس کی یہ عجیب و غریب حرکت دیکھ کر وہ حیران ہوگیا۔ اس نے اس آدمی سے کہا۔ شکل سے تو انتظامیہ کے کوئی آدمی لگتے ہو۔ مگر یہ کتابیں کیوں ترکش میں دھری ہیں۔ اور کمان میں پیگ کیوں چڑھا رکھا ہے۔ اس آدمی نے جواب دینے کی بجائے تھوڑی سی مسافر کے پاوں پر گرا دی۔ اب جو مسافر کو نشہ ہوا۔ تو ذہن کے خوابیدہ گوشے بھی جاگ اٹھے۔ اور اسے اپنے موذی کو بچانے کا حل مل گیا۔ اس نے فورا اٹھ کر اس پیگوں کے شکاری سے ہاتھ ملایا۔ اور اپنے موذی کےگوشے کی راہ لی۔ اسکا ذہن آنے والے لمحات کو چشم تصور سے دیکھ رہا تھا۔ اوراپنے نئے خیال پر خود ہی مسرور ہو رہاتھا۔
کرنا خدا کا یوں ہوا کہ اک دن علم عروض سیکھنے کے لیئے ارض پر بیٹھا کام کر رہا تھا۔ کہ ایسے میں اسے دور اک اور آدمی الجھا الجھا نظر آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ آدمی پائتھون کے ساتھ الجھا ہے۔پہلے تو اس نے سوچا کہ بھاگ کر لوگوں کو مدد کے لیئے بلائے مگر جلد ہی احساس ہوا کہ وہ آدمی اپنی مرضی سے اس موذی سے بھڑا ہوا ہے۔ اور وہ پائتھون اسکے اشارے کے مطابق حرکت کر رہا ہے۔ یہ دیکھکر اس کو بڑی حیرانگی ہوئی۔ شاعر سے رہا نہ گیا اور وہ اس مسافر سے کچھ یوں ہمکلام ہوا۔
اے انسان تو کون ہے۔
اور تو اس پائتھون سے کیوں الجھا ہے۔
تجھے کس پیر کی بددعا ہے۔
یا پھر تو والدین کا نافرمان تھا۔
اے انسان تو بولتا کیوں نہیں۔
اس مسافر نے اک نظر اس شاعر پر ڈالی اور کہا کہ اے شاعر! میں اک ایسی محبت ہوں جسکا آخری حرف زمانے کے ہاتھوں کٹ چکا ہے۔ میں تیرا ہم وطن ہوں مگر آہ! میرے رنگ روپ اورلباس نے تجھے دھوکہ دے دیا۔ اور تو نے مجھے مسافر سمجھ لیا۔ بےشک یہ زندگی اک سفر ہے۔ اے شاعر! میں پردیسوں میں رہ کر ظاہراًانکے جیسا ہو گیا ہوں مگر یقین کرو کہ یہ غلام عباس والا اوورکوٹ ہے- کبھی کبھار پرانے وقتوں کا ذکر کر کے دل کے بہلانے کا سامان کرتا ہوں۔ اور آج بھی ذوق و شوق سے سنتا ہوں دیسی اسی پردیساں وچ۔۔۔
اب اس شاعر نے اصل موضوع پر آتے ہوئے کہا کہ اے مسافر تو اس موذی سے کیوں بھڑا ہے۔ کیا تو نے بزرگوں سے سن نہیں رکھا
"سپاں دے پتر متر نے بنڑدے پاویں چولیاں ددھ پلائیے"
"سنپولیا کبھی بھی دوست نہیں بن سکتا بھلے اس کو اپنے چلو میں بھر کر دودھ پلایا جائے"
اس پر وہ مسافر ہنسا۔ اور کہنے لگا۔ کہ اے نوجوان شاعر! اول تو میرے لیئے پنجابی کا ترجمہ نہ کر کہ میرا تعلق اس شہر سے ہے کہ لوگ اگراسے دیکھے بناء مر جائیں تو کہنے والے کہتے ہیں یہ پید ا ہوئے بغیر ہی مر گیا۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔ میری داستاں بہت غمناک ہے۔ اس پائتھون کا اور میرا گہرا ناطہ ہے۔ یہ مجھے کتنا ہی ڈستا رہے۔ میں اس سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔ میں اس کے زہر کا اسیر ہو چکا ہوں ۔آہ! تو نہیں جانتا کہ اسکا نشہ ہیروئن کے نشے سے بھی زیادہ ہے۔ اس پر اس نوجوان کی توجہ ادھر مرکوز ہوگئی۔ نہاں خانۂ خیال میں تمام ہیروئنوں کے ہیولے رقصاں ہوگئے۔ شاعر کو اس سوچ میں دیکھ کر وہ مسافرقدرے طنزیہ لہجے میں بولا۔ یہ نشے والی ہیروئن ہے۔ فلمی نہیں۔ شاعرچوری پکڑی جانے پر جھینپ گیا اور صراحتی انداز میں کہنے لگا کہ میری مراد بھی وہی تھی۔اب اس شاعر کے ذہن میں آیا کہ اگر میری بھی اس موذی سے دوستی ہوجائے تواس زہر بردار کی بدولت یقینا ہجر و فراق کی داستاں میں تلخی بڑھ جائے گی۔ جو حقیقت کے زیادہ قریب اور عوام میں مقبولیت کا باعث ہوگی۔ مزید یہ کہ گرو کہلانے کی دیرینہ خواہش جلد پوری ہوتی نظر آرہی تھی کہ معاشرے میں اس موذی سے دوستی گانٹھنے والے دولت خلوص کی صورت نایاب ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ نوجوان شاعر نے اس دیسی مسافر کی شاگردی اختیار کر لی۔ اور پائتھون سے تعارف شروع ہوگیا۔ ادھر مسافر خوش ہوگیا کہ اک اور بھی اس زہر کا اسیر ہونے جا رہا ہے۔ اور یوں اسکا علم اور بڑھے گا۔ کہ اب پائتھون کے ساتھ کھیلنے کی بجائے وہ اس شاعر کو کھیلتے دیکھ کر مشاہدہ بھی کر سکے گا۔ اس سے موذی کے مزید بھید اس پر کھلیں گے۔
اب وہ دونوں وہاں پر پائتھون کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھے کہ اک ننھی بچی بھی وہاں آدھمکی۔ پہلے پہل تو وہ اسے کھلونا سمجھی۔ مگر جب اس نے جب موذی کے ساتھ ان دونوں کی انسیت دیکھی تو اسے احساس ہوا کہ یہ موذی ان دونوں کے لیئےبہت مقدس ہے۔ اس کا ادراک ہوتے ہی اسے نت نئی شرارتیں سوجھنے لگیں۔ اور وہ اس مقدس موذی کو دور دور سےتنگ کرنے لگی۔ اس بالکی کی ان حرکتوں سے یہ دونوں بہت پریشان ہوگئے۔ موذی بھی شدید ناراض تھا کہ اسکے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اور یہ دونوں نام نہاد دوست کوئی سدباب کرنے سے قاصر ہیں۔
اب دونوں نے اس نٹ کھٹ شرارتی کے بزرگوں کو شکائت لگائی۔ مگر بجائے اسکے وہ شریر اعلی کو سمجھاتے وہ بھی اسکا ساتھ دینے لگے۔ بالکی کے جڑواں بھائی نے بھی بہنا کے ساتھ ملکرخوب ادہم مچایا۔ دونوں جڑواں بہن بھائیوں کی ان شرارتوں سے سخت پریشاں تھے۔ انکو ڈر تھا کہ انکا موذی جو مقدس ہونے کے بعد بے ضرر ہوتا جا رہا تھا محض اک نام بن کر نہ رہ جائے۔ اور لوگوں کے دلوں سے اسکا خوف ہی نکل جائے۔ شاعر یوں بھی خاموش تھا کہ اس بالکی کا جڑواں بھائی جو خود بھی شاعر تھا ، محلے میں اپنی خوش زبانی کی وجہ سے بڑا نام رکھتا تھا۔ مسافر اس لیئے خاموش تھا کہ اس نے محلے کے قبرستان کے پیچھے بنے کوچے میں اسے بکثرت جاتے دیکھا تھا۔ اور اسکا ماننا تھا کہ جب انسان عکس اور آدمی میں فرق روا نہ رکھ سکے تو اس سے دور رہنا چاہیئے۔ اکثر اوقات شاعر بھی ان شرارتوں سے حظ اٹھاتا پایا جاتا اور محلے کے لڑکوں بالوں کے ساتھ شاعری کے نام پر چونچیں لڑاتا ۔ اس وجہ سےمسافر کو احساس ہوا کہ بات ایسے نہیں سلجھنے والی۔ اسکا کوئی مستند حل نکالنا پڑے گا۔ورنہ موذی تو اپنی موت مرے گا ہی۔ ساتھ میں اکلوتے شاگرد سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
اب اس نے سوچا کہ اگر یہ کھیل کود کے شوقین ہیں تو انکو کھیل کود سے قابو کر لیا جائے۔ اور چاند کے موضوع پر شاعری کا کھیل شروع کر دیا۔ مگر یہ ترکیب کارگر نہ ہوئی کہ شریر اعلی اپنے جڑواں بھائی کے بالکل برعکس ثابت ہوئی۔ اور اس نے اس کھیل میں دور سے بھی حصہ نہ لیا۔ اس ناکامی پر مسافر کافی مایوس ہوا اورغم کا ساتھ رم کے مصداق اسی کوچے میں جا پہنچا۔ وہاں عسکری جوان ساقی تھا۔ اس نے مسافر کو بھی پٹیالہ پیگ بنا کر دیا۔ وہاں پر مسافر کی ملاقات اک جوہنی فنش سے ہوئی جو لاتعداد کتابوں کو ترکش میں رکھ کر کمان میں پیگ لگا رہا تھا۔ اس کی یہ عجیب و غریب حرکت دیکھ کر وہ حیران ہوگیا۔ اس نے اس آدمی سے کہا۔ شکل سے تو انتظامیہ کے کوئی آدمی لگتے ہو۔ مگر یہ کتابیں کیوں ترکش میں دھری ہیں۔ اور کمان میں پیگ کیوں چڑھا رکھا ہے۔ اس آدمی نے جواب دینے کی بجائے تھوڑی سی مسافر کے پاوں پر گرا دی۔ اب جو مسافر کو نشہ ہوا۔ تو ذہن کے خوابیدہ گوشے بھی جاگ اٹھے۔ اور اسے اپنے موذی کو بچانے کا حل مل گیا۔ اس نے فورا اٹھ کر اس پیگوں کے شکاری سے ہاتھ ملایا۔ اور اپنے موذی کےگوشے کی راہ لی۔ اسکا ذہن آنے والے لمحات کو چشم تصور سے دیکھ رہا تھا۔ اوراپنے نئے خیال پر خود ہی مسرور ہو رہاتھا۔