پائینر بک ہاوس

زوجہ اظہر

محفلین
یہ کراچی کا سو سال پرانا پائنیر بک ھاؤس
IMG-20201229-WA0003.jpg

IMG-20201229-WA0001.jpg


دوستو اِس تحریر کو ضرور پڑھیں خاص کر کراچی والے ضرور پڑھیں
یہ منیزہ نقوی ہیں ، امریکہ میں ہوتی ہیں ،کبھی کبھی پاکستان آتی ہیں ۔ کراچی میں ایک کتاب گھر تھا ۔ نام اُس کا پائنیر بک ہاوس تھا ، یہ سو سال پرانا تھا ۔ مگر تباہ ہو چکا تھا ، کوئی یہاں سے کتاب نہیں خریدتا تھا ۔ کتاب گھر کا مالک مکمل طور پر بیزار ہو چکا تھا ، وہ اُسے بیچنے کے لیے تیار تھا اور کتابوں کو خدا حافظ کہنے والا تھا ۔ دوکان تین منزلہ تھی ۔ اور ایسی نایاب جگہ پر اورنایاب طرز میں تعمیر ہوئی تھی کہ اللہ اللہ اور سبحان اللہ ۔ مگر وہاں گاہکوں کی نایابی کے باعث دکان کچرے کباڑ کا ڈھیر ہو گئی تھی۔ ایسے میں کسی نے ڈان میں اُس کے متعلق ایک آرٹیکل لکھا کہ سو سال پرانی دکان بند ہونے جا رہی ہے ۔ وہ آرٹیکل امریکہ میں بیٹھی منیزہ نقوی نے پڑھا ، منیزہ امریکہ سے کراچی پہنچی ، دکان کی حالت دیکھی اور بے چین ہو گئی ۔ دکاندار نہایت مایوسی اور نامرادی کی حالت میں تنہا بیٹھا دل سے گریہ کر رہا تھا ۔ منیزہ نے اُس کو سلام بلایا ،جس کا اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر وآپس چلی آئی ۔ اگلے دن پھر گئی ۔ دکان دار نے اُسے بیزاری سے دیکھا ۔ منیزہ نے کہا ، اگر آپ ناراض نہ ہوں تو مَیں آپ کی دکان میں جھاڑو دے کر کچھ گرد صاف کر دوں ؟ وہ خاموش رہا ، منیزہ نے اُس کی خاموشی کو اجازت سمجھا اور دکان میں صفائی کرنے لگی ، دکان دار خموش اُسے دیکھتا رہا اور ایک بات زبان سے نہیں کی ۔ دکان بہت بڑی تھی ۔ منیزہ شام تک صفائی کرتی رہی ۔ دوسرے دن پھر چلی گئی ، تیسرے دن بھی گئی ۔ اِس طرح منیزہ نقوی نے دکان میں پندرہ دن تک جھاڑ پونجھ کر کے اُسے صاف کیا ۔ اِس عرصے میں وہ دکان دار اُس سے کچھ کچھ بات کرنے لگا تھا ۔جب دکان صاف ہو گئی تو منیزہ نے ایک دن اُسے کہا ، اگر آپ کچھ دن صبر کریں اور اِس دکان کو بند نہ کریں تو ہم اِسے چلا کر دیکھتے ہیں ،اللہ کرے گا چل ہی جائے گی ۔ وہ اِس بات پر بھی خموش ہو گیا ،منیزہ نے اِس کو بھی اثبات جانا اور اُسے چلانے کے درپے ہوئیں ۔ کچھ نئی طرز کی چھوٹی کرسیاں خرید لائی ، دو چار نئی میزیں اور اسٹول خرید لائی ۔ ایک دو لیمپ لے آئی اور اِن سب چیزوں کو اُس نے اُوپر کی منزل میں رکھ دیا تاکہ لوگوں کو یہاں بیٹھ کر چائے پینے اور گپ شپ کرنے کو مناسب جگہ میسر ہو ۔ اُس کے بعد اپنے دوست احبا ب کو وہاں لے جا کر دکھانا شروع کر دیا ۔ اور اُنھیں تحریک دینے لگی کہ وہاں جائیں اور کتابیں خریدیں ۔ ایک دن مَیں کراچی میں تھا کہ منیزہ نے مجھے کہا ناطق ،تمھیں ایک دکان پر لے کر جانا ہے ، رستے میں اُس نے مجھے بہت کچھ باتیں بتائیں کہ کس طرح اُسے اِس دکان اور دکان والے کی کسمپرسی کا پتا چلا اور وہ کیسے یہاں پہنچی اور کس کس طرح اُس نے دکان بحال کرنے کی کوشش کی ۔ ہم دکان پر پہنچے ۔ مَیں نے دیکھا دکان نہایت کسمپرسی کا شکار تھی ، کوئی کتاب وہاں ڈھنگ کی نہیں تھی ۔ کوئی گاہک نہیں تھا ۔ منیزہ نے مجھے دکان کے تینوں پورشن دکھائے ، واللہ میں نے جانا اگر اِسے کارآمد کیا جائے تو کراچی والے شاعروں ادیبوں کے لیے اِس سے بہتر اجلاس کرنے کو کوئی جگہ نہیں تھی ۔ لیکن برباد ہو رہی تھی ۔ دکان کو اچھی طرح سے دیکھ کر ہم نیچے آگئے اور دکان دار کے پاس کاونٹر پر بیٹھ گئے ۔ ہم بیٹھے ہی تھے کہ دو لوگ وہاں آئے ۔ یہ حیدر آباد سے کراچی آئے تھے ۔ اُنھوں نے کچھ ادبی کتابوں کا پوچھا ، اوروہاں پڑی ہوئی چند کتابوں میں سے تین چار کتابیں خرید لیں ۔ دو کتابیں میری بھی خریدیں جو منیزہ پہلے ہی آکسفورڈ فیسٹول کراچی کے کتابوں کے اسٹال سے خرید کر وہاں رکھ چکی تھی ۔ ایک کتاب مَیں نے خود خریدی ۔ اُس کے بعد وہ دونوں لوگ بھی وہاں بیٹھ گئے ۔ منیزہ نے مجھے کہا ناطق آپ اپنی ایک نظم سفیرِ لیلٰی سناو ۔ اتنے میں اُسی دکاندار کے چہرے پر رونق کے آثار نمودار ہوئے ۔ اُس نے ساتھ والی چائے کی دکان سے چائے کا آرڈر دیا ۔ مَیں نے نظم پڑھنا شروع کی ۔ تمام لوگوں پر ایک سحر طاری ہو گیا ۔ نظم سُننے اور چائے پینے کے بعد وہ دونوں لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ دکان دار نے ہم سے خاطب کر کے کہا ، آج ایک مہینے بعد گاہک میری دکان پر آئے ہیں ۔ اللہ جانے اِس میں کیا حکمت ہے اور یہ جو کتابیں خرید کر لے گئے ہیں واللہ یہ پچھلے دس سال سے یہاں پڑی ہیں کسی نے اِنھیں ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ خیر اُس کے بعد مَیں وہاں سے چلا آیا ۔مجھے اسلام آباد وآپس آنا تھا ۔ منیزہ نے اب یہ معمول بنا لیا کہ لوگوں کو پکڑکر وہاں لے جانے لگی اور دکان کی تشہیر شروع کر دی ۔ علاوہ اِس کے اپنے پلے سے دکان کی رینوویشن بھی شروع کی۔ مَیں نے لاہور آ کر ایک پبلشر سے کہا کہ وہاں میری کتابوں سمیت اپنی تمام کتابیں سیل ایںڈ ریٹرن پر بھیجے ، اُس نے میری بات پر عمل کیا ۔ اُدھر منیزہ نقوی نے بھی مخلتف پبلشروں سے کتابیں منگوانا شروع کیں ۔ یوں دکان کی ایک نئی صورت بنتی چلی گئی ۔ میری کئی کتابیں وہاں بکنا شروع ہو گئیں ۔ اور آج اُس دکان نے اللہ کے کرم سے اپنی معاشی حیثیت مستحکم کر لی ہے ۔ وہ دکان یہی ہے ، یہی وہ منیزہ نقوی ہے جسے کوئی لالچ نہیں سوائے اِس کے کہ ایک کتابوں کی دکان بند نہ ہو جائے۔اور یہی وہ دکاندار ہے جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آئی تھی ۔ منیزہ نقوی اللہ ہی آپ کو اِس کا اجر دے گا ۔ نیچے دکان کی موجودہ حالت ہے
میری کراچی والوں سے استدعا ہے وہ اِس دکان سے کتابیں خریدنا اپنا معمول بنائیں ۔اور اپنے ادبی اجلاس بھی یہیں کیا کریں
علی اکبر ناطق

ایڈریس نیچے درج ہے
PIONEER BOOK HOUSE ,OPP DOW MEDICAL COLLEGE M.A.JINNAH ROAD ,KARACHI.
75330 Karachi, Pakistan
0333 3258545
Sanaullah Khan Ahsan
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
یہی وہ دکاندار ہے جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آئی تھی ۔ منیزہ نقوی اللہ ہی آپ کو اِس کا اجر دے گا ۔ نیچے دکان کی موجودہ حالت ہے
بہت خوب منیزہ نقوی کو پروردگار اجرِ عظیم عطا فرمائے
اور آپ کے بہت سی دعائیں۔کراچی ٹریفک کے اژدھا م نے صحیح معنوں میں اسقدر تنگ کیا ہے کہ ہمارے جیسا آدمی جو بورہا پیر اور جوڑیا بازار جیسی جگہ بھی آرام سے گاڑی لے کے پہنچ جاتا تھا اب بہت گھبراتا ہے ورنہ یہ جگہ ہماری پسندیدہ دکانوں میں سے ایک ہے لیکن آپ نے دوبارہ یاد دلائی آپ کا بہت شکریہ ضرور ان شاء اللّہ جائیں گے بہت جلد اب پھر چاہے کریم یا اوبر ہی میں کیوں نا جانا پڑے :):):):)
 
یہ کراچی کا سو سال پرانا پائنیر بک ھاؤس
IMG-20201229-WA0003.jpg

IMG-20201229-WA0001.jpg


دوستو اِس تحریر کو ضرور پڑھیں خاص کر کراچی والے ضرور پڑھیں
یہ منیزہ نقوی ہیں ، امریکہ میں ہوتی ہیں ،کبھی کبھی پاکستان آتی ہیں ۔ کراچی میں ایک کتاب گھر تھا ۔ نام اُس کا پائنیر بک ہاوس تھا ، یہ سو سال پرانا تھا ۔ مگر تباہ ہو چکا تھا ، کوئی یہاں سے کتاب نہیں خریدتا تھا ۔ کتاب گھر کا مالک مکمل طور پر بیزار ہو چکا تھا ، وہ اُسے بیچنے کے لیے تیار تھا اور کتابوں کو خدا حافظ کہنے والا تھا ۔ دوکان تین منزلہ تھی ۔ اور ایسی نایاب جگہ پر اورنایاب طرز میں تعمیر ہوئی تھی کہ اللہ اللہ اور سبحان اللہ ۔ مگر وہاں گاہکوں کی نایابی کے باعث دکان کچرے کباڑ کا ڈھیر ہو گئی تھی۔ ایسے میں کسی نے ڈان میں اُس کے متعلق ایک آرٹیکل لکھا کہ سو سال پرانی دکان بند ہونے جا رہی ہے ۔ وہ آرٹیکل امریکہ میں بیٹھی منیزہ نقوی نے پڑھا ، منیزہ امریکہ سے کراچی پہنچی ، دکان کی حالت دیکھی اور بے چین ہو گئی ۔ دکاندار نہایت مایوسی اور نامرادی کی حالت میں تنہا بیٹھا دل سے گریہ کر رہا تھا ۔ منیزہ نے اُس کو سلام بلایا ،جس کا اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر وآپس چلی آئی ۔ اگلے دن پھر گئی ۔ دکان دار نے اُسے بیزاری سے دیکھا ۔ منیزہ نے کہا ، اگر آپ ناراض نہ ہوں تو مَیں آپ کی دکان میں جھاڑو دے کر کچھ گرد صاف کر دوں ؟ وہ خاموش رہا ، منیزہ نے اُس کی خاموشی کو اجازت سمجھا اور دکان میں صفائی کرنے لگی ، دکان دار خموش اُسے دیکھتا رہا اور ایک بات زبان سے نہیں کی ۔ دکان بہت بڑی تھی ۔ منیزہ شام تک صفائی کرتی رہی ۔ دوسرے دن پھر چلی گئی ، تیسرے دن بھی گئی ۔ اِس طرح منیزہ نقوی نے دکان میں پندرہ دن تک جھاڑ پونجھ کر کے اُسے صاف کیا ۔ اِس عرصے میں وہ دکان دار اُس سے کچھ کچھ بات کرنے لگا تھا ۔جب دکان صاف ہو گئی تو منیزہ نے ایک دن اُسے کہا ، اگر آپ کچھ دن صبر کریں اور اِس دکان کو بند نہ کریں تو ہم اِسے چلا کر دیکھتے ہیں ،اللہ کرے گا چل ہی جائے گی ۔ وہ اِس بات پر بھی خموش ہو گیا ،منیزہ نے اِس کو بھی اثبات جانا اور اُسے چلانے کے درپے ہوئیں ۔ کچھ نئی طرز کی چھوٹی کرسیاں خرید لائی ، دو چار نئی میزیں اور اسٹول خرید لائی ۔ ایک دو لیمپ لے آئی اور اِن سب چیزوں کو اُس نے اُوپر کی منزل میں رکھ دیا تاکہ لوگوں کو یہاں بیٹھ کر چائے پینے اور گپ شپ کرنے کو مناسب جگہ میسر ہو ۔ اُس کے بعد اپنے دوست احبا ب کو وہاں لے جا کر دکھانا شروع کر دیا ۔ اور اُنھیں تحریک دینے لگی کہ وہاں جائیں اور کتابیں خریدیں ۔ ایک دن مَیں کراچی میں تھا کہ منیزہ نے مجھے کہا ناطق ،تمھیں ایک دکان پر لے کر جانا ہے ، رستے میں اُس نے مجھے بہت کچھ باتیں بتائیں کہ کس طرح اُسے اِس دکان اور دکان والے کی کسمپرسی کا پتا چلا اور وہ کیسے یہاں پہنچی اور کس کس طرح اُس نے دکان بحال کرنے کی کوشش کی ۔ ہم دکان پر پہنچے ۔ مَیں نے دیکھا دکان نہایت کسمپرسی کا شکار تھی ، کوئی کتاب وہاں ڈھنگ کی نہیں تھی ۔ کوئی گاہک نہیں تھا ۔ منیزہ نے مجھے دکان کے تینوں پورشن دکھائے ، واللہ میں نے جانا اگر اِسے کارآمد کیا جائے تو کراچی والے شاعروں ادیبوں کے لیے اِس سے بہتر اجلاس کرنے کو کوئی جگہ نہیں تھی ۔ لیکن برباد ہو رہی تھی ۔ دکان کو اچھی طرح سے دیکھ کر ہم نیچے آگئے اور دکان دار کے پاس کاونٹر پر بیٹھ گئے ۔ ہم بیٹھے ہی تھے کہ دو لوگ وہاں آئے ۔ یہ حیدر آباد سے کراچی آئے تھے ۔ اُنھوں نے کچھ ادبی کتابوں کا پوچھا ، اوروہاں پڑی ہوئی چند کتابوں میں سے تین چار کتابیں خرید لیں ۔ دو کتابیں میری بھی خریدیں جو منیزہ پہلے ہی آکسفورڈ فیسٹول کراچی کے کتابوں کے اسٹال سے خرید کر وہاں رکھ چکی تھی ۔ ایک کتاب مَیں نے خود خریدی ۔ اُس کے بعد وہ دونوں لوگ بھی وہاں بیٹھ گئے ۔ منیزہ نے مجھے کہا ناطق آپ اپنی ایک نظم سفیرِ لیلٰی سناو ۔ اتنے میں اُسی دکاندار کے چہرے پر رونق کے آثار نمودار ہوئے ۔ اُس نے ساتھ والی چائے کی دکان سے چائے کا آرڈر دیا ۔ مَیں نے نظم پڑھنا شروع کی ۔ تمام لوگوں پر ایک سحر طاری ہو گیا ۔ نظم سُننے اور چائے پینے کے بعد وہ دونوں لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ دکان دار نے ہم سے خاطب کر کے کہا ، آج ایک مہینے بعد گاہک میری دکان پر آئے ہیں ۔ اللہ جانے اِس میں کیا حکمت ہے اور یہ جو کتابیں خرید کر لے گئے ہیں واللہ یہ پچھلے دس سال سے یہاں پڑی ہیں کسی نے اِنھیں ہاتھ تک نہیں لگایا ۔ خیر اُس کے بعد مَیں وہاں سے چلا آیا ۔مجھے اسلام آباد وآپس آنا تھا ۔ منیزہ نے اب یہ معمول بنا لیا کہ لوگوں کو پکڑکر وہاں لے جانے لگی اور دکان کی تشہیر شروع کر دی ۔ علاوہ اِس کے اپنے پلے سے دکان کی رینوویشن بھی شروع کی۔ مَیں نے لاہور آ کر ایک پبلشر سے کہا کہ وہاں میری کتابوں سمیت اپنی تمام کتابیں سیل ایںڈ ریٹرن پر بھیجے ، اُس نے میری بات پر عمل کیا ۔ اُدھر منیزہ نقوی نے بھی مخلتف پبلشروں سے کتابیں منگوانا شروع کیں ۔ یوں دکان کی ایک نئی صورت بنتی چلی گئی ۔ میری کئی کتابیں وہاں بکنا شروع ہو گئیں ۔ اور آج اُس دکان نے اللہ کے کرم سے اپنی معاشی حیثیت مستحکم کر لی ہے ۔ وہ دکان یہی ہے ، یہی وہ منیزہ نقوی ہے جسے کوئی لالچ نہیں سوائے اِس کے کہ ایک کتابوں کی دکان بند نہ ہو جائے۔اور یہی وہ دکاندار ہے جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آئی تھی ۔ منیزہ نقوی اللہ ہی آپ کو اِس کا اجر دے گا ۔ نیچے دکان کی موجودہ حالت ہے
میری کراچی والوں سے استدعا ہے وہ اِس دکان سے کتابیں خریدنا اپنا معمول بنائیں ۔اور اپنے ادبی اجلاس بھی یہیں کیا کریں
علی اکبر ناطق

ایڈریس نیچے درج ہے
PIONEER BOOK HOUSE ,OPP DOW MEDICAL COLLEGE M.A.JINNAH ROAD ,KARACHI.
75330 Karachi, Pakistan
0333 3258545
Sanaullah Khan Ahsan

مضمون میں صرف ایک شے کی کمی ہے، یعنی جہاں سے یہ مضمون لیا ہے اس کا حوالہ یعنی لنک۔

ہم نے یہ مضمون دو تین سال پہلے پڑھا تھا شاید۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
مضمون میں صرف ایک شے کی کمی ہے، یعنی جہاں سے یہ مضمون لیا ہے اس کا حوالہ یعنی لنک۔

ہم نے یہ مضمون دو تین سال پہلے پڑھا تھا شاید۔

آپ نے بجا فرمایا ہے..
واٹس ایپ پر موصول ہوا .. معلوماتی تھا لہذا نیٹ پر تھوڑی تحقیق کی اور شریک محفل کیا
 

محمداحمد

لائبریرین
منیزہ نقوی نے یقیناً بہت اچھا کام کیا۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جزائے خیر دے۔

مضمون میں صرف ایک شے کی کمی ہے، یعنی جہاں سے یہ مضمون لیا ہے اس کا حوالہ یعنی لنک۔

ہم نے یہ مضمون دو تین سال پہلے پڑھا تھا شاید۔

یہ مضمون میں نے بھی پڑھا تھا لیکن کب پڑھا تھا اس کا اندازہ نہیں ہے۔
 
Top