نوید ناظم
محفلین
انسان دنیا میں آتے ہی پہلے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں جلوہ گر نہیں ہوا۔ یہ اظہار اصل میں پابندی کا اظہار ہے۔۔۔وہ وقت کی قید میں آ جاتا ہے، زبان رکھنے کے باوجود بول نہیں سکتا، ٹانگیں ہونے کے باوجود چل نہیں سکتا، وہ ایک حصار میں ہوتا ہے اور یہ حصار پابندی کا حصار ہے۔
خواہش کی آزادی انسان میں آزادی کی خوہش پیدا کرتی ہے مگر زندگی کی قید اس کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیتی۔ انسان ایک ماحول میں پیدا ہونے کا پابند ہے، اس کے رشتہ دار، ماں باپ، زبان، معاشرہ سب پہلے سے موجود ہوتا ہے اور یہ کسی سنائے ہوئے فیصلے کی طرح وہاں پر زندگی کو بسر کرتا ہے۔ اگر علاقہ بدل لیا جائے تب بھی یاد نہیں بدلتی، باپ اگر اپنے بیٹے کو عاق کر دے تب بھی وہی اُس کا باپ رہتا ہے۔۔۔۔ انسان اگر آزاد ہونے کا فیصلہ کر لے تب بھی اپنے فیصلے کی پابندی میں آ جاتا ہے۔۔۔۔ اس جہانِ رنگ و بو میں آزادی ممکن نہیں، خالق نے کہا کہ اے جن و بشر اگر تم اس زمین و آسمان کے کنارے سے نکل سکتے ہو تو نکل جاو مگر تم نہیں نکل سکتے۔۔۔۔۔۔ إِلَّا بِسُلْطَانٍ۔
انسان آزادی کی آرزو میں زندگی گزارتا رہتا یے اور پابندی کا سفر طے ہوتا رہتا ہے۔ یہ خیال کہ ہم آزاد ہیں اسے تشفی دیتا رہتا یے۔ ایسے جیسے کسی بیمار بچے کو ماں لوری دے کر سُلاتی ہے۔ ایک عمر تک انسان خوراک کھانے میں آزاد رہتا ہے مگر بھوک کی پابندی کے ساتھ، اور اگر یہ اس پابندی سے بغاوت کر لے تو زندگی کا توازن بگڑنے لگتا ہے۔۔۔اگر آدمی اچھا بچہ بنا بھی رہے تب بھی وقت ہمیشہ اچھا نہیں رہتا، جو سورج طلوع ہوتا یے وہ غروب ضرور ہوتا ہے۔
خالق نے مخلوق کو اپنے امر کے حصار میں رکھا۔ اس حصار سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔۔۔روح کو اللہ کا امر کہا گیا اور یہ امر ہمہ حال انسان کے ساتھ ہے۔۔۔اس کے ساتھ بھی جس کو اس بات کا اعتراف نہ ہو۔ ہم محنت کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں اور پھر ایک منطقی نتیجے تک پہنچتے ہیں، یہ ہماری مرضی نہیں ہے بلکہ یہ ایک پابندی ہے کہ ہر انسان کا عمل ایک نتیجے پر پہنچے گا۔
انسان آزادی چاہتا ہے، عمل سے آزادی، رد عمل سے آزادی، اور نتیجوں سے بھی آزادی۔ مگر یہ ممکن نہیں ہو پاتا اور یوں اس کے اندر کا اضطراب بڑھتا رہتا ہے۔ یہ خود کو آزاد ثابت کرنے کے لیے کئی راستوں سے فرار کی کوشش کرتا ہے، مذہب سے آزادی، ضمیر کی آواز سے آزادی، خالق کی منشاء سے آزادی۔۔۔۔مگر یہ سب بند گلیاں ہیں۔۔۔۔ انسان آزدی آزادی کرتے ہوئے نئے قید خانے منتخب کرتا ہے۔
اصل میں آزادی کا راستا ایک ہے اور وہ یہ کہ انسان اس زندگی اور اس زندگی کی پابندیوں کو تسلیم کر لے۔۔۔اپنے قد کی حد کو تسلیم کرنا ہی عافیت کی بات یے۔ اپنے ضمیر کی قید سے رہائی چاہنے والا کبھی آزاد نہیں ہو سکتا، احساس کا مجرم زندگی بھر مجرم رہتا ہے۔ کوئی بھی انسان ساری دنیا سے بھاگ سکتا ہے مگر اپنے آپ سے نہیں بھاگ سکتا، اپنے مزاج سے رہائی کی راہ کوئی نہیں۔ اصل میں پابندی کی اُتنی صورتیں ہیں جتنی کہ انسان کی اپنی۔۔۔ پابندی' مرد و زن، نسل، زبان، مذہب، کسی سے سروکار نہیں رکھتی بس اس نے انسان کو اندر سےجکڑا ہوا ہے۔۔ انسان کے ظاہری اعضاء اس کے تابع ہیں مگر خود اس کے اپنے اندر کے اعضاء اس کے تابع نہیں بلکہ وہ کسی اور پابندی میں ہیں، خود اپنے دل کی دھڑکن اپنے بس میں نہیں تو دوسری بات کیا کرنی۔
درحقیقت آزادی کا مطلب یہی ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ہم کہاں کہاں کتنے کتنے پابند ہیں۔ ورنہ شتر بے مہاری کی حسرت، حسرتِ ناتمام کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے۔ یہ کائنات اصل میں ہماری ملکیت نہیں اس میں رہتے ہوئے مکمل آزادی کا خیال ایک مکمل غلط فہمی کہلائے گی۔ اس جہان کا ایک خالق ہے اور وہ بے نیاز ہے۔۔۔۔۔۔ اور بے نیاز تو پھر بے نیاز ہوتا ہے۔۔۔۔ اس نے جو چاہا کیا اور وہ جو چاہے کرے۔۔۔۔وہ چاہے تو انسان دنیا کی قید میں آ کر آزادی کے دعوے کرتا پھرے اور چاہے تو کسی خوش نصیب کو غمِ زلفِ یار کا اسیر کر کے غمِ دو جہاں سے آزاد کر دے۔
خواہش کی آزادی انسان میں آزادی کی خوہش پیدا کرتی ہے مگر زندگی کی قید اس کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دیتی۔ انسان ایک ماحول میں پیدا ہونے کا پابند ہے، اس کے رشتہ دار، ماں باپ، زبان، معاشرہ سب پہلے سے موجود ہوتا ہے اور یہ کسی سنائے ہوئے فیصلے کی طرح وہاں پر زندگی کو بسر کرتا ہے۔ اگر علاقہ بدل لیا جائے تب بھی یاد نہیں بدلتی، باپ اگر اپنے بیٹے کو عاق کر دے تب بھی وہی اُس کا باپ رہتا ہے۔۔۔۔ انسان اگر آزاد ہونے کا فیصلہ کر لے تب بھی اپنے فیصلے کی پابندی میں آ جاتا ہے۔۔۔۔ اس جہانِ رنگ و بو میں آزادی ممکن نہیں، خالق نے کہا کہ اے جن و بشر اگر تم اس زمین و آسمان کے کنارے سے نکل سکتے ہو تو نکل جاو مگر تم نہیں نکل سکتے۔۔۔۔۔۔ إِلَّا بِسُلْطَانٍ۔
انسان آزادی کی آرزو میں زندگی گزارتا رہتا یے اور پابندی کا سفر طے ہوتا رہتا ہے۔ یہ خیال کہ ہم آزاد ہیں اسے تشفی دیتا رہتا یے۔ ایسے جیسے کسی بیمار بچے کو ماں لوری دے کر سُلاتی ہے۔ ایک عمر تک انسان خوراک کھانے میں آزاد رہتا ہے مگر بھوک کی پابندی کے ساتھ، اور اگر یہ اس پابندی سے بغاوت کر لے تو زندگی کا توازن بگڑنے لگتا ہے۔۔۔اگر آدمی اچھا بچہ بنا بھی رہے تب بھی وقت ہمیشہ اچھا نہیں رہتا، جو سورج طلوع ہوتا یے وہ غروب ضرور ہوتا ہے۔
خالق نے مخلوق کو اپنے امر کے حصار میں رکھا۔ اس حصار سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔۔۔روح کو اللہ کا امر کہا گیا اور یہ امر ہمہ حال انسان کے ساتھ ہے۔۔۔اس کے ساتھ بھی جس کو اس بات کا اعتراف نہ ہو۔ ہم محنت کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں اور پھر ایک منطقی نتیجے تک پہنچتے ہیں، یہ ہماری مرضی نہیں ہے بلکہ یہ ایک پابندی ہے کہ ہر انسان کا عمل ایک نتیجے پر پہنچے گا۔
انسان آزادی چاہتا ہے، عمل سے آزادی، رد عمل سے آزادی، اور نتیجوں سے بھی آزادی۔ مگر یہ ممکن نہیں ہو پاتا اور یوں اس کے اندر کا اضطراب بڑھتا رہتا ہے۔ یہ خود کو آزاد ثابت کرنے کے لیے کئی راستوں سے فرار کی کوشش کرتا ہے، مذہب سے آزادی، ضمیر کی آواز سے آزادی، خالق کی منشاء سے آزادی۔۔۔۔مگر یہ سب بند گلیاں ہیں۔۔۔۔ انسان آزدی آزادی کرتے ہوئے نئے قید خانے منتخب کرتا ہے۔
اصل میں آزادی کا راستا ایک ہے اور وہ یہ کہ انسان اس زندگی اور اس زندگی کی پابندیوں کو تسلیم کر لے۔۔۔اپنے قد کی حد کو تسلیم کرنا ہی عافیت کی بات یے۔ اپنے ضمیر کی قید سے رہائی چاہنے والا کبھی آزاد نہیں ہو سکتا، احساس کا مجرم زندگی بھر مجرم رہتا ہے۔ کوئی بھی انسان ساری دنیا سے بھاگ سکتا ہے مگر اپنے آپ سے نہیں بھاگ سکتا، اپنے مزاج سے رہائی کی راہ کوئی نہیں۔ اصل میں پابندی کی اُتنی صورتیں ہیں جتنی کہ انسان کی اپنی۔۔۔ پابندی' مرد و زن، نسل، زبان، مذہب، کسی سے سروکار نہیں رکھتی بس اس نے انسان کو اندر سےجکڑا ہوا ہے۔۔ انسان کے ظاہری اعضاء اس کے تابع ہیں مگر خود اس کے اپنے اندر کے اعضاء اس کے تابع نہیں بلکہ وہ کسی اور پابندی میں ہیں، خود اپنے دل کی دھڑکن اپنے بس میں نہیں تو دوسری بات کیا کرنی۔
درحقیقت آزادی کا مطلب یہی ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ہم کہاں کہاں کتنے کتنے پابند ہیں۔ ورنہ شتر بے مہاری کی حسرت، حسرتِ ناتمام کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے۔ یہ کائنات اصل میں ہماری ملکیت نہیں اس میں رہتے ہوئے مکمل آزادی کا خیال ایک مکمل غلط فہمی کہلائے گی۔ اس جہان کا ایک خالق ہے اور وہ بے نیاز ہے۔۔۔۔۔۔ اور بے نیاز تو پھر بے نیاز ہوتا ہے۔۔۔۔ اس نے جو چاہا کیا اور وہ جو چاہے کرے۔۔۔۔وہ چاہے تو انسان دنیا کی قید میں آ کر آزادی کے دعوے کرتا پھرے اور چاہے تو کسی خوش نصیب کو غمِ زلفِ یار کا اسیر کر کے غمِ دو جہاں سے آزاد کر دے۔