مرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی
راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں، تیری سیاست فن میں
زہر کیوں گھولتی ہے
میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا
رات دن رولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے