پابند بحور شاعری کی لڑی میں میری پہلی غزل۔شیشے کی صداؤں سے بندھا ایک سماں تھا

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر چہ یہ کاوش اصلاح سخن میں پیش ہو چکی ہے تاہم احباب اگر رائےدینا چاہیں تو بسرو چشم۔


شیشے کی صداؤں سے بندھا ایک سماں تھا
میں منتظر ِجنبشِ انگشتِ مغاں تھا

پیہم جو تبسم مرے چہرے سے عیاں تھا
وہ اس دلِ صد چاک پہ اک کوہِ گراں تھا

نومیدئ عالم ہوئی مہمیز جنوں کو
اوپر سے مہر بان کفِ کوزہ گراں تھا

اسکندر و پرویز تو ویرانے میں گم تھے
پر تربتِ درویش پہ میلے کا سماں تھا

کی جس کے لیے وسعتِ افلاک مسخر
وہ گوہر ِمقصود قریب ِ رگِ جاں تھا

آسودگیءِ خاطرِ مضطر ہوا آخر
اک درد جو مدت سے مرے دل میں نہاں تھا

کیوں تیز ہیں اجرام فلک اے شبِ یلدا ؟
کیا تیری طرح ان کو مرے غم کا گماں تھا ؟

کیا ظلم ہے کیا جہل ہے معلوم نہیں کچھ
شانوں پہ مگر بار امانت کا گراں تھا

تھا ناصیہ فرسا جو ترے نقشِ قدم پر
محجوب بصد جلوہ نہ مقدورِبیاں تھا​
 
مدیر کی آخری تدوین:
سبحان اللہ۔ بہت خوب ہے جناب عاطف صاحب۔ بہت داد۔
سچ کہا:
کی جس کے لیے وسعتِ افلاک مسخر
وہ گوہر ِمقصود قریب ِ رگِ جاں تھا

حقیقت ہے کہ وہ گوہرِ مقصود تو قرُب کی حدود سے بھی آگے ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سبحان اللہ۔ بہت خوب ہے جناب عاطف صاحب۔ بہت داد۔
سچ کہا:
کی جس کے لیے وسعتِ افلاک مسخر
وہ گوہر ِمقصود قریب ِ رگِ جاں تھا
حقیقت ہے کہ وہ گوہرِ مقصود تو قرُب کی حدود سے بھی آگے ہے۔
پذیرائی کے لیے سراپا سپاس ہوں۔مزمل بھائی ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب، ایک بار پھر داد

’ب‘ کہاں گئی، اس کو بھی حذف کر دیا؟؟

یہ کوئی اسپیشل زحاف لے کر آئے ہیں ابن رضا بھائی۔ :)
جی ضرورت ایجاد کی ماں هے
ب پر اشباع کے اطلاق سے" بے " سبب بنا کر(بے سبب هی ) گرا دیا:D:)
 
آخری تدوین:
Top