فرخ منظور
لائبریرین
پابند جوں دخاں ہیں پریشانیوں میں ہم
یارب ہیں کس کی زلف کے زندانیوں میں ہم
ہوتی نہ یادِ زلف تو خطِ شکستہ میں
لکھتے الف خطوں کی نہ پیشانیوں میں ہم
زنجیر میں بھی نالۂ زنجیر کی طرح
جوشِ جنوں میں رہتے ہیں جولانیوں میں ہم
پائی نہ تیغِ عشق سے ہم نے کبھی پناہ
قربِ حرم میں بھی ہیں تو قربانیوں میں ہم
دوزخ بھی جائے نعرۂ ہلِ من مزید بھول
لائیں جو آہ کو شرر افشانیوں میں ہم
پاکوبیوں کو مژدہ ہو زنداں کو ہو نوید
پھر ہیں جنوں کی سلسلۂ جنبانیوں میں ہم
مطلب سے اپنے کون ہے آگاہ جُز خدا
جوں خطِؑ سر نوشت ہیں پیشانیوں میں ہم
ہیں آئنہ میں صورتِ تصویر آئنہ
آئنہ رُو کے سامنے حیرانیوں میں ہم
ہو وہ عزیز سورۂ یوسف سے بھی جدا
رکھ دیں تری شبیہ جو کنعانیوں میں ہم
کیا جانیں ہم زمانہ کو حادث ہے یا قدیم
کچھ ہو بلا سے اپنی کہ ہیں فانیوں میں ہم
کیوں جی کے ہجر میں ہوئے شرمندہ یار سے
اب مر رہے ہیں اس کی پشیمانیوں میں ہم
سینہ کا چاک سینے کی فرصت کہاں کے ہیں
مصروف زخمِ دل کی مگس رانیوں میں ہم
جا سکتے ضعف سے نہیں کوچے میں اس کے ذوق
بہ جائیں کاش گریہ کی طغیانیوں میں ہم
(استاد شیخ ابراہیم ذوق)