سید شہزاد ناصر
محفلین
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
چلتے ہوں تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو میخانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے
عشق کےمیدان داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گذاراں ہے
دِل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے
لو ہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے
کو ہکن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میر نہایت پاس عزّت داراں ہے