پارٹی منشور اور عورتیں

womenvotingafp-6701-1.jpg

اے ایف پی فائل فوٹو۔۔۔۔

عورت آج پھر انتخابات کے منظر نامے پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے اس لئے نہیں کہ وہ آئندہ ہونے والے انتخابی نتائج میں ایک فیصلہ کن عنصر ہوگی – لیکن” عورتوں کا مسئلہ ” یقینا پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں طور پر پیش پیش نظر آئیگا اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں عورتوں کی تحریک ایک قدم اور آگے بڑھے گی-

ان خواتین امیدواروں کی مثال لیجئے جنہوں نے عمومی نشستوں کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کئے ہیں اور میڈیا میں خاصی ہلچل مچادی ہے اور خواتین ایکٹویسٹس بھی باواز بلند انکی حمایت کر رہی ہیں – انتخابات کے بعد مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والی ان کی ہم قدم بہنیں بھی مخصوس نشستوں کیلئے نامزد کی جائینگی اور اسمبلیوں میں عورتوں کی قوت کو مستحکم بنانے میں اپنا حصہ ادا کرینگی -
یہی نہیں کہ جو عورتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں وہ نہ صرف پارلیمنٹ میں اپنی تعدادی موجودگی ثابت کر رہی ہیں بلکہ کئی اور طریقوں سے بھی اپنی موجودگی کا اظہار کر رہی ہیں -
مثال کے طور پر باجوڑ کی بادام زری ، دیر کی نصرت بیگم اور حیدرآباد کی ویرو کوہلی کو لیجئے جنہوں نے روایت کو توڑتے ہوئے سیاست میں عورتوں کے سیاسی حقوق کے تعلق سے ایک سیاسی اعلامیہ کی حثییت اختیار کر لی ہے – اور نتیجتاً قومی اور خاندانی زندگی کے ہر شعبے میں اپنی مہر ثبت کر دی ہے – یہ مثبت قدم اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ صورت حال ان علاقوں میں رونما ہوئی ہے جہاں عورتیں سب سے زیادہ جبرو استبداد کا شکار ہیں -
ہم سب جانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں مردوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی عورتوں کوانتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دینگے – جو ان مردوں کی پسماندہ ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت ہے – کوہلی ایک بھیل عورت ہے جو بیگار مزدور تھی – اس نے کسی نہ کسی طور پر بیگار کی زندگی سے خود کو نجات دلائی اور دوسروں کو بھی اس کا راستہ دکھایا – یہ امر کہ یہ عورتیں انتخابی عمل میں حصہ لے رہی ہیں پاکستان میں عورتوں کی تحریک کے پس منظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے – وہ انتخابات میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں یہ بات غیر اہم ہے -
ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ عورتوں کی تحریک سن بلوغت کو پہنچ رہی ہے – اس کا ثبوت عورت فاونڈیشن کی جانب سے اجرا ہونے والی وہ دستاویزہے جس کا عنوان ہے “سجسشنز آن ویمنز امپاورمنٹ فار الیکشن مینیفسٹوز آف پولیٹیکل پارٹیز” ( سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں عورتوں کو بااختیار بنانے کی تجاویز)- اس دستاویز کو ناہید عزیز اور طاہرہ عبدالله نے تحریر کیا ہے-
یہ کوئی روایتی قسم کی دستاویز نہیں ہے جس میں ان تبدیلیوں کی جانب اشارہ کیا جائے جن کی مدد سے عورتوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ اس دستاویز میں چودہ مختلف پہلوؤں کا ذکر ہے جو عورتوں کی زندگی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں اور جنھیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے -
اس دستاویزمیں جن پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے ان کا تعلق عورتوں پر ہونیوالے ظلم و ستم، تشدد، غربت، معیشت اورقانون سازی، عدلیہ اور قانون کی بالادستی سے لیکر تخلیقی آرٹ، کھیل، ماحول اور ماحولیاتی تبدیلی، عورت اور میڈیا وغیرہ ہے- یہ کتابچہ گہرے مشاہدات کا نچوڑ ہے اور اس پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے-
ان کا مقصد محض یہ نہیں تھا کہ ایسے مسائل کی فہرست جاری کی جائے جو”کی جاسکتی ہیں” یا “جنھیں نہیں کرنا چاہئے” اور جن سے وہ لوگ بخوبی واقف ہیں جنھیں عورتوں کے مسائل سے گہری دلچسپی ہے- اس کے برعکس عزیز اور عبدالله نے واضح طور پر اس جانب اشارہ کیا ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر اور قومی سطح پرعورتوں کے بارے میں جو اعداد و شمار اکٹھا کئے گئے ہیں، وہ ناکافی ہیں-
ان اعدادو شمارمیں اس عدم مساوات کو چھپایا گیا ہے جو ذیلی اور قومی سطح پر موجود ہیں، مزید یہ کہ غیر مراعات یافتہ طبقات کے بارے میں جو اعداد و شمار فراہم کئے جاتے ہیں ان کا تجزیہ نہیں کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے ہمیں اس بات کا بہت کم اندازہ ہو تا ہے کہ ان عورتوں کے خلاف کس قسم کا امتیاز برتا جارہا ہے جن کا تعلق غیر مراعات یافتہ طبقات سے ہے مثلا کسان، مزدور، خطرات کا شکار آبادیاں یا وہ لوگ جو ملک کے اندر ہی بے گھر ہوچکے ہیں-
چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنس کی بنیاد پر اعداد و شمار اکٹھے کئے جائیں اور انہیں جدول کی شکل دی جائے- ایسی پالیسی بنانے کیلئے جو عورتوں کی فلاح وبہبود اور انھیں بااختیار بنانے اور مساوات اور انصاف پر مبنی ہو، اس قسم کے اعدادوشمار ناگزیر ہیں-
ایک اور اہم بات جو مندرجہ بالا دستاویز میں بیان کی گئی ہے وہ ہے دوررس اور وسیع اسٹرکچرل تبدیلی کیلئے قومی اقدامات کا احساس. اس کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ عورتوں کے تعلق سے جو تعصبات اور نابرابری موجود ہے وہ خود ہماری ریاست، معاشرے اور معاشی ڈھانچے میں موجود ہیں- اس عدم مساوات کو دور کرنے کی ضرورت ہے جسکے لئے ہمیں بنیادی سطح کی تبدیلیاں کرنی ہونگی اور محض یہ بتانا کافی نہیں ہے کہ عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے کن شعبوں میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے-
مثلاً، جیسا کہ اس دستاویز میں کہا گیا ہے اگر قانون اراضی میں اصلاحات کی جائیں، دولت کی مساویانہ تقسیم کی جائے اور منصفانہ زرعی پالیسیاں تشکیل دی جائیں تو عورتوں کی حالت کوبڑی حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے، بجائے اس کے کہ ان کے حقوق کے تعلق سے جزوی اور نامکمل اقدامات کئے جائیں-
مصنفین کی خواہش ہے کہ جنس کی بنیاد پر مساوات کا اصول قومی زندگی کے ہر شعبہ کا لازمی حصہ ہونا چاہئے- ان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہر پارٹی کے منشور کا ویژن، ان کے اہداف اور مقاصد کو لازمی طور پر جنس کے تناظر میں پیش کیا جانا چاہئے-
اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ پارٹیاں اپنے وعدے پورا کرینگی، عزیز اور عبدللہ کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ کس طرح اپنے منشور کوعملی جامہ پہنائینگی اور ریاستی اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ باقاعدگی سے اس بات پر نظر رکھیں کہ پارٹیاں اپنے منشور پرکس طرح عمل درآمد کر رہی ہیں- ان سیاسی پارٹیوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو انتخابات میں ناکام ہوگئیں ہیں-
مندرجہ بالا تجاویز نومبر 2012 کو جاری ہوئی تھیں جب کہ کسی پارٹی کا منشور بھی منظر عام پر نہیں آیاتھا- افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی پارٹی نے بھی اس کا سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا- کسی بھی پارٹی کے انتخابی منشور میں کوئی ایسا پروگرام نظر نہیں آتا جس پر عورتوں کے مسائل کومرکز توجہ بنایا گیا ہو نہ ہی بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کا کوئی وعدہ ہی کیا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا کہ عورتوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے، معیشت اور معاشرے میں جنس کی بنیاد پر مساوات کا اصول نافذ کیا جائے تاکہ عورتوں کو بااختیار بنایا جا سکے-
مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کرتمام پارٹیاں خاص طور پرپی پی پی زبانی طور پر بہت دعوے کرتی ہیں لیکن یہ بتانے میں ناکام رہی ہیں کہ وہ عورتوں کے تعلق سے ان وعدوں کو کس طرح پورا کرینگی جن کے وہ سرسری طور پر دعوے کرتی رہتی ہیں-
یوں محسوس ہوتا ہے کہ مایوسی ہمارا مقدر ہے- جب تک عزیز اور عبدللہ کا طرز فکراختیارنہیں کیا جائیگا —- خواہ ہر بات میں نہیں لیکن کم از کم وسیع تر معنوں میں —– تو عین ممکن ہے کہ سیاست میں کم وبیش صورت حال یہی رہیگی- لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی جدوجہد آگے نہیں بڑھےگی-

تحریر: زبیدہ مصطفی
ترجمہ:سیدہ صالحہ
ربط
 
Top