پاس ایسے بهی نہ آ - غزل برائے اصلاح تبصرہ تنقید

پاس ایسے بهی نہ آ خوف جدائی نہ رہے
دور ایسے بهی نہ جا ظرف دہائی نہ رہے

میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر
یوں اسیر اب کے کرو شوق رہائی نہ رہے

خواب بن کر ہی سہی پر یوں نگاہوں میں رہو
تم نہ ہو پاس تو احساس جدائی نہ رہے

ایسے احساس تجسس کو نہ اکسا یہ نہ ہو
تیری خلقت میں خدا تیری خدائی نہ رہے
 
میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر​
یوں اسیر اب کے کرو شوق رہائی نہ رہے​

خواب بن کر ہی سہی پر یوں نگاہوں میں رہو​
تم نہ ہو پاس تو احساس جدائی نہ رہے​

وااااااااہ سارہ
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر
یوں اسیر اب کے کرو شوق رہائی نہ رہے
لفظ"ترے" واحد حاضر کی ضمیر ہے۔
فعل"کرو"میں جمع حاضرکی ضمیر ہے۔
کسی ایک فرد کے لیے دو مختلف ضمیروں کا استعمال"شتر گربہ
" کہلاتا ہے۔​
یعنی آپ کسی بھی فردکو ایک بار "تو"کہہ کر اور پھر دوبارہ "آپ" کہہ کر مخاطب نہیں کر سکتے۔
پہلے مصرعہ میں ترے ہے تو دوسرے مصرعہ میں کر آنا چاہیے تھا۔
لیکن ایسا کرنے سے مصرعہ وزن سے خارج ہو جائے گا۔
لہذا دوسرے مصرعے کو تبدیل کیجیے۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ سارہ، اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔ فارقلیط اور شوکت پرویز کی بات مان لو، درست کہہ رہے ہیں۔
میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر​
یوں اسیر اب کے نہ کر شوق رہائی نہ رہے​
کیا بہتر ہو سکتا ہے؟
اور یہ شعر
خواب بن کر ہی سہی پر یوں نگاہوں میں رہو​
تم نہ ہو پاس تو احساس جدائی نہ رہے​
کا پہلا مصرع کچھ یوں کر دو تو؟​
خواب بن کر ہی سہی، ایسے نگاہوں میں رہو​
 
واہ سارہ، اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔ فارقلیط اور شوکت پرویز کی بات مان لو، درست کہہ رہے ہیں۔
میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر​
یوں اسیر اب کے نہ کر شوق رہائی نہ رہے​
کیا بہتر ہو سکتا ہے؟
اور یہ شعر
خواب بن کر ہی سہی پر یوں نگاہوں میں رہو​
تم نہ ہو پاس تو احساس جدائی نہ رہے​
کا پہلا مصرع کچھ یوں کر دو تو؟​
خواب بن کر ہی سہی، ایسے نگاہوں میں رہو​


آپ سب کا بہت بہت شکریہ!
انکل جی یہ آخری شعر میں نے ایسےیہ لکھا تھا، مگر مجھے لگا جو التجا اس میں میں دکھانا چاہ رہی ہوں وہ "ایسے" کے ساتھ نہیں آ پا رہی۔
"تو" اور "تم" والی بات مجھے بھی کھٹک رہی تھی مگر وزن کا مسئلہ تھا لہذا میں نے ایسے لکھ دیا اس کو اور یہاں شیئر کر لی غزل سوچا کوئی اچھا مشورہ مل جائے گا!

کچھ کرتی ہوں تبدیلی :)
 
یوں کیسا رہے گا:

میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر
تو اسیر اب کے یوں کر شوق جدائی نہ رہے

یا ایسے:

ایسے تو عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر
یوں اسیر اب کے کرو شوق رہائی نہ رہے
 

الف عین

لائبریرین
آپ سب کا بہت بہت شکریہ!
انکل جی یہ آخری شعر میں نے ایسےیہ لکھا تھا، مگر مجھے لگا جو التجا اس میں میں دکھانا چاہ رہی ہوں وہ "ایسے" کے ساتھ نہیں آ پا رہی۔
مجھے تو لگتا ہے کہ ’ایسے‘ اور ’پر یوں‘ دونوں ممکن ہیں، لیکن ’پر یوں‘ میں روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
یوں کیسا رہے گا:

میں ترے عشق کے زنداں میں مقید ہوں مگر
تو اسیر اب کے یوں کر شوق جدائی نہ رہے

یہ بہتر ہے
 
Top