پاس تو آؤ ہمارے اِک دِن غزل نمبر 157 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن
پاس تو آؤ ہمارے اِک دِن
دیکھیں ناز تُمہارے اِک دِن

خُواہش ہے پہلُو میں بیٹھو
تیری زُلف سنوارے اِک دِن

دِل کہتا ہے تُجھ پر جاناں!
صدقے چاند اُتارے اِک دِن

تیری اِک مُسکان کی خاطِر
دِل چاہتا ہے ہارے اِک دِن

تُو ہے شمع اور میں پروانہ
جان یہ تُجھ پر وارے اِک دِن

گُلشن میں مابین گُلوں کے
تیرے ساتھ گُزارے اِک دِن

آج خفا ہو، بعد ہمارے
یاد کروگے پِیارے اِک دِن

ہیں نم دِیدہ آج، خُوشی کے
دیکھیں گے نظارے اِک دِن

وقت کڑا ہے پر آئیں گے
اچھے دور ہمارے اِک دِن

قیس بنیں گے یا فرہاد
یہ عاشِق بے چارے اِک دِن

آج دباتے ہیں جو ظالم
گونجیں گے وہ نعرے اِک دِن

بُجھ جائیں گے چاند و سورج
ٹُوٹیں گے سب تارے اِک دِن

محنت کام آئے گی پیاسو!
پُھوٹیں گے فوارے اِک دِن

جو ہیں ناقِد میرے سُخن کے
شعر سُنیں گے سارے اِک دِن


شارؔق تیری بھی قِسمت کے
چمکیں گے یہ تارے اِک دِن
 

الف عین

لائبریرین
الف عین سر
فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن
پاس تو آؤ ہمارے اِک دِن
دیکھیں ناز تُمہارے اِک دِن
درست

خُواہش ہے پہلُو میں بیٹھو
تیری زُلف سنوارے اِک دِن
شتر گربہ
زلف کون سنوارے؟ میں یا ہم کے ساتھ سنوارے تو نہیں آ سکتا

دِل کہتا ہے تُجھ پر جاناں!
صدقے چاند اُتارے اِک دِن
واضح نہیں ہوا
تیری اِک مُسکان کی خاطِر
دِل چاہتا ہے ہارے اِک دِن
کسی پر دل ہارا جاتا ہے، کسی "کی خاطر" نہیں
تُو ہے شمع اور میں پروانہ
جان یہ تُجھ پر وارے اِک دِن
یہ بھی شتر گربہ ہے، شمع کا تلفظ بھی محل نظر ہے

گُلشن میں مابین گُلوں کے
تیرے ساتھ گُزارے اِک دِن
یہ بھی عجیب ہے، گلوں کے ساتھ، اور تیرے ساتھ دن گزارنے کی ایک ہی ساتھ دو باتیں کی گئی ہیں!
آج خفا ہو، بعد ہمارے
یاد کروگے پِیارے اِک دِن
ٹھیک

ہیں نم دِیدہ آج، خُوشی کے
دیکھیں گے نظارے اِک دِن
ٹھیک

وقت کڑا ہے پر آئیں گے
اچھے دور ہمارے اِک دِن
درست

قیس بنیں گے یا فرہاد
یہ عاشِق بے چارے اِک دِن
پہلا مصرع وزن میں نہیں

آج دباتے ہیں جو ظالم
گونجیں گے وہ نعرے اِک دِن
ٹھیک

بُجھ جائیں گے چاند و سورج
ٹُوٹیں گے سب تارے اِک دِن
واو عطف ہندی الفاظ میں درست نہیں، اور سورج کہو

محنت کام آئے گی پیاسو!
پُھوٹیں گے فوارے اِک دِن
درست

جو ہیں ناقِد میرے سُخن کے
شعر سُنیں گے سارے اِک دِن
ناقد ہمیشہ برائی ہی تو نہیں کرتا!

شارؔق تیری بھی قِسمت کے
چمکیں گے یہ تارے اِک دِن
درست
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر نوازش ہے آپ کی کہ آپ توجہ دیتے ہیں کچھ تبدیلیاں کی ہیں سر اور کچھ وضاحتیں ہیں۔۔۔
پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے۔
کیا اب درست ہے؟
خواہش ہے ہم ہاتھ سے اپنے
تیری زُلف سنوارے اِک دِن

پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے۔
کیا اب واضع ہوا؟
تیرے چاند سے رخ پر جاناں!
صدقے چاند اُتارے اِک دِن


یہاں کہنا یہ مقصود تھا کہ اگر محبوب سے جب ہارتے ہیں تو وہ اپنی جیت پر بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے جو شاعر کو پسند ہے تو اس مسکان کی خاطر ہارنے کی بات کی گئی ہے۔۔
تیری اِک مُسکان کی خاطِر
دِل چاہتا ہے ہارے اِک دِن


پہلا مصرعہ تبدیل کیا ہے کیا اب ٹھیک ہے۔
پروانے کی صورت ہم بھی
جان یہ تُجھ پر وارے اِک دِن


یہاں گلشن میں پھولوں کے مابین/درمیان محبوب کے ساتھ ایک دن گزارنے کی تمنا کی گئی ہے۔۔
گُلشن میں مابین گُلوں کے
تیرے ساتھ گُزارے اِک دِن

بُجھ جائیں گے چاند اور سورج
ٹُوٹیں گے سب تارے اِک دِن
 

الف عین

لائبریرین
خواہش ہے ہم ہاتھ سے اپنے
تیری زُلف سنوارے اِک دِن
شتر گربہ تو قائم ہے۔ ہم کے ساتھ "سنواریں" آئے گا، "سنوارے" ، جو قافیہ ہے، وہ صرف تُو یا وہ ضمیر کے ساتھ آ سکتا ہے
دِل چاہتا ہے ہارے اِک دِن
مزید یہ کہ چہتا ہے وزن میں آ رہا ہے
پروانے کی صورت ہم بھی
جان یہ تُجھ پر وارے اِک دِن
وہی سنوارے والا تر گربہ ہے، ہم ضمیر کے ساتھ تمنائی میں واریں درست ہو گا
گُلشن میں مابین گُلوں کے
تیرے ساتھ گُزارے اِک دِن
اگر گزارے تمنائی ہے تو ہم محذوف ضمیر کےساتھ گزاریں ہونا چاہیے۔ اگر ماضی کا ہی صیغہ ہے تو گزارا اک دن درست ہو گا
باقی ٹھیک ہو گئے اشعار
 
Top