فرخ منظور
لائبریرین
پامال کیجیے انھیں رفتارِ ناز کا
طاؤس وکبک رکھتے ہیں دعویٰ نیاز کا
لکھتا ہوں وصف ان مژہ ہائے دراز کا
لیتا قلم سے کام ہوں میں نیزہ باز کا
ساقی سمائے اس میں ہزاروں خُمِ شراب
کشتیِ مے کو ظرف، خدا دے جہاز کا
اللہ رے صفائے بیانِ حدیثِ دوست
دم بند ہے فصاحتِ اہلِ حجاز کا
ہوتا ہے شعبدوں سے ترے آسماں سفید
اڑتا ہے رنگ چہرۂ نیرنگِ ساز کا
کیوں کر وہ نازنیں نہ کرے بے نیازیاں
اندازے سے بھی حوصلہ عالی ہے ناز کا
ظاہر ہے گرم جوشیِ پروانے کا اثر
روشن ہے حال شمع کے سوز و گداز کا
ساقی زلال و دُرد جو توفیق ہو سو دے
مستوں کو تیرے ہوش کہاں امتیاز کا
ہو جائے حسنِ معنیِ بے صورت آشکار
رُوئے حقیقت الٹے جو پردہ مجاز کا
آنکھیں ہیں ہجرِ یار میں لبریزِ اشکِ سرخ
سوزِ جگر کو شغل ہے دل کے گداز کا
ہر جمعے کو ظہور کا رہتا ہوں منتظر
مشتاق ہوں امام کے پیچھے نماز کا
ہجرانِ یار میں تنِ خاکی سے تنگ ہوں
ایذائے مرغ رُوح کو چنگل ہے باغ کا
سودائے عشق میں نہ رہی شانِ خواجگی
محمود بندہ ہو گیا حسنِ ایاز کا
پُتلوں سے خاک کے یہ گڑھے بھر چکیں کہیں
دھبّا مٹے زمیں کے نشیب و فراز کا
ساحل سمجھتے ہیں تہِ دریائے عشق کو
طوفانِ ناخدا ہے ہمارے جہاز کا
حسن و جمالِ نور جو اسلام کا دکھائے
دیوانۂ پری ہو مقیّد نماز کا
عمرِ خضر سے اس کی زیادہ ہو زندگی
دھوون پیے جو یار کی زلفِ دراز کا
اللہ کے فقیر کا دل کیوں نہ ہو غنی
تکیہ ہے کیسے خسروِ مسکیں نواز کا
نیرنگِ حسن و عشق کی اللہ رے بہار
بے کار کوئی فعل نہیں کارساز کا
عشقِ نہفتہ ہووے گا اشکوں سے آشکار
یہ طفل کھیل کھیلیں گے افشائے راز کا
بیمارِ عشق کے لیے ممکن نہیں شفا
پرہیز سے مقام ہے یہ احتراز کا
چُن کر کیا ہے قتل مجھے تیغِ یار نے
کشتہ ہے دل مرا شرفِ امتیاز کا
مجھ رند کو حلال ہے، گو مے حرام ہو
پیرِ مغاں کا حکم ہے اس میں جواز کا
آتشؔ جگہ نہ دل میں ہوا و ہوس کو ہو
کم زہر سے اثر نہیں اس شہدِ آز کا
(خواجہ حیدر علی آتشؔ)
طاؤس وکبک رکھتے ہیں دعویٰ نیاز کا
لکھتا ہوں وصف ان مژہ ہائے دراز کا
لیتا قلم سے کام ہوں میں نیزہ باز کا
ساقی سمائے اس میں ہزاروں خُمِ شراب
کشتیِ مے کو ظرف، خدا دے جہاز کا
اللہ رے صفائے بیانِ حدیثِ دوست
دم بند ہے فصاحتِ اہلِ حجاز کا
ہوتا ہے شعبدوں سے ترے آسماں سفید
اڑتا ہے رنگ چہرۂ نیرنگِ ساز کا
کیوں کر وہ نازنیں نہ کرے بے نیازیاں
اندازے سے بھی حوصلہ عالی ہے ناز کا
ظاہر ہے گرم جوشیِ پروانے کا اثر
روشن ہے حال شمع کے سوز و گداز کا
ساقی زلال و دُرد جو توفیق ہو سو دے
مستوں کو تیرے ہوش کہاں امتیاز کا
ہو جائے حسنِ معنیِ بے صورت آشکار
رُوئے حقیقت الٹے جو پردہ مجاز کا
آنکھیں ہیں ہجرِ یار میں لبریزِ اشکِ سرخ
سوزِ جگر کو شغل ہے دل کے گداز کا
ہر جمعے کو ظہور کا رہتا ہوں منتظر
مشتاق ہوں امام کے پیچھے نماز کا
ہجرانِ یار میں تنِ خاکی سے تنگ ہوں
ایذائے مرغ رُوح کو چنگل ہے باغ کا
سودائے عشق میں نہ رہی شانِ خواجگی
محمود بندہ ہو گیا حسنِ ایاز کا
پُتلوں سے خاک کے یہ گڑھے بھر چکیں کہیں
دھبّا مٹے زمیں کے نشیب و فراز کا
ساحل سمجھتے ہیں تہِ دریائے عشق کو
طوفانِ ناخدا ہے ہمارے جہاز کا
حسن و جمالِ نور جو اسلام کا دکھائے
دیوانۂ پری ہو مقیّد نماز کا
عمرِ خضر سے اس کی زیادہ ہو زندگی
دھوون پیے جو یار کی زلفِ دراز کا
اللہ کے فقیر کا دل کیوں نہ ہو غنی
تکیہ ہے کیسے خسروِ مسکیں نواز کا
نیرنگِ حسن و عشق کی اللہ رے بہار
بے کار کوئی فعل نہیں کارساز کا
عشقِ نہفتہ ہووے گا اشکوں سے آشکار
یہ طفل کھیل کھیلیں گے افشائے راز کا
بیمارِ عشق کے لیے ممکن نہیں شفا
پرہیز سے مقام ہے یہ احتراز کا
چُن کر کیا ہے قتل مجھے تیغِ یار نے
کشتہ ہے دل مرا شرفِ امتیاز کا
مجھ رند کو حلال ہے، گو مے حرام ہو
پیرِ مغاں کا حکم ہے اس میں جواز کا
آتشؔ جگہ نہ دل میں ہوا و ہوس کو ہو
کم زہر سے اثر نہیں اس شہدِ آز کا
(خواجہ حیدر علی آتشؔ)
آخری تدوین: