تجمل حسین
محفلین
گزشتہ کچھ ہفتوں سے پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں پانامہ لیکس کا دور دورہ ہے۔ جسے دیکھو یہی بات زبان پر لیے ہوئے ہے۔ کوئی اس کی حمایت کررہا ہے تو کوئی مخالفت۔ کوئی درست سمجھ رہا ہے تو کوئی غلط۔ یہ ایک ایسا دھماکہ ثابت ہوا جس کی وجہ سے کچھ ممالک کی حکومتیں ختم ہوگئیں تو کچھ کی حکومتیں ابھی تک لرز رہی ہیں۔ پہلی کے بعد دوسری قسط سامنے آئی جس میں مزید لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو پہلے تو اپنے مخالفین پر اس کی وجہ سے شدید تنقید کررہے تھے اور حکومتوں سے استعفیٰ تک کا مطالبہ کررہے تھے لیکن اب اپنا نام سامنے آتے ہی یوں غائب ہوئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔
پانامہ پیپرز کی اس فہرست میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کی کوئی ایک آدھ آف شور کمپنی نہیں بلکہ کئی کئی کمپنیوں کے مالک ہیں یا شیئرز ہولڈر ہیں۔ ان میں مرزا مسرور احمد، مرزا مظفر احمد، مرزا ناصر انعام احمد اور دیگران شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم شخصیت مرزا مسرور احمد کی ہے ان کی اہمیت ایک مذہبی جماعت کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگر آپ انہیں نہیں جانتے تو ان کا تعارف کرواتا چلوں کہ مرزا مسرور احمد قادیانی (احمدی) جماعت کے موجودہ سربراہ ہیں اور انہیں ان کی جماعت کی طرف سے خلیفہ بھی کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کا نام بھی پانامہ پیپرز میں شامل ہوچکا ہے۔
حکمرانوں یا دیگر تاجر حضرات کا ٹیکس بچانا اور اپنی آمدن چھپانے کا مطلب سمجھ میں آتا ہے (بے شک یہ بھی جرم ہی ہے) لیکن ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کا آف شور کمپنیاں رکھنا یا ان میں شیئرز رکھنا سمجھ نہیں آتا کہ انہیں ان چیزوں کی ضرورت کیوں پڑی۔ کیونکہ ان کے پاس موجود دولت تو اپنی جماعت ہی کی ہوگی اور اسے جماعت ہی پر خرچ کرنا ہوتا ہے تو پھر اسے آف شور کمپنیوں میں انویسٹ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اگر یہ رقم جماعت کی نہیں خود مرزا مسرور احمد کی ہے تو بھی ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کا اپنی رقم آف شور کمپنیوں میں انویسٹ کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
ایک عام فرد ایسا کام کرے تو الگ بات ہے لیکن کسی بھی مذہبی جماعت کے سربراہ جو پوری جماعت کی نمائندگی بھی کرتا ہے کا ایسا کام کرنا انتہائی شرمناک ہوتا ہے کیونکہ اس سے پوری جماعت کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اگر کسی عام مدرسے کا مولوی کوئی غلط کام کرتا ہے تو انگلیاں تمام مسلمانوں کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ تو عام مولوی ہوتا ہے جبکہ ادھر پوری جماعت کا سربراہ۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرزا مسرور احمد کی جماعت کے لوگ اپنے سربراہ کے خلاف کوئی ایکشن لیں گے یا اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک ایک آف شور کمپنی کھولیں گے؟؟؟ کیونکہ اگر سربراہ کو درست سمجھا جائے تو اس کے نقش قدم پر چلنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
تصدیق اور مزید معلومات کے لیے آپ درج ذیل روابط ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
ربط نمبر 1۔فہرست پانامہ لیکس پاکستانی کمپنیز
ربط نمبر2۔ پانامہ پیپرز میں خیراتی فنڈز کا فراڈ
ربط نمبر3۔ تفصیلی روابط کے لیے ربط
پانامہ پیپرز کی اس فہرست میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کی کوئی ایک آدھ آف شور کمپنی نہیں بلکہ کئی کئی کمپنیوں کے مالک ہیں یا شیئرز ہولڈر ہیں۔ ان میں مرزا مسرور احمد، مرزا مظفر احمد، مرزا ناصر انعام احمد اور دیگران شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم شخصیت مرزا مسرور احمد کی ہے ان کی اہمیت ایک مذہبی جماعت کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگر آپ انہیں نہیں جانتے تو ان کا تعارف کرواتا چلوں کہ مرزا مسرور احمد قادیانی (احمدی) جماعت کے موجودہ سربراہ ہیں اور انہیں ان کی جماعت کی طرف سے خلیفہ بھی کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کا نام بھی پانامہ پیپرز میں شامل ہوچکا ہے۔
حکمرانوں یا دیگر تاجر حضرات کا ٹیکس بچانا اور اپنی آمدن چھپانے کا مطلب سمجھ میں آتا ہے (بے شک یہ بھی جرم ہی ہے) لیکن ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کا آف شور کمپنیاں رکھنا یا ان میں شیئرز رکھنا سمجھ نہیں آتا کہ انہیں ان چیزوں کی ضرورت کیوں پڑی۔ کیونکہ ان کے پاس موجود دولت تو اپنی جماعت ہی کی ہوگی اور اسے جماعت ہی پر خرچ کرنا ہوتا ہے تو پھر اسے آف شور کمپنیوں میں انویسٹ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اگر یہ رقم جماعت کی نہیں خود مرزا مسرور احمد کی ہے تو بھی ایک مذہبی جماعت کے سربراہ کا اپنی رقم آف شور کمپنیوں میں انویسٹ کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟
ایک عام فرد ایسا کام کرے تو الگ بات ہے لیکن کسی بھی مذہبی جماعت کے سربراہ جو پوری جماعت کی نمائندگی بھی کرتا ہے کا ایسا کام کرنا انتہائی شرمناک ہوتا ہے کیونکہ اس سے پوری جماعت کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اگر کسی عام مدرسے کا مولوی کوئی غلط کام کرتا ہے تو انگلیاں تمام مسلمانوں کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ تو عام مولوی ہوتا ہے جبکہ ادھر پوری جماعت کا سربراہ۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرزا مسرور احمد کی جماعت کے لوگ اپنے سربراہ کے خلاف کوئی ایکشن لیں گے یا اس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک ایک آف شور کمپنی کھولیں گے؟؟؟ کیونکہ اگر سربراہ کو درست سمجھا جائے تو اس کے نقش قدم پر چلنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
تصدیق اور مزید معلومات کے لیے آپ درج ذیل روابط ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
ربط نمبر 1۔فہرست پانامہ لیکس پاکستانی کمپنیز
ربط نمبر2۔ پانامہ پیپرز میں خیراتی فنڈز کا فراڈ
ربط نمبر3۔ تفصیلی روابط کے لیے ربط