با ادب
محفلین
پانچویں ملاقات
احباب گرامی محترمین جناب عوام و خواص ...
ان واقعات و افتادات کا سلسلہ پچھلے پانچ سال سے بتدریج بلا کسی تأخر و تبدل کے پہ در پہ وقوع پذیر ہوتا چلاجا رہا ہے ...
اس بار ہم نے سوچا کہ حالات و واقعات پیش خدمت کئیے دیں کیا جانیے چھٹے سال سنانے کے لیئے زندہ رہیں یا طائرِ روح قتالہ قصر عنصری سے محو پرواز ہو اور آپ اس عظیم خاتون کی داستان حیات کے عظیم سانحہ سے بے خبر روز و شب کیے جائیں ...
افتادات و سانحات کی ابتدا کم و بیش جاڑے کے اوائل سےہی ہوئی تھی... یخ بستہ ہلکی ہواؤں کے اکتوبر کا اختتام اور ٹھنڈے نومبر کی لہروں کے آغاز کے دن تھے جب ہم نے سب سے چھوٹے نا ہنجار سپوت والدِ مَن کے ساتھ ازمنہ قدیم کی موٹر بائیک پہ سوار زمانے کی گردو پیش کی خاک پھانکنے کو بہ رضا و رغبت معیت بردارِ حقیقی و عصبی و نسبی رخت سفر باندھا ....
من آں کہ تعلق بہ خانہ خراب است ... ( غریب کہنے میں سبکی کا احتمال ہے) خاتون نہایت مشرقی پابند صوم صلوٰہ ( اس معلومات کے ضمن میں میرے بہن بھائیوں اور جاننے والوں کی رائے کو قطعی اہمیت نہ دی جائے) مالکِ ایک عدد کالا برقعہ عین عنفوان شباب میں اسی نومبر کی ایک صبح اسی ایک واحد دلارے برقعے کو زیب تن کیئے موٹر سائیکل پہ براجمان ہوئی ...
شو مئی قسمت اس موٹر بائیک کا نقشہ اس اجڑی ہوئی دلہن جیسا تھا جو بھری جوانی میں عین اپنے وِوَاہ کے دن بیوہ ہوجاتی یے اور ظالم ساس نندیں اسکے وجود سے تمام زیور اور آرائشی سامان نوچ نوچ کے اتار لے جاتی ہیں اور بدن ڈھانپنے کو فقط چند کپڑے چھوڑ جاتی ہوں ... اسکے پھولے گالوں پہ آنسوؤں کی دھاریں ہوں اور تمام تر سنگھار مٹ کر کسی مزار کا نقشہ پیش کرتا ہو .....
یہ بے چاری ہر قسم کے مڈ گارڈز کے تکلف سے آزاد تھی اسکی سیٹ ہوا میں معلق معجزہ خداوندی کے سوا اور کچھ نہیں تھی ... اسکے دو پہیے ہوا میں ڈولتے ڈولتے آپکو منزل مقصود پہ کبھی کبھار پہنچا دیتے ہی دیتے ... اگر آپ منزل پہ نہیں پہنچتے تو اس میں قسمت کا عمل دخل زیادہ اور موٹر بائیک کا کم ہے...
اور اپنی قسمت کے بارے ہم کوئی لفظِ بد سننے کے روادار نہیں ...
جس دن وہ پہلا سانحہ رونما ہوا اس دن ہمارے پیارے کالے برقعے نے ہمارے قدمِ مبارک کو سلامی پیش کرنے کی غرض سے اسی ناس پیٹی اجڑی بیوہ کی زنجیر(chain)پہ جبیں جھکا دی جو بلا کسی پردے اور حجاب کے عمر تمام کیئے جارہی تھی... بے حجابی نے ہمیشہ خطرے کو جنم دیا ہے اس روز بھی معاملہ حسب معمول رہا ... دونوں کے ملاپ سے ایک ایسے دھماکے کا ظہور ہوا کہ ہم آن کی آن میں نظرِ بد کا شکار ہو کے سڑک بوسی کرتے دکھائی دیئے ... کسی کو شوقِ گُل بوسی ہے کِس کو خار بوسی بھی ... ہمیں دونوں لا حق نہ تھے پس روڈ بوسی سے واسطہ آن پڑا ...
جب خاصی دور تک گھسٹتے گھسٹتے یہ شوق پورا ہوا تو وہ محترم جو والد صاحب کے بڑھاپے کی آخری نشانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ہوش میں آئے اور قریب آکر ناک کان آنکھ منہ ٹانگ بازو سب کا بغور جائزہ لے کر مطمئن ہو گئے کہ لو بھیا تمام اوزار و آلات سلامت ہیں ... بس ایک ٹانگ مڑ گئی ہے جس سے خون بہتا ہے .. چھوڑو بھی بہن ! جوان مرد ایسی باتوں پہ کہاں روتے ہیں .. سہارا دے دلا اسی کم بخت ماری نا ہنجار نگوڑی سواری پہ لا بٹھایا اور گھر کی راہ لی ... گھر پہنچے ..والدہ محترمہ نے حالت دیکھ کر انتظاماً دو چاد آنسو بہائے پھر شکر کیا چلو ٹانگ ٹوٹی تو نہیں .. عزیزواقارب نے افسوس کیا چند دن میں بات آئی گئی ہوگئی ... عمر بیتی جوانی گئی بڑھاپا آیا پر آج تک ہم سے عشق محبت کی کوئی کہانی کبھی منسوب ہو کے نہ دی...لیکن خدائے واحد شاہد ہے کہ وہ لمبی تارکول کی سڑک ہمارے عشق میں دیوانی ہو چلی تھی ... ... بس آخری عمر میں سر میں خاک ڈلوانے کو یہ دن دیکھنے پڑ گئے ... اب ہر سال ہم سڑک پہ لوٹیاں لگاتے دکھائی دیتے ...
پچھلے پانچ سال سے کم نہ بیش مکمل پانچ بار ہم سڑک بوسی فرما چکے ہیں ...
اس بار بھی اواخر اکتوبر کے دن اور نومبر کی آمد آمد میں وہ سلسلہ جو ٹانگ کے زخموں سے شروع ہوا تھا سر تک آن پہنچا .. اس بار سر پہ وہ چوٹ لگی کہ دو دن دنیا و ما فیہا سے بے خبر رہے ...اب تو لوگ بھی مشکوک نگاہوں سے تکتے ہیں کہ "یا الہی یہ ماجرا کیا ہے" .. شروع کے ایک دو ایکسیڈنٹس کے تک ملنے ملانے والے مذاق سمجھتے ... اور مذاق اڑاتے...
اےبہن پھر گر گئیں ؟ ؟
مارے شرمندگی کے بہن کے منہ سے آواز نہ نکلے...
اب کے کہاں چوٹ آئی ؟؟
جوڑ جوڑ دکھتا اور زبان خاموش رہتی ...
ایسی رسوائی ... خدا دشمن کو بھی نہ دکھلائے ..
مگر اس بار جب ہوش میں آئے تو والدین عزیز اقارب دوست احباب سب کو پہچاننے سے انکاری ہوگئے ... کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ یہ انکار غیر ارادی ہے اور ہم سچ مچ کسی کو نہیں پہچان رہے ...
کاش یاداشت واپس ہی نہ آتی کہ پہچان میں آتے ہی موئے پھر وہی سوالات داغنے شروع کردیتے ہیں کہ ....
اے بہن پھر گرگئیں؟ ؟؟..
اور ہم کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ...
اور
تجھ کو خدا نہ دکھلائے آفت جو پڑی ہم پہ ہے ..
کی مجسم تصویر بنے انہیں گھورا کرتے ہیں .....
ہر سال ایک ایکسیڈنٹ ...
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ...
کچھ خیر خواہوں کا مشورہ دلبستگی ہے کہ اب تو ان موٹر سائیکلوں کی سواری سےتائب ہو جائیے ...
بھلا بتائیے غریب کس طرح زندگی بسر کرے ...
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ....
اور ہم
اپنی ہی ہڈیاں تڑوا کے ہزار طعنے ہنس کے جھیل لیتے ہیں ..
ملتے ہیں اگلے سال بقید حیات ...
سنا ہے .... کی سات سانسیں ہوتی ہیں .... باقی تو رب ہی جانے ....
کون تیریاں جانے ہوووووو
از سمیرا امام
احباب گرامی محترمین جناب عوام و خواص ...
ان واقعات و افتادات کا سلسلہ پچھلے پانچ سال سے بتدریج بلا کسی تأخر و تبدل کے پہ در پہ وقوع پذیر ہوتا چلاجا رہا ہے ...
اس بار ہم نے سوچا کہ حالات و واقعات پیش خدمت کئیے دیں کیا جانیے چھٹے سال سنانے کے لیئے زندہ رہیں یا طائرِ روح قتالہ قصر عنصری سے محو پرواز ہو اور آپ اس عظیم خاتون کی داستان حیات کے عظیم سانحہ سے بے خبر روز و شب کیے جائیں ...
افتادات و سانحات کی ابتدا کم و بیش جاڑے کے اوائل سےہی ہوئی تھی... یخ بستہ ہلکی ہواؤں کے اکتوبر کا اختتام اور ٹھنڈے نومبر کی لہروں کے آغاز کے دن تھے جب ہم نے سب سے چھوٹے نا ہنجار سپوت والدِ مَن کے ساتھ ازمنہ قدیم کی موٹر بائیک پہ سوار زمانے کی گردو پیش کی خاک پھانکنے کو بہ رضا و رغبت معیت بردارِ حقیقی و عصبی و نسبی رخت سفر باندھا ....
من آں کہ تعلق بہ خانہ خراب است ... ( غریب کہنے میں سبکی کا احتمال ہے) خاتون نہایت مشرقی پابند صوم صلوٰہ ( اس معلومات کے ضمن میں میرے بہن بھائیوں اور جاننے والوں کی رائے کو قطعی اہمیت نہ دی جائے) مالکِ ایک عدد کالا برقعہ عین عنفوان شباب میں اسی نومبر کی ایک صبح اسی ایک واحد دلارے برقعے کو زیب تن کیئے موٹر سائیکل پہ براجمان ہوئی ...
شو مئی قسمت اس موٹر بائیک کا نقشہ اس اجڑی ہوئی دلہن جیسا تھا جو بھری جوانی میں عین اپنے وِوَاہ کے دن بیوہ ہوجاتی یے اور ظالم ساس نندیں اسکے وجود سے تمام زیور اور آرائشی سامان نوچ نوچ کے اتار لے جاتی ہیں اور بدن ڈھانپنے کو فقط چند کپڑے چھوڑ جاتی ہوں ... اسکے پھولے گالوں پہ آنسوؤں کی دھاریں ہوں اور تمام تر سنگھار مٹ کر کسی مزار کا نقشہ پیش کرتا ہو .....
یہ بے چاری ہر قسم کے مڈ گارڈز کے تکلف سے آزاد تھی اسکی سیٹ ہوا میں معلق معجزہ خداوندی کے سوا اور کچھ نہیں تھی ... اسکے دو پہیے ہوا میں ڈولتے ڈولتے آپکو منزل مقصود پہ کبھی کبھار پہنچا دیتے ہی دیتے ... اگر آپ منزل پہ نہیں پہنچتے تو اس میں قسمت کا عمل دخل زیادہ اور موٹر بائیک کا کم ہے...
اور اپنی قسمت کے بارے ہم کوئی لفظِ بد سننے کے روادار نہیں ...
جس دن وہ پہلا سانحہ رونما ہوا اس دن ہمارے پیارے کالے برقعے نے ہمارے قدمِ مبارک کو سلامی پیش کرنے کی غرض سے اسی ناس پیٹی اجڑی بیوہ کی زنجیر(chain)پہ جبیں جھکا دی جو بلا کسی پردے اور حجاب کے عمر تمام کیئے جارہی تھی... بے حجابی نے ہمیشہ خطرے کو جنم دیا ہے اس روز بھی معاملہ حسب معمول رہا ... دونوں کے ملاپ سے ایک ایسے دھماکے کا ظہور ہوا کہ ہم آن کی آن میں نظرِ بد کا شکار ہو کے سڑک بوسی کرتے دکھائی دیئے ... کسی کو شوقِ گُل بوسی ہے کِس کو خار بوسی بھی ... ہمیں دونوں لا حق نہ تھے پس روڈ بوسی سے واسطہ آن پڑا ...
جب خاصی دور تک گھسٹتے گھسٹتے یہ شوق پورا ہوا تو وہ محترم جو والد صاحب کے بڑھاپے کی آخری نشانیوں سے تعلق رکھتے ہیں ہوش میں آئے اور قریب آکر ناک کان آنکھ منہ ٹانگ بازو سب کا بغور جائزہ لے کر مطمئن ہو گئے کہ لو بھیا تمام اوزار و آلات سلامت ہیں ... بس ایک ٹانگ مڑ گئی ہے جس سے خون بہتا ہے .. چھوڑو بھی بہن ! جوان مرد ایسی باتوں پہ کہاں روتے ہیں .. سہارا دے دلا اسی کم بخت ماری نا ہنجار نگوڑی سواری پہ لا بٹھایا اور گھر کی راہ لی ... گھر پہنچے ..والدہ محترمہ نے حالت دیکھ کر انتظاماً دو چاد آنسو بہائے پھر شکر کیا چلو ٹانگ ٹوٹی تو نہیں .. عزیزواقارب نے افسوس کیا چند دن میں بات آئی گئی ہوگئی ... عمر بیتی جوانی گئی بڑھاپا آیا پر آج تک ہم سے عشق محبت کی کوئی کہانی کبھی منسوب ہو کے نہ دی...لیکن خدائے واحد شاہد ہے کہ وہ لمبی تارکول کی سڑک ہمارے عشق میں دیوانی ہو چلی تھی ... ... بس آخری عمر میں سر میں خاک ڈلوانے کو یہ دن دیکھنے پڑ گئے ... اب ہر سال ہم سڑک پہ لوٹیاں لگاتے دکھائی دیتے ...
پچھلے پانچ سال سے کم نہ بیش مکمل پانچ بار ہم سڑک بوسی فرما چکے ہیں ...
اس بار بھی اواخر اکتوبر کے دن اور نومبر کی آمد آمد میں وہ سلسلہ جو ٹانگ کے زخموں سے شروع ہوا تھا سر تک آن پہنچا .. اس بار سر پہ وہ چوٹ لگی کہ دو دن دنیا و ما فیہا سے بے خبر رہے ...اب تو لوگ بھی مشکوک نگاہوں سے تکتے ہیں کہ "یا الہی یہ ماجرا کیا ہے" .. شروع کے ایک دو ایکسیڈنٹس کے تک ملنے ملانے والے مذاق سمجھتے ... اور مذاق اڑاتے...
اےبہن پھر گر گئیں ؟ ؟
مارے شرمندگی کے بہن کے منہ سے آواز نہ نکلے...
اب کے کہاں چوٹ آئی ؟؟
جوڑ جوڑ دکھتا اور زبان خاموش رہتی ...
ایسی رسوائی ... خدا دشمن کو بھی نہ دکھلائے ..
مگر اس بار جب ہوش میں آئے تو والدین عزیز اقارب دوست احباب سب کو پہچاننے سے انکاری ہوگئے ... کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ یہ انکار غیر ارادی ہے اور ہم سچ مچ کسی کو نہیں پہچان رہے ...
کاش یاداشت واپس ہی نہ آتی کہ پہچان میں آتے ہی موئے پھر وہی سوالات داغنے شروع کردیتے ہیں کہ ....
اے بہن پھر گرگئیں؟ ؟؟..
اور ہم کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ...
اور
تجھ کو خدا نہ دکھلائے آفت جو پڑی ہم پہ ہے ..
کی مجسم تصویر بنے انہیں گھورا کرتے ہیں .....
ہر سال ایک ایکسیڈنٹ ...
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں ...
کچھ خیر خواہوں کا مشورہ دلبستگی ہے کہ اب تو ان موٹر سائیکلوں کی سواری سےتائب ہو جائیے ...
بھلا بتائیے غریب کس طرح زندگی بسر کرے ...
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ....
اور ہم
اپنی ہی ہڈیاں تڑوا کے ہزار طعنے ہنس کے جھیل لیتے ہیں ..
ملتے ہیں اگلے سال بقید حیات ...
سنا ہے .... کی سات سانسیں ہوتی ہیں .... باقی تو رب ہی جانے ....
کون تیریاں جانے ہوووووو
از سمیرا امام