منصور آفاق
محفلین
اپنے بت ، اپنے خدا کا درد تھا
مجھ کو بھی اک بے وفا کا درد تھا
رات کی کالک افق پر تھوپ دی
مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا
ننگے پاؤں تھی ہوا کی اونٹنی
ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا
کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں
عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا
موت کی ہچکی مسیحا بن گئی
رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا
میں جسے سمجھا تھا ہجراں کا سبب
زخم پروردہ انا کا درد تھا
۔۔۔۔
پہلی پہلی ابتلا کا درد تھا
اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا
اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی
مجھ کوکمرے کے خلا کا درد تھا
اب تلک احساس میں موجود ہے
کتنا حرف ِبرملا کا درد تھا
دور کا بے شک تعلق تھا مگر
خاک کو عرش علیٰ کا درد تھا
رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ
ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا
اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے وہ
کیسا ظالم کربلا کا درد تھا
۔۔۔
مضمحل ہوتے قویٰ کا درد تھا
خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا
جان لیوا بس وہی ثابت ہوا
جو مسیحا کی دوا کا درد تھا
رک گیا ، آہیں ُسروں پر دیکھ کر
ساز کو بھی ہم نوا کا درد تھا
کچھ برس پہلے مرے احساس میں
تھا ، سلوکِ ناروا کا درد تھا
مجھ کو دکھ تھا کربلائے وقت کا
اس کو خاکِ نینوا کا درد تھا
۔۔۔
اک مقامِ پُر فضا کا درد تھا
اس کی آنکھوں میں نزع کا درد تھا
وقت کی قربان گاہ تھی دور تک
اور ازل بستہ قضا کا درد تھا
اس کی مجبوری پہ چپ تھا میں مگر
مجھ کو رغبت اور رضا کا درد تھا
ہجر کی کالک بھری برسات سے
مجھ کو صحبت کی سزا کا درد تھا
اک طرف شہد و شراب و لمس تھے
اک طرف روزِ جزا کا درد تھا
۔۔۔۔۔
اعتبارِ باختہ کا درد تھا
ساختہ پر داختہ کا درد تھا
مرگ پیشہ مورچوں کے پیٹ میں
پھڑپھڑاتی فاختہ کا درد تھا
نور تھا حدِ سراب ِ طور تک
جلوۂ خودساختہ کا درد تھا
اک امانت کی طرح ہے لمس میں
جو کسی دو شاختہ کا درد تھا
جس کی لذت حاصل ِ احساس ہے
ایک دوشیزہ خطا کا درد تھا