پاکستان، سود خوری کا نیا عالمی مرکز

عدنان عمر

محفلین
پاکستان "سود خوری" کا نیا عالمی مرکز ، مہنگائی کی اصل وجہ اور سرمایہ کاری کی حقیقت
محمد عاصم حفیظ

16 جنوری 2020

کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح سود والے ممالک میں شامل ہو چکا ۔ روزبروز مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے اور عالمی سرمایہ کاری کی حقیقت کیا ہے۔ آئیے اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 19.7 فیصد سے 12.63 فیصد کے درمیان ہے ۔

مجموعی مہنگائی کی شرح 12.63 فیصد ہے لیکن غذائی اجناس کی مد میں شہری علاقوں میں 16.7 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 19.7 فیصد مہنگائی کی شرح نوٹ کی کی گئی ہے ۔ مہنگائی کی شرح عالمی سطح پر ٹاپ دس ممالک میں شامل ہے جبکہ پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے ۔ اس لسٹ میں زمبابوے جنگ زدہ ہیٹی سوڈان اور ایتھوپیا جیسے ممالک شامل ہیں ۔مہنگائی کی شرح میں اس تیزی سے اضافے کے باوجود حکومت ہر ماہ بجلی گیس اور دیگر ایشیائی ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے ۔

یہ انتہائی حیران کن ہے کہ کیوں کر حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے سے کوئی بھی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا رہی۔ آئیے اس کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں ۔ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں انٹرسٹ ریٹ 13.25 فیصد تک بڑھا دیا تھا جو کہ عالمی سطح پر بلند ترین شرح سود والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان سے بلند شرح سود والے صرف پانچ سے چھ ممالک ہیں جن میں زمبابوے گھانا ملاوی جیسےممالک شامل ہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک اور بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی شرح سود کم کر رہے ہیں حتی کہ جاپان سمیت کئی ممالک میں شرح سود صفر کردیا گیا ہے۔

اب ہو یہ رہا ہے کہ مقامی اور عالمی ساہو کار، امیر افراد اور کمپنیاں جنہیں تیزی سے منافع چاہئے وہ اپنا پیسہ پاکستانی بینکوں میں رکھ رہی ہیں۔ آپ نے بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی خبریں پڑھی ہوں گی لیکن دراصل یہ سب کسی صنعتی، کاروباری یا معاشی سرگرمی کے لیے نہیں ہو رہا بلکہ صرف بینکوں میں پیسہ رکھا جارہا ہے اور اس کے لیے حکومت نے اب تک کی سب سے بڑی ایمنسٹی سکیم اور سرمایہ کاری میں آسانی کی پالیسی متعارف کرائی ہے۔

ملک میں پیسہ تو آ رہا ہے یا مقامی سرمایہ کار جمع کرا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی بڑا منصوبہ نہیں شروع کیا گیا یا کارخانے نہیں لگ رہے فیکٹری نہیں لگائی جارہیں روزگار کے مواقع نہیں پیدا ہو رہے بلکہ صرف بینکوں میں پیسہ منتقل کرکے بلند شرح سود کے ذریعے منافع کمایا جارہا ہے۔ اب اسی بلند ترین شرح سود کے مطابق منافع دینے کے لیے حکومت ہر ماہ تیل اور گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ جن بیرونی سرمایہ کاروں نے بینک میں پیسہ رکھا ہے انھیں ہر ماہ اپنا منافع چاہیے۔ بدقسمتی سے اس سرمایہ کاری سے کوئی بھی مثبت معاشی سرگرمی جنم نہیں لے رہی ۔

کیونکہ اگر تو بیرونی سرمایہ کاری سے بڑے منصوبے لگیں فیکٹریاں اور دیگر معاشی سرگرمیاں جنم لیں لوگوں کو روزگار ملے مارکیٹ کے حجم میں اضافہ ہو تو اس سے ملک میں معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ۔ملکی اور غیر ملکی دونوں قسم کے سرمایہ کار کاروباری و صنعتی سرگرمیوں کی بجائے بینکوں میں رقم رکھ کر اتنا منافع کما رہے ہیں جو کہ انہیں اصل مارکیٹ میں تجارت و صنعتت سے بھی حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری جانب یہ حقیقی سرمایہ کاری نہیں ہے یہ سرمایہ کار جب چاہیں گے اپنی رقم نکال کر بیرون ملک لے جائیں گے جس سے مزید معاشی نقصان ہوگا۔

کیونکہ یہ کاروبار کے لیے نہیں آئے ان کی کوئی فیکٹری کارخانہ پراجیکٹ زمین پر موجود ہی نہیں ہے کہ جس کو سنبھالنا ان کے لیے مسئلہ بنے ۔ بس ایک بنک کی ٹرانزیکشن سے وہ اپنا سرمایہ واپس لے لیں گے ۔ دنیابھر کے ممالک شرح سود کو کنٹرول کرتے ہیں بینک کا منافع کبھی بھی اتنا نہیں بڑھنے دیتے جس سے صنعت و تجارت متاثر ہو اور سرمایہ کار یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ مارکیٹ میں پیسہ لگانے کی بجائے صرف بینک میں رکھ کر بڑا منافع کما سکتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں یہی ہو رہا ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے شرائط میں کہیں بھی صنعت و تجارت کے شعبے میں پیسہ لگانے کی ترویج نہیں کی گئی کوئی شرط نہیں لگائی گئی جس کی وجہ سے سرمایہ کار اپنا پیسہ بینکوں میں رکھ رہے ہیں اور دنیا کے بلند ترین شرح سود کے منافع سے مستفید ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے شعبہ جات مختص کیے جاتے ہیں اور سرمایہ کاروں کو مخصوص شعبہ جات میں ہی سرمایہ کاری کی اجازت دی جاتی ہے۔ معاشی حوالے سے یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ بلند ترین شرح سود کے منافع کی ادائیگی کے لیے یے مہنگائی کی شرح میں میں روزانہ کی بنیاد پر پر اضافہ کرنا پڑتا ہے ہے غریب عوام سے سے بجلی و گیس کے بلوں پیٹرول و ادویات اشیائے خوردونوش کی مدت میں پیسہ اکٹھا کرکے سرمایہ کاروں کو منافع دیا جا رہا ہے۔

حکومت کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی شرح سود کو کم کرنا ہوگا اور سرمایہ کاروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ صنعت و تجارت کے میدان میں سرمایہ کاری کریں صرف یہی صورت ہے جس سے ہم بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور عوام کو تھوڑا بہت روزگار و ریلیف مل سکتا ہے۔معیشت کو سود کی ترویج کےلئے استعمال کرنے کی بجائے سود سے بچنا بہترین ہیں کیونکہ کہ اللہ تعالی کے ساتھ جنگ ہے اور یہ کبھی بھی مفید نہیں ہو سکتا ۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہاٹ منی کے کرشمے معیشت جام کر دیں گے
15/01/2020 رؤف کلاسرا

کبھی کبھار لگتا ہے ہم صحافی دیواروں کے ساتھ سر پھوڑنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کو ہم اپنے تئیں مگرمچھوں کے استحصال اور لوٹ مار سے بچانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں وہی الٹا ہم پر پل پڑتے ہیں۔

یہ تمہید اس لیے تھی کہ پچھلے دنوں کالم لکھا تھا کہ کیسے ارشد شریف کے شو میں ماہر معیشت ڈاکٹر زبیر خان نے تفصیل سے بتایا تھا کہ” ہاٹ منی‘‘ کے نام پر پاکستانی معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ”ہاٹ منی ‘‘کا تصور میرے لیے نیا تھا‘ لہٰذا جو کچھ میں نے ڈاکٹر زبیر خان سے سنا اسے کالم میں رپورٹ بھی کیا اور حیران بھی ہوا کہ اس ملک میں کیا کیا طریقے اختیار کر لیے گئے ہیں۔ اس کالم کے بعد بہت سے لوگوں نے وہی روایتی طور پر مذاق اڑایا کہ آپ لوگوں کو کیا پتہ اکانومی کیا ہوتی ہے‘باہر سے کوئی بھی آجائے‘ کچھ بھی کہہ دے یہ پوری قوم اس پر ایمان لے آتی ہے۔

خیر اس کالم کے بعد اس پر کچھ ریسرچ کی کہ یہ ” ہاٹ منی‘‘ کیا ہے اور اس کے اچھے بُرے نتائج پاکستانی اکانومی پر کیسے پڑ سکتے ہیں۔ ابھی میں ریسرچ کر ہی رہا تھا کہ محمد مالک نے ایک اور پروگرام کیا جس میں انہوں نے چار معاشی ماہرین کو بلایا ہوا تھا اور اس میں ”ہاٹ منی‘‘ کا بھی ایشو ڈسکس ہوا ۔ یہ ماہرین ثاقب شیرانی‘ ڈاکٹر اشفاق حسن خان‘ گوہر اعجاز اور سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان تھے۔ انہوں نے جو اکانومی کے حوالے سے گفتگو کی وہ اگر ساری یہاں لکھ دی جائے تو لوگوں کی حالت دیکھنے والی ہو کہ اکانومی کے ساتھ کیا کھلواڑ کیاجارہا ہے۔

رہی سہی کسر سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے پوری کر دی کہ انہوں بھی ہاٹ منی پر تنقید کی اور کہا کہ یہ ملکی معیشت کے لیے زہر ثابت ہورہی ہے۔ اس کے بعد میں نے اکانومی کی رپورٹنگ کرنے والے بہترین رپورٹرز شہباز رانا اور مہتاب حیدر کی فائل کی ہوئی خبریں پڑھیں۔ ابھی بھی میری تسلی نہ ہوئی تو میں نے فنانس منسٹری کے کچھ لوگوں سے پوچھا کہ وہ سمجھائیں یہ سب کیا ہے؟ خیر اس کے بعد میں نے اور لوگوں سے بات کی تاکہ اسے مزید سمجھا جائے کہ پاکستان کو ہاٹ منی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔

اب سادہ لفظوں میں سمجھایا جائے تو ہاٹ منی زیادہ تر ان ملکوں میں لائی جاتی ہے جن کے فارن ریزروز کم ہوں تو انہیں بڑھایا جائے۔ یہ شارٹ ٹرم مہنگا قرض کہہ لیں۔ اس پر لوکل کرنسی میں پرافٹ دیا جاتا ہے اور جب یہ لوگ چاہیں وہ پیسہ نکال سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہاٹ منی کا تصور وہاں زیادہ ہے جہاں آئی ایم ایف کا پروگرام شروع ہوتا ہے۔ پہلے آئی ایم ایف حکومتوں کو پابند کردیتی ہے کہ بینکوں کا انٹرسٹ ریٹ کیا ہوگا ‘ ڈالر ریٹ کیا ہوگا اور کسی اور عالمی ادارے سے قرض نہیں لے سکیں گے اور اگر لیں گے تو بتائیں گے واپسی کیسے ہوگی ۔

پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ پہلے آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ڈالر کا ریٹ طے کیا کہ اس سے نیچے نہیں آئے گا ‘ پھر سوا تیرہ فیصد انٹرسٹ ریٹ طے کیا اور ساتھ یہ کہا کہ اب آپ ورلڈ بینک وغیرہ سے قرض نہیں لیں گے‘ اگر لیں گے تو پہلے بتائیں گے کہ واپسی کیسے ہوگی؟ یوں بچ بچا کر ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ آپ نے ریزرو بڑھانے ہیں تو ان عالمی ساہوکاروں سے رابطہ کریںجو تین تین ماہ کے لیے آپ کو ڈالرز دیتے ہیں اور آپ انہیں لوکل کرنسی میں سوا تیرہ فیصد منافع دیتے ہیں ۔ اب تک پاکستان ڈیڑھ ارب ڈالرز کے قریب یہ ”ہاٹ منی ‘‘امریکہ‘ برطانیہ اور دبئی سے اکٹھی کرچکا ہے اور ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اس سے ڈالر کا ریٹ کم ہوگا کیونکہ جب منافع اتنا زیادہ مل رہا ہو تو بہت لوگ پیسہ دیں گے جیسے مصر میں ہوا جہاں بیس ارب ڈالرز تک ہاٹ منی اس طرح اکٹھی کی گئی تھی ۔تو کیا واقعی پاکستان ان کمپنیوں کو پاکستانی کرنسی میں منافع دے گا؟ اگر دے گا تو پھر پریشانی کیا ہے؟

اب اصل کہانی سنیں۔

مثال کے طور پر ایک کمپنی نے پاکستان کو ایک کروڑ ڈالرز ہاٹ منی تین ماہ کے لیے دی ہے تو پہلے اس رقم کو پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے گا جو ڈالر ریٹ پر تقریباً ایک ارب پچپن کروڑ روپے بنیں گے۔ اب تین ماہ کے لیے اس پر سوا تیرہ فیصد سود دیا جائے گا ۔ فرض کریں سود سمیت رقم پونے دو ارب یا دو ارب روپے بن جاتی ہے‘ اب تین ماہ بعد ان دو ارب کو بشمول سود اس دن کے ڈالر ریٹ پر تبدیل کر کے اس کمپنی کو ڈالروں کی شکل میں ہی واپس کریں گے۔ اب کوئی سرمایہ دار پاکستانی روپے کے ٹرک بھر کر پرافٹ کے طور پر تو نیویارک میں امریکن بینک میں واپس ڈپازٹ نہیں کرائے گا‘ وہ ڈالرز ہی کرائے گا ۔ یوں پاکستانی روپوں کے سود کو بھی ڈالروں میں تبدیل کر کے ان سرمایہ داروں کو دیا جائے گا اور اس وقت پاکستان میں مارک اپ ریٹ آسمان کو چھو رہا ہے یوں یہ عالمی سرمایہ دار تین ماہ بعد ہی بڑی بڑی رقمیں ڈالروں کی شکل میں پرافٹ لے کر جائیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان عالمی سرمایہ کاروں کو سود ادا کرنے کیلئے پاکستان کہاں سے ڈالر لائے گا‘ کیونکہ ڈالر نہیں تھے تو ہاٹ منی لائی گئی ۔ یا تو پاکستان کے اپنے ڈالر ریزرو بہت بڑھ چکے ہوں اور وہاں سے نکال کر دیے جائیں یا پھر لوکل مارکیٹ سے ڈالرز خرید کر دیے جائیں گے۔ مارکیٹ سے خریدیں گے تو پھر ڈالر پر دبائو بڑھے گا اور ڈالر کا سپلائی ڈیمانڈ اصول لاگو ہوگا اور ڈالر بہت اوپر جائے گا۔ تو پھر یہ ہاٹ منی لانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اب اگرڈالر کا ریٹ کم ہوگا تو پھر وہ سرمایہ دار کیوں یہاں پیسہ لگائے گا؟ دوسرے اگر انٹرسٹ ریٹ کم کریں گے تو بھی وہ تین ماہ بعد اپنا پرافٹ لے کر بھاگ جائے گا جس سے پھر آپ کے ریزرو کم ہوجائیں گے اور اکانومی نیچے آ جائے گی۔

مصر کے ساتھ یہی ہورہا ہے‘ وہ پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہاں یہ ہمارے گورنر سٹیٹ بینک باقر صاحب ہی تھے۔ مصری اگر بیس ارب ڈالرز پر سود ریٹ کم کرتے ہیں تو سارا پیسہ نکل جائے گا اور اکانومی بیٹھ جائے گی۔ اگر نہیں کرتے تو مقامی سرمایہ دار مررہا ہے جو اس شرح سود پر قرض نہیں لے سکتا ‘یوں چند سرمایہ کاروں نے ملک کی اکانومی کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔

اب حالت یہ ہے کہ اس ڈیڑھ ارب ڈالر ہاٹ منی کے چکر میں پاکستانی معیشت بیٹھ گئی ہے۔ پاکستانی بزنس مین سوا تیرہ فیصد مارک اپ پرقرض نہیں لے پارہا۔ خود ہمایوں اختر نے کہا کہ اس انٹرسٹ ریٹ پر کوئی کاروباری قرض نہیں لے رہا اور معیشت جام ہو کر رہ گئی ہے۔ یوں آئی ایم ایف نے پہلے ڈالر کا ریٹ بڑھوایا‘ پھر انٹرسٹ ریٹ سوا تیرہ فیصد کرا دیا‘ حکومت کو عالمی بینک وغیرہ سے سستے قرض لینے سے روک دیا اور ساتھ ہی ان کمپنیوں کو لانچ کیا کہ پاکستان کو ہاٹ منی دیں اور کھل کر پرافٹ کمائیں اور جب چاہے اپنا سرمایہ نکال کر نکل جائیں۔

پہلے ڈالر گرایا گیا تھا کہ اس سے ایکسپورٹس بڑھ جائیں گی۔ ڈالر گرا کر بھی ہم اضافی دو تین ارب ڈالرز اکٹھے نہیں کرسکے؛ چنانچہ ہمیں ہاٹ منی کی ضرورت پڑگئی۔اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ بجلی‘ گیس‘ اور پٹرول پر ٹیکس اور مہنگائی کر کے جو پیسہ اکٹھا کیا جارہا ہے وہ سب سود کی ادائیگی میں جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان تین ہزار ارب روپے سود کی مدد میں دے رہا ہے اور کُل ٹیکس جو اکٹھا ہوا ہے وہ ساڑھے تین ہزار ارب ہے۔ یوں صرف چھ سو ارب روپے باقی بچتے ہیں‘ باقی سب ملکی قرضوں کے سود میں جارہا ہے۔

اب اس میں فوج کا بجٹ‘ ترقیاتی فنڈ‘ تنخواہیں‘ صوبوں کا شیئر شامل نہیں ہے۔ اب تنخواہیں دینے کے لیے یہ سب مہنگے قرض لیے جارہے ہیں ۔ یہ ہے آپ کی ہاٹ منی کی صورتحال۔ ہم جو ٹیکس دے رہے ہیں وہ سب سود کی ادائیگی میں جارہا ہے۔ ہاٹ منی کی وجہ سے ملکی معیشت رک گئی ہے کیونکہ ان کمپنیوں کو سوا تیرہ فیصد سود دینا ہے اور اگر آپ سود کم کرتے ہیں تو وہ کمپنیاں اپنا ڈیڑھ ارب لے کر نکل جائیں گی۔ اب سمجھ آئی کیسے آئی ایم ایف کا شکنجہ کس دیا گیا ہے اور جو ماہرین اس پر بات کرتے ہیں الٹا ان پر یہی قوم پل پڑتی ہے کہ آپ کو اکانومی کی کیا سمجھ ہے۔

کسی نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ لوگوں کوبیوقوف بنانا آسان ہے لیکن انہیں اس بات پر قائل کرنا مشکل ہے کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک میں پیسہ تو آ رہا ہے یا مقامی سرمایہ کار جمع کرا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی بڑا منصوبہ نہیں شروع کیا گیا یا کارخانے نہیں لگ رہے فیکٹری نہیں لگائی جارہیں روزگار کے مواقع نہیں پیدا ہو رہے بلکہ صرف بینکوں میں پیسہ منتقل کرکے بلند شرح سود کے ذریعے منافع کمایا جارہا ہے۔ اب اسی بلند ترین شرح سود کے مطابق منافع دینے کے لیے حکومت ہر ماہ تیل اور گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ جن بیرونی سرمایہ کاروں نے بینک میں پیسہ رکھا ہے انھیں ہر ماہ اپنا منافع چاہیے۔ بدقسمتی سے اس سرمایہ کاری سے کوئی بھی مثبت معاشی سرگرمی جنم نہیں لے رہی ۔
اب اس میں فوج کا بجٹ‘ ترقیاتی فنڈ‘ تنخواہیں‘ صوبوں کا شیئر شامل نہیں ہے۔ اب تنخواہیں دینے کے لیے یہ سب مہنگے قرض لیے جارہے ہیں ۔ یہ ہے آپ کی ہاٹ منی کی صورتحال۔ ہم جو ٹیکس دے رہے ہیں وہ سب سود کی ادائیگی میں جارہا ہے۔ ہاٹ منی کی وجہ سے ملکی معیشت رک گئی ہے کیونکہ ان کمپنیوں کو سوا تیرہ فیصد سود دینا ہے اور اگر آپ سود کم کرتے ہیں تو وہ کمپنیاں اپنا ڈیڑھ ارب لے کر نکل جائیں گی۔ اب سمجھ آئی کیسے آئی ایم ایف کا شکنجہ کس دیا گیا ہے اور جو ماہرین اس پر بات کرتے ہیں الٹا ان پر یہی قوم پل پڑتی ہے کہ آپ کو اکانومی کی کیا سمجھ ہے۔
یہ جس ہاٹ منی کا ذکر ہو رہا ہے یہ ڈالر نہیں بلکہ پاکستانی روپے کے بانڈز میں آرہی ہے۔ اس وقت افراط زر 12 فیصد اور شرح سود 13 فیصد ہے۔ یوں سرمایہ کاروں کو صرف 1 فیصد اصل منافع مل رہا ہے۔ اگر واقعتا 13 فیصد سود مل رہا ہوتا تو ملک میں ڈیڑھ ارب ڈالر نہیں بلکہ کئی سو ارب ڈالر آ گئے ہوتے۔ اسی لئے دانا کہتے ہیں کہ زرد صحافت میں آنے سے پہلے معیشت کا کورس کر لینا چاہئے۔
 

عدنان عمر

محفلین
کیا ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم بھی زرد صحافت پھیلا رہے ہیں؟

Hot money: As per the latest data released by the State Bank of Pakistan (SBP), foreign investors bought $1.097 billion worth of T-bills between July and November 2019. Is this something good? Yes, it is good for as long as it keeps coming in but foreign investors are buying our T-bills just because of the awfully high rate of interest we are offering. This is ‘hot money’ and financial history is witness that it runs away as fast as it comes in. Is this a real indicator of economic performance?

Look at the cost of this hot money: The government’s interest expense has gone from Rs1.9 trillion last year to Rs2.9 trillion this year. Imagine: our government managed to attract $1.097 billion by incurring an additional interest expense of $6.5 billion. Does that make sense? Imagine: Pakistan’s non-performing loans have soared to Rs800 billion. Is this something to cheer about?

ربط
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم بھی زرد صحافت پھیلا رہے ہیں؟

Hot money: As per the latest data released by the State Bank of Pakistan (SBP), foreign investors bought $1.097 billion worth of T-bills between July and November 2019. Is this something good? Yes, it is good for as long as it keeps coming in but foreign investors are buying our T-bills just because of the awfully high rate of interest we are offering. This is ‘hot money’ and financial history is witness that it runs away as fast as it comes in. Is this a real indicator of economic performance?

Look at the cost of this hot money: The government’s interest expense has gone from Rs1.9 trillion last year to Rs2.9 trillion this year. Imagine: our government managed to attract $1.097 billion by incurring an additional interest expense of $6.5 billion. Does that make sense? Imagine: Pakistan’s non-performing loans have soared to Rs800 billion. Is this something to cheer about?

ربط
پوری دنیا کی حکومتیں جو اپنے اخراجات ٹیکس سے پورے نہیں کر سکتی وہ ٹریژری بلز جاری کرتی ہیں۔ عالمی مارکیٹ سے وابستہ سرمایہ کار اسے خریدتے ہیں اور اس کے بدلہ ان کو چند فیصد سود دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان کوئی نیا کام تو نہیں کر رہا۔ اور ویسے بھی 12 فیصد افراط زر کے ساتھ 13 فیصد شرح سود پر ان سرمایہ کاروں کو صرف 1 فیصد منافع ہو رہا ہے۔ اسی لئے تو مشکل سے ڈیڑھ ارب ڈالرہی پاکستان آیا ہے۔
 

عدنان عمر

محفلین
یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ بیرونی سرمایہ کار ڈیڑھ سے دو فیصد شرحِ سود پر ڈالر میں قرضے لے کر پاکستانی ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ آپ کے مطابق انھیں صرف ایک فیصد منافع ہو رہا ہے جبکہ انھیں اپنے لیے گئے قرضے پر ڈیڑھ سے دو فیصد سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس حساب سے تو انھیں خسارے میں جانا چاہیے اور اپنی رقم نکال کر بیرونِ ملک منتقل کر دینی چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ بیرونی سرمایہ کار ڈیڑھ سے دو فیصد شرحِ سود پر ڈالر میں قرضے لے کر پاکستانی ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ آپ کے مطابق انھیں صرف ایک فیصد منافع ہو رہا ہے جبکہ انھیں اپنے لیے گئے قرضے پر ڈیڑھ سے دو فیصد سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس حساب سے تو انھیں خسارے میں جانا چاہیے اور اپنی رقم نکال کر بیرونِ ملک منتقل کر دینی چاہیے۔
کیونکہ ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری طویل مدت کیلئے ہوتی ہے۔ فی الحال ان سرمایہ کاروں کو پاکستان سے صرف 1 فیصد منافع حاصل ہو رہا ہے۔ افراط زر کم ہونے کے ساتھ اگر شرح سود میں کمی نہ کی گئی تو یہ گھاٹے کی سرمایہ کاری منافع میں تبدیل ہو جائے گی۔

مصر کے ساتھ یہی ہورہا ہے‘ وہ پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہاں یہ ہمارے گورنر سٹیٹ بینک باقر صاحب ہی تھے۔ مصری اگر بیس ارب ڈالرز پر سود ریٹ کم کرتے ہیں تو سارا پیسہ نکل جائے گا اور اکانومی بیٹھ جائے گی۔ اگر نہیں کرتے تو مقامی سرمایہ دار مررہا ہے جو اس شرح سود پر قرض نہیں لے سکتا ‘یوں چند سرمایہ کاروں نے ملک کی اکانومی کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔
اوپر بار بار مصرکے ہاٹ منی کی مثالیں دی گئی ہیں تو ذرا اس کے اعداد و شمار بھی چیک کر لیں۔
مصری آئی ایم ایف پروگرام کے تحت شرح سود کو 19 فیصد تک لے گئے تھے۔ جس کے نتیجہ میں ملک کے پاس ریکارڈ 45 ارب ڈالر اکٹھے ہو گئے۔ بعد میں شرح سود 19 فیصد سے گرا کر 12 فیصد کر دی گئی۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شرح سود گرتے ہی سرمایہ دار اپنا پیسا نکال کر لے جاتے۔ البتہ قومی خزانہ جوں کا توں 45 ارب ڈالر پر مستحکم رہا۔ یوں ان صحافیوں کا جھوٹ اور حکومت سے بغض اپنے آپ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
Screenshot-2020-01-17-Egypt-Interest-Rate.png

 
Top