عدنان عمر
محفلین
پاکستان "سود خوری" کا نیا عالمی مرکز ، مہنگائی کی اصل وجہ اور سرمایہ کاری کی حقیقت
محمد عاصم حفیظ
16 جنوری 2020
کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح سود والے ممالک میں شامل ہو چکا ۔ روزبروز مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے اور عالمی سرمایہ کاری کی حقیقت کیا ہے۔ آئیے اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 19.7 فیصد سے 12.63 فیصد کے درمیان ہے ۔
مجموعی مہنگائی کی شرح 12.63 فیصد ہے لیکن غذائی اجناس کی مد میں شہری علاقوں میں 16.7 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 19.7 فیصد مہنگائی کی شرح نوٹ کی کی گئی ہے ۔ مہنگائی کی شرح عالمی سطح پر ٹاپ دس ممالک میں شامل ہے جبکہ پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے ۔ اس لسٹ میں زمبابوے جنگ زدہ ہیٹی سوڈان اور ایتھوپیا جیسے ممالک شامل ہیں ۔مہنگائی کی شرح میں اس تیزی سے اضافے کے باوجود حکومت ہر ماہ بجلی گیس اور دیگر ایشیائی ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے ۔
یہ انتہائی حیران کن ہے کہ کیوں کر حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے سے کوئی بھی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا رہی۔ آئیے اس کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں ۔ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں انٹرسٹ ریٹ 13.25 فیصد تک بڑھا دیا تھا جو کہ عالمی سطح پر بلند ترین شرح سود والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان سے بلند شرح سود والے صرف پانچ سے چھ ممالک ہیں جن میں زمبابوے گھانا ملاوی جیسےممالک شامل ہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک اور بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی شرح سود کم کر رہے ہیں حتی کہ جاپان سمیت کئی ممالک میں شرح سود صفر کردیا گیا ہے۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ مقامی اور عالمی ساہو کار، امیر افراد اور کمپنیاں جنہیں تیزی سے منافع چاہئے وہ اپنا پیسہ پاکستانی بینکوں میں رکھ رہی ہیں۔ آپ نے بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی خبریں پڑھی ہوں گی لیکن دراصل یہ سب کسی صنعتی، کاروباری یا معاشی سرگرمی کے لیے نہیں ہو رہا بلکہ صرف بینکوں میں پیسہ رکھا جارہا ہے اور اس کے لیے حکومت نے اب تک کی سب سے بڑی ایمنسٹی سکیم اور سرمایہ کاری میں آسانی کی پالیسی متعارف کرائی ہے۔
ملک میں پیسہ تو آ رہا ہے یا مقامی سرمایہ کار جمع کرا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی بڑا منصوبہ نہیں شروع کیا گیا یا کارخانے نہیں لگ رہے فیکٹری نہیں لگائی جارہیں روزگار کے مواقع نہیں پیدا ہو رہے بلکہ صرف بینکوں میں پیسہ منتقل کرکے بلند شرح سود کے ذریعے منافع کمایا جارہا ہے۔ اب اسی بلند ترین شرح سود کے مطابق منافع دینے کے لیے حکومت ہر ماہ تیل اور گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ جن بیرونی سرمایہ کاروں نے بینک میں پیسہ رکھا ہے انھیں ہر ماہ اپنا منافع چاہیے۔ بدقسمتی سے اس سرمایہ کاری سے کوئی بھی مثبت معاشی سرگرمی جنم نہیں لے رہی ۔
کیونکہ اگر تو بیرونی سرمایہ کاری سے بڑے منصوبے لگیں فیکٹریاں اور دیگر معاشی سرگرمیاں جنم لیں لوگوں کو روزگار ملے مارکیٹ کے حجم میں اضافہ ہو تو اس سے ملک میں معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ۔ملکی اور غیر ملکی دونوں قسم کے سرمایہ کار کاروباری و صنعتی سرگرمیوں کی بجائے بینکوں میں رقم رکھ کر اتنا منافع کما رہے ہیں جو کہ انہیں اصل مارکیٹ میں تجارت و صنعتت سے بھی حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری جانب یہ حقیقی سرمایہ کاری نہیں ہے یہ سرمایہ کار جب چاہیں گے اپنی رقم نکال کر بیرون ملک لے جائیں گے جس سے مزید معاشی نقصان ہوگا۔
کیونکہ یہ کاروبار کے لیے نہیں آئے ان کی کوئی فیکٹری کارخانہ پراجیکٹ زمین پر موجود ہی نہیں ہے کہ جس کو سنبھالنا ان کے لیے مسئلہ بنے ۔ بس ایک بنک کی ٹرانزیکشن سے وہ اپنا سرمایہ واپس لے لیں گے ۔ دنیابھر کے ممالک شرح سود کو کنٹرول کرتے ہیں بینک کا منافع کبھی بھی اتنا نہیں بڑھنے دیتے جس سے صنعت و تجارت متاثر ہو اور سرمایہ کار یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ مارکیٹ میں پیسہ لگانے کی بجائے صرف بینک میں رکھ کر بڑا منافع کما سکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں یہی ہو رہا ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے شرائط میں کہیں بھی صنعت و تجارت کے شعبے میں پیسہ لگانے کی ترویج نہیں کی گئی کوئی شرط نہیں لگائی گئی جس کی وجہ سے سرمایہ کار اپنا پیسہ بینکوں میں رکھ رہے ہیں اور دنیا کے بلند ترین شرح سود کے منافع سے مستفید ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے شعبہ جات مختص کیے جاتے ہیں اور سرمایہ کاروں کو مخصوص شعبہ جات میں ہی سرمایہ کاری کی اجازت دی جاتی ہے۔ معاشی حوالے سے یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ بلند ترین شرح سود کے منافع کی ادائیگی کے لیے یے مہنگائی کی شرح میں میں روزانہ کی بنیاد پر پر اضافہ کرنا پڑتا ہے ہے غریب عوام سے سے بجلی و گیس کے بلوں پیٹرول و ادویات اشیائے خوردونوش کی مدت میں پیسہ اکٹھا کرکے سرمایہ کاروں کو منافع دیا جا رہا ہے۔
حکومت کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی شرح سود کو کم کرنا ہوگا اور سرمایہ کاروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ صنعت و تجارت کے میدان میں سرمایہ کاری کریں صرف یہی صورت ہے جس سے ہم بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور عوام کو تھوڑا بہت روزگار و ریلیف مل سکتا ہے۔معیشت کو سود کی ترویج کےلئے استعمال کرنے کی بجائے سود سے بچنا بہترین ہیں کیونکہ کہ اللہ تعالی کے ساتھ جنگ ہے اور یہ کبھی بھی مفید نہیں ہو سکتا ۔
محمد عاصم حفیظ
16 جنوری 2020
کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح سود والے ممالک میں شامل ہو چکا ۔ روزبروز مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے اور عالمی سرمایہ کاری کی حقیقت کیا ہے۔ آئیے اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 19.7 فیصد سے 12.63 فیصد کے درمیان ہے ۔
مجموعی مہنگائی کی شرح 12.63 فیصد ہے لیکن غذائی اجناس کی مد میں شہری علاقوں میں 16.7 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 19.7 فیصد مہنگائی کی شرح نوٹ کی کی گئی ہے ۔ مہنگائی کی شرح عالمی سطح پر ٹاپ دس ممالک میں شامل ہے جبکہ پاکستان کا نمبر آٹھواں ہے ۔ اس لسٹ میں زمبابوے جنگ زدہ ہیٹی سوڈان اور ایتھوپیا جیسے ممالک شامل ہیں ۔مہنگائی کی شرح میں اس تیزی سے اضافے کے باوجود حکومت ہر ماہ بجلی گیس اور دیگر ایشیائی ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے ۔
یہ انتہائی حیران کن ہے کہ کیوں کر حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے سے کوئی بھی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا رہی۔ آئیے اس کی سب سے بڑی وجہ سمجھتے ہیں ۔ حکومت نے گزشتہ بجٹ میں انٹرسٹ ریٹ 13.25 فیصد تک بڑھا دیا تھا جو کہ عالمی سطح پر بلند ترین شرح سود والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان سے بلند شرح سود والے صرف پانچ سے چھ ممالک ہیں جن میں زمبابوے گھانا ملاوی جیسےممالک شامل ہیں۔ دوسری جانب مغربی ممالک اور بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی شرح سود کم کر رہے ہیں حتی کہ جاپان سمیت کئی ممالک میں شرح سود صفر کردیا گیا ہے۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ مقامی اور عالمی ساہو کار، امیر افراد اور کمپنیاں جنہیں تیزی سے منافع چاہئے وہ اپنا پیسہ پاکستانی بینکوں میں رکھ رہی ہیں۔ آپ نے بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی خبریں پڑھی ہوں گی لیکن دراصل یہ سب کسی صنعتی، کاروباری یا معاشی سرگرمی کے لیے نہیں ہو رہا بلکہ صرف بینکوں میں پیسہ رکھا جارہا ہے اور اس کے لیے حکومت نے اب تک کی سب سے بڑی ایمنسٹی سکیم اور سرمایہ کاری میں آسانی کی پالیسی متعارف کرائی ہے۔
ملک میں پیسہ تو آ رہا ہے یا مقامی سرمایہ کار جمع کرا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے کوئی بڑا منصوبہ نہیں شروع کیا گیا یا کارخانے نہیں لگ رہے فیکٹری نہیں لگائی جارہیں روزگار کے مواقع نہیں پیدا ہو رہے بلکہ صرف بینکوں میں پیسہ منتقل کرکے بلند شرح سود کے ذریعے منافع کمایا جارہا ہے۔ اب اسی بلند ترین شرح سود کے مطابق منافع دینے کے لیے حکومت ہر ماہ تیل اور گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ جن بیرونی سرمایہ کاروں نے بینک میں پیسہ رکھا ہے انھیں ہر ماہ اپنا منافع چاہیے۔ بدقسمتی سے اس سرمایہ کاری سے کوئی بھی مثبت معاشی سرگرمی جنم نہیں لے رہی ۔
کیونکہ اگر تو بیرونی سرمایہ کاری سے بڑے منصوبے لگیں فیکٹریاں اور دیگر معاشی سرگرمیاں جنم لیں لوگوں کو روزگار ملے مارکیٹ کے حجم میں اضافہ ہو تو اس سے ملک میں معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ۔ملکی اور غیر ملکی دونوں قسم کے سرمایہ کار کاروباری و صنعتی سرگرمیوں کی بجائے بینکوں میں رقم رکھ کر اتنا منافع کما رہے ہیں جو کہ انہیں اصل مارکیٹ میں تجارت و صنعتت سے بھی حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری جانب یہ حقیقی سرمایہ کاری نہیں ہے یہ سرمایہ کار جب چاہیں گے اپنی رقم نکال کر بیرون ملک لے جائیں گے جس سے مزید معاشی نقصان ہوگا۔
کیونکہ یہ کاروبار کے لیے نہیں آئے ان کی کوئی فیکٹری کارخانہ پراجیکٹ زمین پر موجود ہی نہیں ہے کہ جس کو سنبھالنا ان کے لیے مسئلہ بنے ۔ بس ایک بنک کی ٹرانزیکشن سے وہ اپنا سرمایہ واپس لے لیں گے ۔ دنیابھر کے ممالک شرح سود کو کنٹرول کرتے ہیں بینک کا منافع کبھی بھی اتنا نہیں بڑھنے دیتے جس سے صنعت و تجارت متاثر ہو اور سرمایہ کار یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ مارکیٹ میں پیسہ لگانے کی بجائے صرف بینک میں رکھ کر بڑا منافع کما سکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں یہی ہو رہا ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے شرائط میں کہیں بھی صنعت و تجارت کے شعبے میں پیسہ لگانے کی ترویج نہیں کی گئی کوئی شرط نہیں لگائی گئی جس کی وجہ سے سرمایہ کار اپنا پیسہ بینکوں میں رکھ رہے ہیں اور دنیا کے بلند ترین شرح سود کے منافع سے مستفید ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے شعبہ جات مختص کیے جاتے ہیں اور سرمایہ کاروں کو مخصوص شعبہ جات میں ہی سرمایہ کاری کی اجازت دی جاتی ہے۔ معاشی حوالے سے یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ بلند ترین شرح سود کے منافع کی ادائیگی کے لیے یے مہنگائی کی شرح میں میں روزانہ کی بنیاد پر پر اضافہ کرنا پڑتا ہے ہے غریب عوام سے سے بجلی و گیس کے بلوں پیٹرول و ادویات اشیائے خوردونوش کی مدت میں پیسہ اکٹھا کرکے سرمایہ کاروں کو منافع دیا جا رہا ہے۔
حکومت کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی شرح سود کو کم کرنا ہوگا اور سرمایہ کاروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ صنعت و تجارت کے میدان میں سرمایہ کاری کریں صرف یہی صورت ہے جس سے ہم بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور عوام کو تھوڑا بہت روزگار و ریلیف مل سکتا ہے۔معیشت کو سود کی ترویج کےلئے استعمال کرنے کی بجائے سود سے بچنا بہترین ہیں کیونکہ کہ اللہ تعالی کے ساتھ جنگ ہے اور یہ کبھی بھی مفید نہیں ہو سکتا ۔