پاکستانی اور کتابیں

تاریخ : 19 نومبر، 2014
پاکستانی اور کتابیں
تحریر: سید انور محمود

انشا جی بھی عجیب تھے، اس خوش فہمی کا شکار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے کہ وہ جو کچھ لکھیں گے ہم پاکستانی اُن کی کتابیں خرید کر اُس کو پڑھتے رہنگے ، اس لیے ہی اپنے "سفر نامہ" میں وہ کچھ زیادہ ہی اکڑ دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
” مارک ٹوین نے اپنے ایک ناول کے دیپاچہ میں لکھا تھا ۔ ۔ ۔۔ ” اگر کوئی شخص اس کہانی میں مقصد تلاش کرتا ہوا پایا گیا تو ۔ ۔ ۔ اس پر مقدمہ چلایا جائےگا۔۔ ۔۔ اگر کسی شخص نے اس کتاب سے سبق لینے کی کوشش کی تو ۔ ۔ ۔ اُسے ملک بدر کر دیا جائےگا۔ ۔ ۔ اور اگر کسی نے اس میں پلاٹ تلاش کرنے کی جرات کی تو اُسے ۔ ۔ ۔ گولی ماردی جائے گی۔” ہم طبیعت کے ایسے متشدد نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ جیسے مارک ٹوین تھے ۔ ۔ ۔ تاہم اتنا خبردار کریں گے کہ ۔ ۔ ۔ اگر کسی نے اس سفرنامے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ اچھا نہ ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی شخص اس سفر نامے کو گائیڈبنا کر اس کی مدد سے سفر کرنے کی کوشش کرے گا۔ ۔ ۔ نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ ۔ ۔"

آج اگر انشا جی زندہ ہوتے اور 100لفظوں کی اس کہانی کو پڑھ لیتے تو شاید لکھنا چھوڑ دیتے ، کیسے یہ آپ 100لفظوں کی کہانی پڑھکر خود سمجھ سکتے ہیں۔

سو (100) لفظوں کی کہانی ۔۔۔۔۔۔روایت ۔۔۔۔۔۔مبشر علی زیدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ کے جس علاقے میں پاکستانیوں کی اکثریت ہوجاتی ہے،
وہاں رفتہ رفتہ تین قسم کی دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ برسلز میں ایک دوست نے بتایا۔
اچھا! کون کون سی؟ میں نے پوچھا۔
ایک شراب کی، دوسرے سوّر کے گوشت سے بنے کھانوں کی۔ دوست نے کہا۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
سمندر پار پاکستانیوں نے اپنے بزرگوں کی روایتیں برقرار رکھی ہیں۔ میں نے سوچا۔
لیکن پھر مجھے کچھ یاد آیا، تم نے دو طرح کے کاروبار بتائے، اور کون سی قسم کی دکانیں پاکستانیوں کے علاقوں میں بند ہوجاتی ہیں؟۔
دوست نے نگاہیں چرُاکے کہا، "کتابوں کی"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو (100) لفظوں کی کہانی بشکریہ روز نامہ جنگ
 
اگر یہ تین قسم کی دکانیں بند ہوتیں ہیں تو اس کے مقابلے میں کم ازکم ایک ادھ نئی دکان بھی کھلتی ہو گی، لگے ہاتھوں اس پر بھی روشنی ڈال دیں
 
Top