اس کا جواب قبلہ و کعبہ میرزا اسد اللہ خان غالب نے ایک قطعے میں دیا تھا "خطاب بہ ذوق"۔ ذوق نے بادشاہ کہ دربار میں شیخی ماری تھی کہ میں نے اتنا زیادہ کلام کہہ رکھا ہے اور اُس کا (یعنی غالب کا) کلام تو میرے کلام کی مقدار کے آگے کچھ بھی نہیں۔ طویل قطعہ ہے، فقط تین اشعار، اگر فارسی لوگوں کو ہضم ہو جائے تو
اے کہ در بزمِ شہنشاہِ سخن رس گفتہ ای
کی بہ پُر گوئی فلاں در شعر ہمسنگِ من است
اے کہ تُو نے (یعنی ذوق نے) سخن رس شہنشاہ کی بزم میں کہا ہے کہ پُر گوئی میں فلاں (یعنی غالب) کب میرے برابر ہے۔
راست گفتی لیک میدانی کہ نبود جائے طعن
کمتر از بانگِ دہل گر نغمۂ چنگِ من است
تُو نے سچ کہا لیکن تُو بھی جانتا ہے کہ یہ طعنہ مارنے کا محل نہیں ہے کہ اگر ڈھول کی آواز سے میرے چنگ کی نغموں کی آواز کم تر ہے۔
راست می گویم من و از راست سر نتواں کشید
ہر چہ در گفتار فخرِ تست آں ننگِ من است
میں سچ کہتا ہوں اور سچ کے سامنے سر نہیں اٹھانا چاہیے، کہ گفتار اور کلام اور شاعری میں جو کچھ بھی (مقدار) تیرے لیے فخر کا مقام ہے وہ میرے ننگ کا باعث ہے۔