پاکستانی جامعات میں تحقیقی معیار سے زیادہ مقدار پر زور دِیا جاتا ہے

السلام علیکم !
اردو مباحثے کے لیے مواد کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس اس موضوع پر جو اشعار یا دلائل موجود ہوں۔ براہِ کرم اس لڑی میں شئیر کیجئے اور دعائیں سمیٹئیے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
وعلیکم السلام مریم..میں کیا دلائل اور اشعار پیش کروں میں تو صرف وہ صورتحال بتانا چاہوں گی جس کو مجھے خود فیس کرنا پڑ رہا ہے..ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی بچے کو ڈراپ آؤٹ نہ کیا جائے اور پنجم اور ہشتم کی تعداد پچھلے سال کی نسبت دس فیصد زیادہ ہونی چاہیے..
یا تو حکومت اپنی خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی سے دستبردار ہو جائے تو پھر تو والدین سے استدعا کی جا سکتی ہے یا آس پاس موجود پرائیویٹ سکولز کا سدِ باب کیا جائے اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو گورنمنٹ سکولز کا معیار بلند کر دیا جائے یا والدین کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سکولز بھیجیں..
آپ ہی بتائیے ایک کلاس میں دس بچے پنجم کے ہوں اور یہ سلسلہ نرسری سے ہو اور انہیں کہا جائے کہ کیونکہ پچھلے سال بتیس تھے سو اس بیالیس کر دیں تو کیا کیا جائے جب کہ آس پاس چار پرائیویٹ سکولز ہوں..اب ہر سال سیم عمر کے زیادہ بچے کہاں سے برآمد کیے جائیں..اگر سکول کی اوور آل تعداد کی بات ہو تو سمجھ میں بھی آتی ہے..پھر کسی کو بھی ڈراپ آؤٹ نہ کرنے کی پابندی..کونسا معیار اور کہاں کا معیار..اب تو ہنسی آتی ہے ان باتوں پر..
حکومت کیا اپنا فرض ادا کر رہی ہے اور کیا جتنی تعداد بڑھانے کو کہا جاتا ہے اتنی ہی ویکینسیاں پیدا کی جا رہی ہیں والدین بھوکے پیٹ ہیں ان کو اپنا ایم اے پاس بچہ بھی رلتا دکھائی دیتا ہے وہ کیسے ہماری بات مانیں
 

محمد امین

لائبریرین
یہ ایسا موضوع نہیں کہ جس پر شاعرانہ اور ادبی طریقے سے بات کی جاسکے۔ ہاں حقائق، اعداد و شمار معلوم ہوں تو طنز کی کاٹ سے مارا جا سکتا ہے۔۔۔میں اس کو مباحثے سے زیادہ تقریر کا موضوع سمجھتا ہوں۔۔۔
 

عثمان

محفلین
یہ ایسا موضوع نہیں کہ جس پر شاعرانہ اور ادبی طریقے سے بات کی جاسکے۔ ہاں حقائق، اعداد و شمار معلوم ہوں تو طنز کی کاٹ سے مارا جا سکتا ہے۔۔۔میں اس کو مباحثے سے زیادہ تقریر کا موضوع سمجھتا ہوں۔۔۔
بالکل درست کہا۔
اعداد و شمار کے بغیر اس طرح کے موضوع پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
 
یہ ایسا موضوع نہیں کہ جس پر شاعرانہ اور ادبی طریقے سے بات کی جاسکے۔ ہاں حقائق، اعداد و شمار معلوم ہوں تو طنز کی کاٹ سے مارا جا سکتا ہے۔۔۔میں اس کو مباحثے سے زیادہ تقریر کا موضوع سمجھتا ہوں۔۔۔
جی آپ نے درست فرمایا۔ مگر شاعرانہ یا ادبی طریقے کے بغیر مباحثہ ممکن نہیں۔ اعداد و شمار اور سب پوائنٹس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مگر ان کو پیش کرنے کا انداز بھی اس کے بعد اُتنی ہی اہمیت رکھتا ہے
اور واقعی یہ مباحثے کا موضوع لگتا نہیں کیونکہ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ اس کی مخالفت میں جا کر کون اپنی عاقبت برباد کرے گا۔ :)
 

عثمان

محفلین
کیا اعداد و شمار لائے جائیں ؟
جامعات میں ہونی والی تحقیق کے مقالات کہاں شائع ہوتے ہیں۔ مقالے کی Research citations کیا ہیں۔ جرائد کا Impact factor کتنا ہے۔ Research collaboration کیسی ہے۔ جامعہ کی سالانہ financial endowment کتنی ہے۔
یہ تو محض بنیادی نوعیت کے سوالات ہیں۔ آپ کے ایسے بہت سے سوالات کے جوابات ڈھونڈنا پڑیں گے۔
 

زیک

مسافر
موضوع مقدار اور معیار کا مقابلہ ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مقدار پر کوئی فوکس ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اس کا جواب قبلہ و کعبہ میرزا اسد اللہ خان غالب نے ایک قطعے میں دیا تھا "خطاب بہ ذوق"۔ ذوق نے بادشاہ کہ دربار میں شیخی ماری تھی کہ میں نے اتنا زیادہ کلام کہہ رکھا ہے اور اُس کا (یعنی غالب کا) کلام تو میرے کلام کی مقدار کے آگے کچھ بھی نہیں۔ طویل قطعہ ہے، فقط تین اشعار، اگر فارسی لوگوں کو ہضم ہو جائے تو :)

اے کہ در بزمِ شہنشاہِ سخن رس گفتہ ای
کی بہ پُر گوئی فلاں در شعر ہمسنگِ من است
اے کہ تُو نے (یعنی ذوق نے) سخن رس شہنشاہ کی بزم میں کہا ہے کہ پُر گوئی میں فلاں (یعنی غالب) کب میرے برابر ہے۔

راست گفتی لیک میدانی کہ نبود جائے طعن
کمتر از بانگِ دہل گر نغمۂ چنگِ من است
تُو نے سچ کہا لیکن تُو بھی جانتا ہے کہ یہ طعنہ مارنے کا محل نہیں ہے کہ اگر ڈھول کی آواز سے میرے چنگ کی نغموں کی آواز کم تر ہے۔

راست می گویم من و از راست سر نتواں کشید
ہر چہ در گفتار فخرِ تست آں ننگِ من است
میں سچ کہتا ہوں اور سچ کے سامنے سر نہیں اٹھانا چاہیے، کہ گفتار اور کلام اور شاعری میں جو کچھ بھی (مقدار) تیرے لیے فخر کا مقام ہے وہ میرے ننگ کا باعث ہے۔
 
دراصل معیار مقدار ہی سے ہے۔
جتنی زیادہ ریسرچ ہوگی اتنے ہی چانسز ہیں کہ کوئی ڈھنگ کی ریسرچ ہو۔ جیسے چائنا میں ہوا۔ اگر آپ ان مقالات کا شمار کریں جو چائنا نے 20 سے 25 سال میں چھاپے تو اندازہ ہوگا کہ مقدار بڑھی ہے ساتھ ہی معیار بھی۔ صنعتی ترقی کے ساتھ ریسرچ بہت فوکسڈ ہوتی جاتی ہے اور ریزلٹ اورینٹڈ ہوتی جاتی ہے۔ نتیجہ میں معیار بھی بڑھتا ہے۔ ریسرچ غربت کا کھیل نہیں۔ اس میں پیسہ ڈبونا پڑتا ہے پھر کچھ ہاتھ آتا ہے۔ جیسے کورین کمپنی سامسنگ ایک دیوائس بنابا چاہتی ہے تو وہ اپنی ٹیم کو یہ ٹاسک دے گی۔ ایک سے زائد ٹیم بنائی جاوے گی ۔ پھر مختلف یونی ورستیز میں طالب علموں کو اسپانسر کیا جائے گا ایک سے زائد۔ یعنی مقدار زیادہ ہوگی نتیجہ میں کوئی کلک کرے گا۔ ایجاد مارکیٹ ہوگی۔ سب انسوستمنت وصول۔ مگر مقدار میں کچھ مقالے اور بھی ہوجاتے ہیں۔
بعینہ یہی بات پاکستان میں فٹ ہے مگر یہاں سامسنگ نہیں ہے۔ ایچ ای سی کچھ فنڈنگ کرتی ہے۔ ایچ ای سی نے ریسرچر کےمعیار مقرر کیے ہیں جن کو وہ فنڈ کرتی ہے۔ ریسرچر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اعلی معیار کے مقالے لکھے تاکہ اس کی پروموشن ہو۔ میرے خیال میں اسی وجہ سے پاکستان کی محدود ریسرچ ہے مگر اچھے معیار کی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو غیر معیاری جرنل میں پیپرز شائع کرتے ہیں۔ مگر یہ بہت نہیں۔ ایچ ای سی کی وجہ سے معیار بڑھا ہے۔
جاری۔۔۔
 
Top