میرے ذہن میں ایک سوال/تجسس کافی عرصہ سے ہے۔
سکول کے اساتذہ تربیت لے کے پڑھاتے ہیں۔لیکن کالج اور جامعات میں اب تک ایم اے کی بنیاد پہ لیکچرر شپ ملتی رہی ہے۔انہوں نے اپنے مضامین میں تو ماسٹرز کیا ہے۔وہ بہت کچھ جانتے ہیں اس مضمون کے بارے میں۔لیکن۔۔۔۔اس مضمون کو پڑھایا کیسے جائے؟یہ تو انہوں نے نہیں سیکھا؟؟؟
ایم فل والوں کو ہمارے ہاں ڈاکٹز اور ایم فل والے پڑھا رہے ہیں۔پی ایچ ڈی کو ڈاکٹز پڑھا رہے ہیں۔
لیکن صرف ایک مرتبہ اپنے ایم فل یا ڈاکٹریٹ میں تحقیق کر کے تحقیق پڑھانا یا کرانا ۔۔۔۔ کیسے ممکن ہے؟؟؟؟؟
مجھے تو تحقیق کرانا تو بہت بہت بہت اوپر کی بات۔۔۔پڑھانا بھی بہت اوپر کی بات لگتی ہے۔اس کے لیے تو استاد کو کئی تحقیقات کے processسے گذرنا ہوگا۔اسے تحقیق پہ اپنے مطالعہ کو بہت بہت وسیع کرنا ہوگا۔اسے تحقیق پڑھانا اور کرانا سیکھنا ہوگا۔
لیکن۔۔۔۔مجھے بہت افسوس اور دکھ ہے ۔۔۔۔ہم اپنے شعبہ /مضمون سے مخلص نہیں۔
محبت یہ نہیں کہ اس مضمون میں زیادہ سے زیادہ لوگ پاس کر کے زندگی میں لے آئیں۔۔۔۔۔وہ تو نہ صرف بے مصرف ہوں گے بلکہ انتہائی نقصان دہ ہوں گے۔
ادھورا علم کس قدر نقصان کرتا ہے!!!
اسکول کے اساتذہ کے لیے تربیت یا ایجوکیشن کے مضمون میں ڈگری ڈپلوما ہونا تو ٹھیک ہے لیکن دنیا بھر میں ایسی کوئی پریکٹس نہیں کہ جامعات میں پڑھانے والوں کے لیے ایجوکیشن کا مضمون لازمی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اکثر اچھی جامعات میں لیکچرر کم از کم پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ انجینئرنگ کی جامعات میں تو اکثر جونیئر لیکچرر یا لیب انسٹرکٹر بھی پی ایچ ڈی ہوتے ہیں، اب اس کا تقابل کریں پاکستان سے۔ یہاں لیب انسٹرکٹر کے لیے محض بیچلرز ڈگری ضروری ہے۔ یہاں تک کہ اکثر لوگوں کو تو انا کے مسائل ہوجاتے ہیں اگر وہ بیچلرز سے ذرا اوپر کی قابلیت کے حامل ہوں اور ان کو لیب پڑھانے کو دے دی جائے۔
ہاں ان کا نظام ایسا ہے کہ کورس اور لیب کا ٹیچر اگر ڈوکٹر ہے تو اس کے ساتھ ٹیچنگ اسسٹنٹ کچھ گریجویٹ طالبِ علم یا کسی ریسرچ گروپ کے ممبر ہوتے ہیں، یہی طریقہ ہے کہ جس میں تحقیق سے ہٹ کر تدریس میں جونیئرز کی تربیت ایک کلوزلی مونیٹرڈ نظام کے تحت کی جاتی ہے۔
تحقیق کے ذریعے ماسٹرز کرنے والا ایک محنتی طالبِ علم اگر محسوس کرتا ہے کہ اس کا مستقبل تدریس سے وابستہ ہے تو وہ اسی دوران ٹیچنگ اسسٹنس کے ذریعے اپنے آپ کو گروم کرتا ہے یا اس کو گروم کیا جاتا ہے۔
ایچ ای سی کی پالیسیز ہمارے معاشرتی و معاشی مسائل سے متاثر ہوتی ہیں۔ ایچ ای سی کے مطابق کسی شخص کو لیکچرر بنایا جا سکتا ہے اگر اس نے 18 سالہ تعلیم مکمل کرلی ہے، چاہے تحقیق کے ذریعے ہو یا فقط کورس ورک۔ پھر اس کے بعد سال دو سال کے تدریسی تجربے کے ساتھ اگر ایک آدھ جریدے میں مقالہ لکھ ڈالا تو اسسٹنٹ پروفیسر، بعض اوقات مقالے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہاں پھر ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے پی ایچ ڈی ہونی لازمی ہے۔ اور یہاں ہمارا قومی احساسِ کمتری بھی فعال ہوجاتا ہے، کہ اگر پی ایچ ڈی پاکستان سے کی ہے تو تنخواہ غیر ملک کے پی ایچ ڈی سے کم ملے گی۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔
ایک بات جو تحقیق و تدریس کے حوالے سے اہم ہے وہ یہ کہ اعلیٰ تعلیم میں پڑھانے والے کا اچھا پڑھانے سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ اس کو خود وہ مضمون آتا ہو۔ اور وہ اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں طلبا کو انسپائر کر سکتا ہو۔ واضح رہے میں نے انسپائر لکھا ہے، امپریس نہیں۔ ماسٹرز سطح کی تعلیم ایسی ہوتی ہے کہ اس میں گھول کر نہیں پلا سکتے، طالبِ علم کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی اور تحریک و ترغیب دینا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
اور بیچلرز سطح پر ایسے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو واقعتاََ گھول کر پلا سکتے ہوں، کونسیپٹس سمجھا سکتے ہوں۔ اور یہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں کہ جو عرصہ دراز سے پڑھا رہے ہوں اور اپنا لوہا منوا چکے ہوں یا ایسے کم تجربہ کار افراد جن کو جامعہ کے سینیئرز نے جانچ لیا ہو۔۔