صرف علی
محفلین
مدیر کا نوٹ: محمد نعیم وارث قادری پاکستان میں صوفی سنی مکتبہ فکر کے ترجمان رسالے صدائے اہل سنت کے رکن ادارتی بورڈ ہیں اور مذھبی سیاسی دانشور ہیں ،انھوں نے پاکستانی فوج کے دستوں کی سعودیہ -عراق سرحد پر تعیناتی کے ایشو پر اہل سنت بریلوی کے خیالات ،احساسات اور تحفظات کو بیا ن کیا ہے اور یہ مضمون بہت غور و فکر کے قابل اور نئی جہات کی طرف اشارہ کرتا ہے ،تعمیر پاکستان ویب سائٹ “صدائے اہل سنت “اور اس رسالے کی ادارۃی ٹیم کے رکن وارث نعیم قادری کی شکر گزار ہے کہ انھوں نے یا آرٹیکل ہمیں ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کی اجازت دی
روزنامہ جنگ لندن کی ایک خبر کے مطابق پاکستان اور مصر کی افواج کے دستے سعودی عرب کی حکومت کی درخواست پر سعودی عرب کی عراق کے ساتھ ملنے والی سرحد کے ساتھ ساتھ تعنیات کردئے گئے ہیں جوکہ وہابی تکفیری تنظیم داعش جو اب دولت اسلامیہ کہلارہی ہے اور اس کا خلیفہ ابوبکر البغدادی ہے کے ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب کا دفاع کریں گے اور آل سعود کے اقتدار کو بھی گرنے سے بچائیں گے
جبکہ سعودی نیوز ایجنسی نے حال ہی میں سعودی شاہ عبداللہ کی جو تقریر کا متن جاری کیا ہے اس کو پڑھنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کس قدر داعش اور سلفی جہادیوں سے خوفزدہ ہیں اور اب ان کے اقتدار کو بچانے کا سارا دارومدار پاکستان اور مصر کی افواج کے کندھوں پر آن پڑا ہے
میرے جیسے صوفی سنّی مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے پاکستان کی فوج کا سعودی عرب کے حکمرانوں کی مدد کے لیے جانا اور سعودی عرب کی سرحدوں پرکھڑے ہونا اس لیے تشویش کا باعث ہے کہ سعودی عرب نام کی ریاست برطانوی سامراج کی مدد سے ناجائز طور پر حجاز کے سنّی مسلمانوں کا بڑے پیانے پر قتل عام کرنے ،ان کی مذھبی آزادیوں کو سلب کرکے ،مقامات مقدسہ بشمول جنت معلی و جنت البیقیع کو مسمار کرکے اور بڑے پیمانے پر سنّی آبادی کو تبدیلی مذھب پر مجبور کرکے وجود میں لائی گئی تھی اور آج تک یہ ریاست اہل سنت کے مذاہب اربعیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان کے عقیدے اور کلچر کے مطابق رہنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے اور وہاں پر وہابی ازم کو زبردستی مسلط کیا ہوا ہے
جنت البقیع کا نیا نقشہ ایسا ہونا چاہئیے
ویسے بھی آل سعود کے جرائم کی تاریخ بہت طویل ہے اس لیے محض آل سعود کا اقتدار بچآنے اور سعودی ریاست کا تحفظ کرنے سے پاکستانی فوج کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوگا اور ہم بھی نہیں چاہتے کہ پاک فوج سلفی آل سعود اور سلفی جہادی داعش کے درمیان ہونے والی لڑائی کا فریق نہیں بننا چاہئیے بلکہ صرف حجاز کے اندر مکّہ ،مدینہ سمیت دیگر علاقوں میں موجود مقامات مقدسہ کی حفاظت تک خود کو مامور رکھنا چاہئیے
اگر پاکستان کی حکومت اور ہماری عسکری قیادت کی کوئی مجبوریاں ہیں تو کم از کم آل سعود کے اقتدار اور سرحدوں کی حفاظت کے بدلے پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کو ایک طرف تو سعودیہ عرب سے یہ مطالبہکرنا چاہئیے کہ وہ جس قدر فوجی اور سول مد میں امداد مصر کے ایک فوجی آمر کو دے رہا ہے اتنی امداد پاکستان کو بھی دے
رائٹر خبر ایجنسی کی 4 اگست 2014ء کی خبر کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس سال مصر کو 20 ارب ڈالر کا امدادی پیکج فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات پہے ہی مصر کو چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر اور سعودیہ عرب نے پانج ارب ڈالر کا پیکج گذشتہ سال مشترکہ 12 ارب ڈالر کے پیکج کے علاوہ دئے تھے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصر کے جنرل السیسی کی حکومت کو سعودی عرب کے کیمپ سے ان دو سالوں میں 5۔41 ارب ڈالر ملنے والے ہیں جبکہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے 5۔1 ارب ڈالر کی امداد پر پاکستانی فوج کو مڈل ایسٹ کے جہنم میں دھکیلنے کی کوشش کی تھی جسے خود پاکستانی فوج کی قیادت کی مخالفت کے سبب ترک کرنا پڑا تھا
ہم صوفی اہلست مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے میں اگر سعودی عرب کی ریاست اور آل سعود کا دفاع اتنا ہی مجبوری کا کام ہے تو پاکستان کو ایک طرف تو اتنا ہی امدادی پیکج ملنا چاہئیے جو سعودی عرب اور اس کے اتحادی مصر کو دے رہے ہیں جبکہ اس پیکج کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو سعودی عرب پر زور دینا چاہئیے کہ ایک تو وہ سعودی عرب میں اہل سنت اور اہل تشیع پر لگی مذھبی پابندیوں کو فی الفور ہٹائے اور ان کی مذھبی ثقافتی پراسیکوشن کا سلسلہ بند کرے اور سعودی عرب میں اس نے جنت معلی اور جنت البقیع میں جن اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین ،اہل بیت اطہار ،تابعین و تبع تابعین اور صالحین امت کے مزارات کو گرایا تھا ان کو دوبارہ سے تعمیر کرے اور اہل سنت و اہل تشیع کو پوری مذھبی آزادی کی ضمانت فراہم کرے
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو سعودی عرب کے سامنے یہ مطالبہ بھی رکھنا چاہئیے کہ ان کے ملک کے سرکاری اور نجی زرایع سے پاکستان کے اندر انتہا پسند تکفیری وہابی و دیوبندی نیٹ ورک کی جو مالی مدد کی جارہی ہے اور وہابیت کا نفرت آمیز لٹریچر جو بڑی تعداد میں سعودی عرب کی مذھبی وڑات اور سفارت خانے کی مدد سے چھپتا ہے کا سلسلہ فوری بند ہونا چاہئيے
سعودیہ عرب کی ریاست انتشار اور زوال کے جس خطرے کا سامنا کررہی ہے وہ خطرہ اسے نہ تو اہل سنت سے ہے اور نہ ہی شیعہ سے ہے بلکہ یہ حطرہ سعودیہ عرب کو ان سلفی نام نہاد جہادیوں سے جن کو پرواں چڑھانے کا سلسلہ سعودیہ عرب نے 80ء کی دھائي میں سی آئی اے ،ایم آئی 6 کی مدد سے شروع کیا تھا اور سعودیہ عرب نے یہ سلسلہ اس جاری عشرے تک تواتر اور تسلسل سے جاری رکھا اور سعودی عرب نے اس معاملے میں اس قدر حدیں پار کرلیں کہ جب امریکیوں نے شام پر فوجی کاروائی سے انکار کیا تو سعودی عرب اکیلا ہی اپنے گلف اتحادیوں کی مدد سے سریع الحرکت سلفی فوج بنانے چل نکلا اور اس سے پہلے جب امریکی اور اس کے اتحادی یورپی ملکوں نے شام میں بشار کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے باغی فوج کی تیاری کا مشن سابق سعودی انٹیلی جنس چیف بندر بن سلطان کو سونپا تھا تو اس نے عراق میں برسرپیکار سلفی جہادیوں اور داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو شام جاکر لڑنے پر راضی کیا تھا اور آج وہی سلفی جہادی خود سعودی عرب پر چڑھائی کے لیے تیار ہیں اور سعودی عرب پر راکٹ برسانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے
سعودی عرب جس مصیبت کا شکار ہونے کا اندیشہ محسوس کرکے پاکستانی اور مصری افواج کے دستوں کو اپنی سرحدوں پر لے آیا ہے اس مصیب کا شکار پاکستان بہت عرصے سے ہے اور اسے اپنے 70 ہزار شہریون بشمول سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں ،بے نظیر بھٹو جیسی بڑی سیاست دان اور کئی ایک صوفی سنّی علماء و مشائح کی شہادت کے ساتھ ساتھ صدیوں سے چلے آرہے صوفی ثقافتی ورثے کی تباہی کا بھی سامنا ہے اور یہ سب کام ان نام نہاد مجاہدوں کا ہے جن کو تزویراتی گہرائی کے نام پر دشمن سے لڑنے کو تیار کیا گیا تھا
پاکستان کی ملٹری و سیاسی قیادت کو مڈل ایسٹ سے بالعموم اور سعودیہ عرب کی حالت سے بالخصوص سیکھنے کی ضرورت ہے کہ نام نہاد جہادی عسکریت پسندی کو اپنی پراکسی کے طور پر پالنا پوسنا بہت خطرناک عمل ہے اور ایک دن یہ بیک فاغر کرتی ہے اور اس سے ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے ،ویسے ہمیں کسی حد تک آئی ایس پی آر کے ترجمان عاصم باجوہ کی بات پر یقین ہے کہ پاکستان کی فوج اور اس کے دیگر ادارے کسی بھی ہمسایہ ملک میں تزویراتی گہرائی کی تلاش نہیں کررہے اور پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب دھشت گردوں کے ایک بڑے اور بنیادی انفراسٹرکچر اور بیس کیمپ کی تباہی کا سبب بنا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کو اس تاثر کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے حقانی نیٹ ورک کو محفوظ راستہ فراہم کیا ہے اور پارہ چنار میں حقانی نکیٹ ورک کے منتقل ہونے کی جو کہانا؛یاں سامنے آئی ہیں اس پر آئی ایس پی آر کو فی الفور وضاحت اور پریس بریفنگ کا انتظام کرنا چاہئیے
http://lubpak.com/archives/319271
حوالہ جات
http://www.reuters.com/article/2014/01/30/us-egypt-saudi-idUSBREA0T0C920140130
http://www.telegraph.co.uk/finance/...-UAE-ready-20bn-boost-for-Egypts-El-Sisi.html
http://www.csmonitor.com/World/Glob...s-again-Saudi-Arabia-UAE-jump-in-to-aid-Egypt
- See more at: http://lubpak.com/archives/319271#sthash.5UHOv5yA.dpuf
روزنامہ جنگ لندن کی ایک خبر کے مطابق پاکستان اور مصر کی افواج کے دستے سعودی عرب کی حکومت کی درخواست پر سعودی عرب کی عراق کے ساتھ ملنے والی سرحد کے ساتھ ساتھ تعنیات کردئے گئے ہیں جوکہ وہابی تکفیری تنظیم داعش جو اب دولت اسلامیہ کہلارہی ہے اور اس کا خلیفہ ابوبکر البغدادی ہے کے ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب کا دفاع کریں گے اور آل سعود کے اقتدار کو بھی گرنے سے بچائیں گے
جبکہ سعودی نیوز ایجنسی نے حال ہی میں سعودی شاہ عبداللہ کی جو تقریر کا متن جاری کیا ہے اس کو پڑھنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آل سعود کس قدر داعش اور سلفی جہادیوں سے خوفزدہ ہیں اور اب ان کے اقتدار کو بچانے کا سارا دارومدار پاکستان اور مصر کی افواج کے کندھوں پر آن پڑا ہے
میرے جیسے صوفی سنّی مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے پاکستان کی فوج کا سعودی عرب کے حکمرانوں کی مدد کے لیے جانا اور سعودی عرب کی سرحدوں پرکھڑے ہونا اس لیے تشویش کا باعث ہے کہ سعودی عرب نام کی ریاست برطانوی سامراج کی مدد سے ناجائز طور پر حجاز کے سنّی مسلمانوں کا بڑے پیانے پر قتل عام کرنے ،ان کی مذھبی آزادیوں کو سلب کرکے ،مقامات مقدسہ بشمول جنت معلی و جنت البیقیع کو مسمار کرکے اور بڑے پیمانے پر سنّی آبادی کو تبدیلی مذھب پر مجبور کرکے وجود میں لائی گئی تھی اور آج تک یہ ریاست اہل سنت کے مذاہب اربعیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ان کے عقیدے اور کلچر کے مطابق رہنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے اور وہاں پر وہابی ازم کو زبردستی مسلط کیا ہوا ہے
جنت البقیع کا نیا نقشہ ایسا ہونا چاہئیے
ویسے بھی آل سعود کے جرائم کی تاریخ بہت طویل ہے اس لیے محض آل سعود کا اقتدار بچآنے اور سعودی ریاست کا تحفظ کرنے سے پاکستانی فوج کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوگا اور ہم بھی نہیں چاہتے کہ پاک فوج سلفی آل سعود اور سلفی جہادی داعش کے درمیان ہونے والی لڑائی کا فریق نہیں بننا چاہئیے بلکہ صرف حجاز کے اندر مکّہ ،مدینہ سمیت دیگر علاقوں میں موجود مقامات مقدسہ کی حفاظت تک خود کو مامور رکھنا چاہئیے
اگر پاکستان کی حکومت اور ہماری عسکری قیادت کی کوئی مجبوریاں ہیں تو کم از کم آل سعود کے اقتدار اور سرحدوں کی حفاظت کے بدلے پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کو ایک طرف تو سعودیہ عرب سے یہ مطالبہکرنا چاہئیے کہ وہ جس قدر فوجی اور سول مد میں امداد مصر کے ایک فوجی آمر کو دے رہا ہے اتنی امداد پاکستان کو بھی دے
رائٹر خبر ایجنسی کی 4 اگست 2014ء کی خبر کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس سال مصر کو 20 ارب ڈالر کا امدادی پیکج فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات پہے ہی مصر کو چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر اور سعودیہ عرب نے پانج ارب ڈالر کا پیکج گذشتہ سال مشترکہ 12 ارب ڈالر کے پیکج کے علاوہ دئے تھے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصر کے جنرل السیسی کی حکومت کو سعودی عرب کے کیمپ سے ان دو سالوں میں 5۔41 ارب ڈالر ملنے والے ہیں جبکہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے 5۔1 ارب ڈالر کی امداد پر پاکستانی فوج کو مڈل ایسٹ کے جہنم میں دھکیلنے کی کوشش کی تھی جسے خود پاکستانی فوج کی قیادت کی مخالفت کے سبب ترک کرنا پڑا تھا
ہم صوفی اہلست مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے میں اگر سعودی عرب کی ریاست اور آل سعود کا دفاع اتنا ہی مجبوری کا کام ہے تو پاکستان کو ایک طرف تو اتنا ہی امدادی پیکج ملنا چاہئیے جو سعودی عرب اور اس کے اتحادی مصر کو دے رہے ہیں جبکہ اس پیکج کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو سعودی عرب پر زور دینا چاہئیے کہ ایک تو وہ سعودی عرب میں اہل سنت اور اہل تشیع پر لگی مذھبی پابندیوں کو فی الفور ہٹائے اور ان کی مذھبی ثقافتی پراسیکوشن کا سلسلہ بند کرے اور سعودی عرب میں اس نے جنت معلی اور جنت البقیع میں جن اصحاب رسول رضوان اللہ اجمعین ،اہل بیت اطہار ،تابعین و تبع تابعین اور صالحین امت کے مزارات کو گرایا تھا ان کو دوبارہ سے تعمیر کرے اور اہل سنت و اہل تشیع کو پوری مذھبی آزادی کی ضمانت فراہم کرے
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو سعودی عرب کے سامنے یہ مطالبہ بھی رکھنا چاہئیے کہ ان کے ملک کے سرکاری اور نجی زرایع سے پاکستان کے اندر انتہا پسند تکفیری وہابی و دیوبندی نیٹ ورک کی جو مالی مدد کی جارہی ہے اور وہابیت کا نفرت آمیز لٹریچر جو بڑی تعداد میں سعودی عرب کی مذھبی وڑات اور سفارت خانے کی مدد سے چھپتا ہے کا سلسلہ فوری بند ہونا چاہئيے
سعودیہ عرب کی ریاست انتشار اور زوال کے جس خطرے کا سامنا کررہی ہے وہ خطرہ اسے نہ تو اہل سنت سے ہے اور نہ ہی شیعہ سے ہے بلکہ یہ حطرہ سعودیہ عرب کو ان سلفی نام نہاد جہادیوں سے جن کو پرواں چڑھانے کا سلسلہ سعودیہ عرب نے 80ء کی دھائي میں سی آئی اے ،ایم آئی 6 کی مدد سے شروع کیا تھا اور سعودیہ عرب نے یہ سلسلہ اس جاری عشرے تک تواتر اور تسلسل سے جاری رکھا اور سعودی عرب نے اس معاملے میں اس قدر حدیں پار کرلیں کہ جب امریکیوں نے شام پر فوجی کاروائی سے انکار کیا تو سعودی عرب اکیلا ہی اپنے گلف اتحادیوں کی مدد سے سریع الحرکت سلفی فوج بنانے چل نکلا اور اس سے پہلے جب امریکی اور اس کے اتحادی یورپی ملکوں نے شام میں بشار کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے باغی فوج کی تیاری کا مشن سابق سعودی انٹیلی جنس چیف بندر بن سلطان کو سونپا تھا تو اس نے عراق میں برسرپیکار سلفی جہادیوں اور داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو شام جاکر لڑنے پر راضی کیا تھا اور آج وہی سلفی جہادی خود سعودی عرب پر چڑھائی کے لیے تیار ہیں اور سعودی عرب پر راکٹ برسانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے
سعودی عرب جس مصیبت کا شکار ہونے کا اندیشہ محسوس کرکے پاکستانی اور مصری افواج کے دستوں کو اپنی سرحدوں پر لے آیا ہے اس مصیب کا شکار پاکستان بہت عرصے سے ہے اور اسے اپنے 70 ہزار شہریون بشمول سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں ،بے نظیر بھٹو جیسی بڑی سیاست دان اور کئی ایک صوفی سنّی علماء و مشائح کی شہادت کے ساتھ ساتھ صدیوں سے چلے آرہے صوفی ثقافتی ورثے کی تباہی کا بھی سامنا ہے اور یہ سب کام ان نام نہاد مجاہدوں کا ہے جن کو تزویراتی گہرائی کے نام پر دشمن سے لڑنے کو تیار کیا گیا تھا
پاکستان کی ملٹری و سیاسی قیادت کو مڈل ایسٹ سے بالعموم اور سعودیہ عرب کی حالت سے بالخصوص سیکھنے کی ضرورت ہے کہ نام نہاد جہادی عسکریت پسندی کو اپنی پراکسی کے طور پر پالنا پوسنا بہت خطرناک عمل ہے اور ایک دن یہ بیک فاغر کرتی ہے اور اس سے ریاست کا اپنا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے ،ویسے ہمیں کسی حد تک آئی ایس پی آر کے ترجمان عاصم باجوہ کی بات پر یقین ہے کہ پاکستان کی فوج اور اس کے دیگر ادارے کسی بھی ہمسایہ ملک میں تزویراتی گہرائی کی تلاش نہیں کررہے اور پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب دھشت گردوں کے ایک بڑے اور بنیادی انفراسٹرکچر اور بیس کیمپ کی تباہی کا سبب بنا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کو اس تاثر کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے حقانی نیٹ ورک کو محفوظ راستہ فراہم کیا ہے اور پارہ چنار میں حقانی نکیٹ ورک کے منتقل ہونے کی جو کہانا؛یاں سامنے آئی ہیں اس پر آئی ایس پی آر کو فی الفور وضاحت اور پریس بریفنگ کا انتظام کرنا چاہئیے
http://lubpak.com/archives/319271
حوالہ جات
http://www.reuters.com/article/2014/01/30/us-egypt-saudi-idUSBREA0T0C920140130
http://www.telegraph.co.uk/finance/...-UAE-ready-20bn-boost-for-Egypts-El-Sisi.html
http://www.csmonitor.com/World/Glob...s-again-Saudi-Arabia-UAE-jump-in-to-aid-Egypt
- See more at: http://lubpak.com/archives/319271#sthash.5UHOv5yA.dpuf